بڑھتی ہوئی آلودگی اور ہم
راقم کے پچھلے دوکالم شہری ودیہی زندگی اور کراچی شہر میں ایٹمی پاور پلانٹ کے قیام سے متعلق تھے۔
راقم کے پچھلے دوکالم شہری ودیہی زندگی اور کراچی شہر میں ایٹمی پاور پلانٹ کے قیام سے متعلق تھے۔ قارئین کے فیڈ بیک سے معلوم ہوا کہ ان ایشوز پر بات کرنے سے اکثریت کو خوشی ہوئی کہ ایسے اہم ایشوز کو بھی سامنے لایا جا رہا ہے۔ ایک قاری کا اعتراض تھا کہ جب سستی بجلی ایٹمی پاور پلانٹ سے حاصل ہوسکتی ہے اور ملک سے بجلی کا بحران ختم ہوسکتا ہے تو پھر اس پر اعتراضات کیوں؟ کسی بھی جدید اور صنعتی ملک کو ترقی کے لیے ایسے ہی توانائی کے ذرائع چاہیے ہوتے ہیں۔
اس قسم کے نقاط پر راقم نے پچھلے کالم میں بھی بات کی تھی، سوال محض اتنا سا ہے کہ خطرات کو کس حد تک مول لینا چاہیے مثلاً کچھ ہی عرصے قبل پبلک ٹرانسپورٹ بشمول اسکول کی ٹرانسپورٹ جس میں بچے صبح و شام سفر کرتے ہیں حادثات کا شکار ہوئیں۔ وجہ ان ٹرانسپورٹ میں سی این جی سلنڈر کا استعمال اور بعض میں سی این جی سلنڈر کے بجائے آکسیجن گیس سلنڈر کا استعمال کرنا تھا۔ ان کے استعمال کی وجہ یا جواز کیا ہے؟ یہی کہ اس سے پیسوں کی بچت ہوتی ہے، فیول سستا پڑتا ہے اسی سستے کے چکر میں غیر معیاری اور آکسیجن گیس والے سلنڈر بھی استعمال کرنے کا جواز ڈھونڈا گیا۔
نتیجہ حادثات کی صورت میں ہلاکتیں، جن میں معصوم بچے بھی شامل تھے۔ اب اگر جواز سستی انرجی کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر ہلاکتوں اور حادثات کا سلسلہ طویل ہوتا جاتا ہے، چنانچہ ہر طرف سے آواز آئی کہ یہ غیر معیاری اور خلاف قانون سلنڈرز کا استعمال بند کیا جائے خاص کر بچوں کی اسکول وینوں میں۔ سوال یہ ہے کہ جب بچوں اور دیگر انسانی زندگیوں کو بچانے کے لیے غیر معیاری سلنڈر اور سستے فیول کے حصول کو خیرباد کہا جاسکتا ہے تو پھر سستی بجلی کے حصول کے نام پر ڈیڑھ کروڑ انسانی زندگیوں کے لیے رسک کیوں لیا جائے؟
بہرکیف راقم کی تحریروں کا مقصد فیصلہ صادر کرنا نہیں ہوتا بلکہ اہم مسائل اور چھپے ہوئے مسائل کی طرف توجہ دلانا ہوتا ہے کہ ان پر غور و فکر کیا جائے، آپ فیصلہ کچھ بھی کریں لیکن اگر پہلے غوروفکر کرلیا جائے تو بہتر فیصلے کی طرف جایا جاسکتا ہے۔
راقم کے گزشتہ دونوں کالموں کا ایک تعلق دنیا بھر میں آلودگی سے انسانوں اور کائنات کو پہنچنے والے نقصانات سے تھا۔ ماحولیاتی آلودگی اور مستقبل میں انسانی زندگی کو پہنچنے والے بڑے نقصانات دور حاضر کے اہم ترین مسائل میں سے ایک ہیں لیکن جس طرح اس جانب سے غفلت برتی جا رہی ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کی تباہی میں شاید زیادہ دیر نہ لگے۔ ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والوں کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کی بھی کمی نہیں، باشعور افراد اور تنظیمیں مسلسل اس کے لیے کام کر رہی ہیں۔
اس سلسلے میں ایک دلچسپ خبر ہمارے پڑوسی ملک چین کے متعلق ہے۔چین میں بھی انڈسٹریز اور گاڑیوں کے استعمال سے آلودگی میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ چین کے دارالحکومت بیجنگ میں آلودگی اضافے کے خدشے کے باعث سرعام کھانا پکانے پر ایک بار پھر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ یہاں اب سرعام کھانا پکانے والوں پر 20 ہزار یوان جرمانہ عائد کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے اب یہاں کھلے عام کھانا پکانے اور فروخت کرنے پر بھی پابندی عائد ہوچکی ہے۔ چین میں اس سے قبل بھی 2013 میں اس قسم کی پابندی سے 500 سے زائد باربی کیو اسٹالز ختم کردیے گئے تھے۔
چین میں فروری 2014 میں آلودگی کی سطح، حفاظتی سطح سے 15 گنا زیادہ ریکارڈ کی گئی۔ ایک اور اطلاع کے مطابق چین میں فضائی آلودگی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہاں چینی فوج کے لیزر ہتھیار کی رینج یا صلاحیت 10 کلومیٹر سے کم ہوکر 1 کلومیٹر تک رہ گئی ہے۔ اس خبر کو اگر الٹے مفہوم میں لیا جائے تو چین کو یہ فائدہ حاصل ہوا ہے کہ دشمن کی فوج اگر لیزر ہتھیاروں سے حملہ کرتی ہے تو اس کو آلودگی کے باعث مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس کا ہدف کم ہوکر رہ جائے گا۔ انسانی نقطہ نظر سے دیکھیں تو یہ سطح انتہائی خطرناک آلودہ ماحول کو ظاہر کر رہی ہے۔
پچھلے دنوں چین کی سڑکوں کے منظر پر مشتمل تصاویر میڈیا پر جاری ہوئیں جن میں شہریوں نے آلودگی سے بچنے کے لیے اپنے منہ پر ماسک لگائے ہوئے تھے، ان تصاویر کو دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ اگر آلودگی کی رفتار یوں ہی بڑھتی رہی تو کوئی بعید نہیں کہ مستقبل قریب میں ایسے ممالک کے شہری سڑکوں اور بازاروں میں ماسک پہنے گھومتے اسی طرح نظر آئیں جس طرح آج کل چشمہ پہنے ہوئے لوگ عام نظر آتے ہیں۔
WHO کے مطابق فضائی آلودگی کے ذمے دار اجزا (PM2.5) ایک کیوبک میٹر میں 25 مائیکرو گرام سے زیادہ نہیں ہونے چاہئیں اور اگر یہ 300 ہوں تو پھر بچوں اور بوڑھوں کو باہر نہیں نکلنا چاہیے۔ چینی سرکاری ادارے کے مطابق چین میں یہ سطح 400 تک پہنچ چکی ہے۔یہاں صرف چین کے حوالے سے آلودگی کا مختصراً تذکرہ کیا گیا ہے ورنہ پوری دنیا خصوصاً ترقی یافتہ ممالک میں اس کی صورت حال انتہائی خطرناک ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق امریکا اور چین کاربن گیس کے اخراج میں دنیا بھر میں سرفہرست ہیں۔
آلودگی کے اسباب میں وہ بڑے بڑے سرمایہ دار سرفہرست آتے ہیں جن کی انڈسٹریز میں پیداواری عمل صبح و شام جاری ہے یعنی کئی کئی شفٹوں میں جاری ہے جہاں مشینیں سانس لینے کے لیے بھی نہیں رکتیں، ان سرمایہ داروں کی مجبوری ہے کہ وہ بے تحاشا دولت کمانا چاہتے ہیں اسی لیے WHO اور دیگر غیر سرکاری تنظیموں اور سائنسدانوں کی وارننگ کے باوجود اس کائنات کو بچانے کے لیے سرمایہ دار اپنی مشینوں کی رفتار کم کرنے پر بھی تیار نہیں ہیں۔ لیکن قابل غور بات یہ بھی ہے کہ جو لوگ بڑے بڑے سرمایہ دار نہیں ہیں وہ بھی فضا کو آلودہ کرنے اور اوزون کی سطح کو تیزی سے تباہ کرنے کی طرف تلے ہوئے ہیں یعنی ایک جانب جمہوریت یعنی عوام کے نام پر قائم حکومتیں بھی اپنے منصوبوں کی تشکیل کے وقت اس بات کا خیال نہیں رکھتیں کہ وہ ماحول دشمن نہ ہوں، ماحول دوست منصوبوں کو ترجیح نہیں دی جا رہی۔
دوسری جانب عام شہری بھی آلودہ ماحول کرنے پر تلے ہوئے ہیں مثلاً عموماً لوگ اپنی گاڑیوں کی مینٹیننس نہیں کراتے جس سے شور اور دھواں بلاوجہ ماحول کو آلودہ کرتا ہے، بعض لوگ ہیوی گاڑیاں چلاتے ہیں کہ وہ VIP نظر آئیں حالانکہ کم فیول خرچ کرنے والی چھوٹی گاڑیوں میں بھی سفر کیا جاسکتا ہے، بعض لوگ کاربن خارج کرنے والی اور حرارت خارج کرنے والی مشینیں بھی بلاوجہ چلاتے رہتے ہیں اس جانب توجہ نہیں دیتے مثلاً سونار اور دودھ دہی والوں کی دکانوں پر ضرورت سے زائد بلب روشن ہوتے ہیں، کہیں روزمرہ بجلی کے آلات مثلاً پنکھے بلاوجہ چلتے رہتے ہیں چاہے کوئی کمرے میں نہ ہو، کچھ ضرورت کے بغیر ڈرائیو کرنے کا شوق رکھتے ہیں، ان سب سے انرجی بھی ضایع ہوتی ہے اور فضا بھی آلودہ ہوتی ہے، کہیں میں بھی تو ایسا نہیں کر رہا؟ آئیں سوچیں۔