معاشرتی زوال کا باعث کیا ٹیکنالوجی ہے

مخلوط تعلیمی اداروں میں طالب علموں کے ’’کارنامے‘‘ آئے روز میڈیا کی زینت بن رہے ہیں


جوان لڑکے لڑکیاں انٹرنیٹ پر دوستیاں بڑھا رہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

ہمارے معاشرے میں اولاد جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے تو بیٹے کے والدین کو اس کے سر پر سہرا سجانے کے خواب نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں جب کہ بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے کا ارمان والدین کے دل میں مچلنے لگتا ہے۔


سب والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی بیٹی اپنے سسرال میں راج کرے اور ان کی آنے والی بہو ان کے گھر میں سب کے ساتھ گھل مل کر رہے اور کسی کو شکایت کا موقع نہ دے۔ اب یہ ہر ایک کے اپنے اپنے نصیب اور خوبیوں یا خامیوں کی بدولت ہر ایک کے خواب سچے ثابت نہیں ہوتے کیوں کہ زندگی حقیقت کے مطابق گزارنی پڑتی ہے جب کہ خواب آنکھ کھلنے پر ٹوٹ جاتے ہیں۔


یہ تمہید باندھنے کامقصد یہ تھا کہ ماضی میں اپنے بچوں کی شادی کی فکر والدین کو ہوتی تھی اور وہی اس حوالے سے سارے لوازمات کے ذمے دار ہوتے تھے۔ جب کہ کسی کی اولاد کی یہ جرأت نہیں ہوتی تھی کہ اپنے والدین کی مرضی کے بغیر ادھر ادھر آنکھ گما سکے۔ اسی طرح بیٹیاں بھی اپنی زندگی میں آنے والے شوہر کو اپنی قسمت اور نصیب سمجھ کر قبول کرلیتی تھیں۔


اس وقت اگر کبھی میاں بیوی میں کچھ خلش بن بھی جاتی تو دونوں طرف کے والدین اور بڑے مل کر مسائل کا حل نکال لیتے تھے اور کسی کو ان کے فیصلے کے آگے بولنے کی ہمت بھی نہیں ہوتی تھی۔ اس وقت بچوں اور نوجوانوں کو اپنے والدین تو کیا، اپنے محلے کے بڑوں کی بھی عزت کرنا پڑتی تھی کہ کہیں ان کے والدین کو شکایت نہ کردیں اور پھر شکایت کی صورت میں اپنے گھر سے بھی دھلائی کا اندیشہ ہوتا تھا۔ اس بات کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس وقت والدین کو اپنی اولاد سے محبت نہیں تھی بلکہ یہی تو ان کی خالص محبت تھی جس کی بدولت ان کی اولاد فرماں بردار بھی تھی اور پڑھائی کے معاملے میں بھی بہتر تھی۔ اسکول کے استاد کو بچوں کے حوالے سے مکمل دسترس تھی کہ وہ بچوں کی بہتر تعلیم اور تربیت کےلیے جو اقدام مناسب سمجھیں، وہ اٹھائیں۔ استاد تقریباً سب بچوں کو جانتا تھا، ان کے والدین کے ساتھ بھی رابطے میں ہوتا تھا۔ اگر استاد کسی کے گھر چلا جاتا تو صرف بچہ نہیں بلکہ اس کے سارے گھر والے اسے اپنے لیے باعث عزت و افتخار سمجھتے اور اگر استاد بچے کی شکایت کردیتا تو بس پھر استاد کے گھر سے جانے کی دیر ہوتی اور گھر والے بچے سے دو دو ہاتھ کرنے کو تیار بیٹھے ہوتے۔


اس کے بعد جب سے یہ دنیا ''گلوبل ولیج'' بنی ہے، ہم بھی دوسروں کی دیکھا دیکھی ماڈرن ہوگئے۔ بچے اور جوان مخلوط تعلیمی اداروں میں گئے تو ان کے مزید پر پرزے نکال آئے۔ رہی سہی کسر انٹرنیٹ کی آسان دستیابی اور سوشل میڈیا ایپس نے پوری کردی۔ ہم جیسے جیسے ترقی کرتے گئے تو ابو، ڈیڈی یا پاپا ہوگئے اور امی بھی ممی اور ماما بن گئی۔ جب انٹرنیٹ اور اس جیسی دیگر بیماریوں نے ہمارے گھر کا راستہ نہیں دیکھا تھا تو ہر کسی کے پاس وقت تھا بیٹھنے کا، بات کرنے کا اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کا۔ اب ہر کوئی جلدی میں ہے، ایک دوسرے سے جان چھڑانا چاہتا ہے۔


آج کل ہر کام ماضی کے مقابلے میں بہت کم وقت میں مشینیں کررہی ہیں لیکن ہم سب پہلے سے زیادہ مصروف ہوگئے ہیں۔ ہر شخص تنہائی چاہتا ہے کہ اسے کوئی کونا دستیاب ہوجائے اور موبائل کی بیٹری فل ہو اور نیٹ کے سگنلز پورے آرہے ہوں تو کوئی مسئلہ نہیں۔ چاہے آپ اس سے چائے اور کھانے کا بھی نہ پوچھیں، وہ آپ سے گلہ نہیں کرے گا۔


آج کل کے بچوں کو موبائل دے دیں اور سارا دن اپنا کام تسلی سے کرلیں، وہ آپ کو ڈسٹرب نہیں کرے گا۔ مختصر یہ کہ یہ موبائل اور انٹرنیٹ ہمارا اوڑھنا بچھونا بن چکا ہے۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ اگر قسمت سے چند دوست، گھر والے یا رشتے دار کسی وجہ سے ایک جگہ اکٹھے ہو بھی جائیں تو سوائے معصوم بچوں کی آوازوں کے بس ہُو کا عالم ہی ہوتا ہے، جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ ہر کوئی اپنے موبائل میں مگن ہے، میلوں دور لوگوں سے رابطے میں ہے اور جو ساتھ بیٹھے ہیں ان سے جیسے جنموں کا فاصلہ ہے۔


اب انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہم نے ترقی کا ایک اور زینہ بھی طے کرلیا ہے کہ ہمارے نوجوان لڑکے لڑکیاں انٹرنیٹ پر خود ہی دوستیاں بنا کر اپنے لیے رشتہ ڈھونڈ لیتے ہیں اور انھوں نے اپنے والدین کو اس تکلیف سے بھی چھٹکارا دلا دیا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پچھلے کچھ دنوں سے آئے روز الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے پتہ چلتا ہے کہ کسی کی دلہن جان پر کھیل کر پاکستان اپنے محبوب کے پاس پہنچ گئی اور اسی طرح چار بچوں کی ماں پاکستان سے بھارت جا پہنچی ہے۔ کسی کو کسی کی محبت چلی سے یہاں کھینچ لائی ہے تو کوئی امریکا برطانیہ سے یہاں اپنے محبوب کے قدموں میں ڈھیر ہوگئی۔ اسی طرح ایک عورت نے انٹرنیٹ پر اپنی جوانی کی تصویر کی بدولت یہاں سے کسی منچلے کا چین لوٹا اور یہاں پہنچ گئی لیکن جب محبوب نے اپنی محبوبہ کو حقیقت میں دیکھا تو وہ کہیں بھاگ گیا۔


مخلوط اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے کارنامے بھی آئے روز ٹی وی اور اخبارات کی زینت بن رہے ہیں۔ یہاں لڑکیاں اور لڑکے مل کر تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ٹیچنگ اور ایڈمنسٹریٹو اسٹاف مردوں پر مشتمل ہے تو پھر ایسے ہی واقعات رونما ہوتے ہیں جیسے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا سانحہ سامنے آیا ہے۔ بے شرمی اور بے حیائی کا یہ کھیل نہ جانے کب سے کھیلا جا رہا ہے۔ ایسے واقعات ہر جگہ سے رپورٹ بھی نہیں ہوتے بلکہ اِکا دُکا واقعات کی تو کوئی شکایت بھی درج نہیں کرواتا کہ پہلے عزت گئی اور اب خود اس کے اشتہار کون لگوانا چاہتا ہے؟


گاہے بگاہے ایسے واقعات سامنے آتے ہیں، کمیٹی بنتی ہے اور پھر کوئی اور واقعہ ہوجاتا ہے تو پرانا داخل دفتر کردیا جاتا ہے۔ اگر ہماری حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ایسا صرف اسلامیہ یونیورسٹی میں ہوا ہے اور باقی پورے ملک کے کالجوں، اسکولوں، یونیورسٹیوں میں سب ٹھیک ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ مجھے ذاتی طور پر کچھ یونیورسٹیوں میں مختلف کاموں کی وجہ سے جانا ہوا تو کم از مجھے یہ تعلیمی اداروں سے زیادہ پکنک پوائنٹ نظر آئے۔ جس طرف نظر دوڑائی لڑکا اور لڑکی مل کر بیٹھے ہیں اور کہیں گروپس میں ہلہ گلہ کرنے میں مصروف ہیں۔ تھوڑا لکھے کو کافی سمجھیے ورنہ اس ماحول کی پوری عکس بندی یہاں نہیں کی جاسکتی۔


گلوبل ولیج میں قدم رکھنے سے پہلے ہر طالب علم کو اپنے استاد کا اور ہر بچے کو اپنے والد اور بڑوں کا خوف ہوتا تھا، لیکن جب سے تعلیمی اداروں میں ''مار نہیں پیار'' کا لوگو نافذ ہوا ہے اس کے اس قوم کو دو فائدے ضرور ہوئے ہیں، ایک تو طالب علم کے دل سے استاد کا احترام اور خوف اتر گیا ہے دوسرا وہ پڑھائی میں پہلے سے بہت پیچھے چلا گیا۔ اس کے علاوہ اب بچوں کو والدین کا بھی وہ خوف نہیں رہا جو پہلے ہوتا تھا۔ والدین کو اپنے بچوں سے ہر بات منت سماجت کرکے منوانی پڑتی ہے اور ذرا جوان ہوتے ہیں وہ سیدھا گھر چھوڑنے یا خود کشی کی دھمکی دینے سے بھی نہیں چوکتے۔ ان باتوں نے والدین اور اساتذہ کے ہاتھ پاؤں باندھ کر رکھ دیے ہیں۔


باقی رہی ہماری حکومت اور نظام کو درست کرنے کے ادارے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ کون سی حکومت اور کون سے ادارے؟ فی الحال تو وہ سب ادارے ہی ٹھیک کرنے کے قابل ہیں اور اگر کوئی اس بات سے اتفاق نہیں کرتا تو پھر وہ ان سارے حالات کا ذمے دار کس کو سمجھتا ہے؟ برائے مہربانی اپنی نسل کو سنبھالیے، اپنے تعلیمی نظام کو درست کیجیے۔ نئی ٹیکنالوجی بری چیز نہیں لیکن اس کا غلط اور حد سے زیادہ استعمال نقصان دہ ہے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔