پرانا قلعہ… دلی کے پُرانوں میں سب سے پُرانا گواہ

عجب مقام ہے‘ حیرت و عبرت کے سامان سے لبریز۔ اندر پرستھ کے زمانے سے لے کر 1947ء تک آتے آتے اس نے کیا کیا کچھ دیکھا


Intezar Hussain April 20, 2014
[email protected]

جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ موت کا فرشتہ تو اپنا کام کر گزرا تھا۔ رضا رومی معجزانہ طور پر زد میں آتے آتے بچ نکلے۔ اس خوشی میں یاروں کے حلقوں میں' محفلوں میں' اخباروں کے کالموں میں ان کا ذکر بہت ہو رہا ہے۔ ہم نے سوچا کہ ہم بھی اس خوشی میں شریک ہو جائیں۔ اس کا طریقہ ہم نے یہ نکالا کہ انھوں نے دلی پر جو ایک معرکتہ الآرا کتاب لکھ دی ہے اور جس پر ہم پہلے بہت داد دے چکے ہیں اسے ہم نے دوبارہ پڑھنا شروع کر دیا۔

اہل قلم سے ملاقات کا اور مکالمہ کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی تو ہے۔ کمال کی کتاب لکھی ہے کہ ہم ان کے ساتھ آج کی دلی میں گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ کسی بھی موڑ پر وہ حاضر کے کوچے سے مڑ کر ماضی کے علاقوں میں جا نکلتے ہیں' کبھی عہد مغلیہ میں' کبھی سلاطین دہلی کے زمانے میں' کبھی ان زمانوں سے گزر کر لمبی رقند لیتے ہیں اور ماقبل تاریخ زمانوں میں جا نکلتے ہیں۔ کیا خوب کتاب ہے ع

عالم کی سیر میرؔ کے دیواں میں ہو گئی

دوسری مرتبہ جہاں تہاں سے کھولا اور پھر پڑھنا شروع کر دیا۔ قند مکرر کا مزہ آیا۔ مگر چونکہ اب ہم عجلت میں نہیں تھے۔ اطمینان سے پڑھ رہے تھے۔ سو بیچ بیچ میں ہم ٹھٹھکے بھی۔ کیا مضائقہ ہے کہ اس اپنے تأمل میں رضا رومی کو بھی شریک کر لیا جائے۔ جہاں انھوں نے دلی کے پرانے قلعہ کے اگلے پچھلے زمانوں کو بیان کیا ہے اس بیان کو ہم نے بہت ذوق و شوق سے پڑھا۔

پڑھنا ہی تھا۔ عجب مقام ہے' حیرت و عبرت کے سامان سے لبریز۔ اندر پرستھ کے زمانے سے لے کر 1947ء تک آتے آتے اس نے کیا کیا کچھ دیکھا۔ 47ء میں یوں ہوا کہ جب شہر میں فساد پھوٹ پڑنے پر مسلمانوں کے گلی کوچے مقتل بن گئے تو لوگ بے سروسامانی کے عالم میں گھروں سے نکلے اور اسی پرانے قلعہ میں جا کر پناہ گیر ہوئے اس طرح کہ کھلے میدان میں جا کر ڈیرے ڈال دیے۔ مرے کو ماریں شاہ مدار۔ اوپر سے ہو گئی بارش۔ تصور کر لیجیے کہ عورتوں بچوں بوڑھوں پر کیا گزری ہو گی۔

اس قلعہ کے اگلے پچھلے زمانے کو بیان کرتے کرتے رضا رومی پانڈوئوں کے زمانے میں جا نکلے جب وہ یہاں اندر پرستھ نام والے شہر کے تعمیری منصوبے پر کام کر رہے تھے۔ اس مقام پر آ کر ہم ٹھٹھکے۔ رضا رومی نے بیان کیا کہ مہا بھارت میں لکھا ہے کہ یاں آگے گھنا جنگل تھا اور جنگلی لوگ آباد تھے۔ پانڈوئوں نے جنگل کو کاٹا' جنگلی لوگوں کا صفایا کیا اور پھر شہر آباد کیا۔ مہا بھارت میں بیان یوں نہیں ہے بلکہ اس طرح ہے کہ یہاں گھنا جنگل تھا۔ درختوں کے نام بے تحاشا جھاڑ جھنکاڑ۔ آبادی کے نام سانپ ہی سانپ۔ کیسا کیسا زہری سانپ۔ مہا بھارت نے ان سانپوں کے نام اس تفصیل سے گنائے ہیں کہ کتنے صفحے اس تذکرے سے بھر گئے ہیں۔

ارجن نے سری کرشن جی کی کمک پر جھاڑ جھنکاڑ کو صاف کرنا اور سانپوں کو مارنا شروع کیا مگر کام لمبا تھا۔ تب سری کرشن جی نے اگنی دیوتا سے مدد مانگی۔ اگنی دیوتا نے جنگل کو آگ لگا دی۔ اس آگ سے سب درخت جل کر راکھ ہو گئے سوائے ایک درخت کے' اور سب سانپ جل مرے سوائے ایک سانپ کے۔ اس درخت اور سانپ کی اپنی اپنی کہانی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس طرح یہ بن جو کھانڈو بن کہلاتا تھا صاف ہوا۔ پھر یہاں شہر آباد ہوا جس کا نام اندر پرستھ رکھا گیا۔

رضا رومی آگے چل کر بیان کرتے ہیں کہ جب یہاں خانہ برباد مسلمان ڈیرا ڈالے پڑے تھے تو گاندھی جی ان کا حال معلوم کرنے کے لیے یہاں آئے تھے۔ لکھتے ہیں کہ ستمبر 47ء میں گاندھی جی دلی پہنچے۔ آنے کا مقصد یہ تھا کہ تشدد کی جو آگ بھڑکی ہوئی ہے اسے کسی طرح ٹھنڈا کیا جائے۔ رضا رومی بیان کرتے ہیں کہ گاندھی جی نے پرانے قلعہ جا کر ان دلی والوں کا حال احوال معلوم کیا جو گھر سے بے گھر ہو کر اپنے ہی شہر میں جلا وطنوں والے حال میں دن گزار رہے تھے۔ ان کے خیال میں گاندھی جی نے دیکھا تو ہو گا کہ ان کا حال بھی پانڈوئوں کا سا ہے جو اپنے ہی نگر اندر پرستھ میں دو برس سے جلا وطنی والی زندگی گزار رہے تھے۔ گاندھی جی نے بلوائیوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ یہ خانہ برباد لوگ ''اب میری اور تمہاری پناہ میں ہیں''۔

یہاں پھر رضا رومی سے چوک ہوئی۔ جب دیس نکالا گیا تو پانڈو اندر پرستھ میں کیسے رہ سکتے تھے۔ مہا بھارت میں یوں بیان ہوا ہے کہ یدھشٹر نے اپنی سادگی میں یا کہیے کہ اپنی حماقت میں دریو دھن سے چوسر کھیلتے ہوئے باری باری اپنے بھائیوں کو' اپنے آپ کو اور آخر میں دروپدی کو بھی بازی پر لگا دیا ہر بازی ہار کر یہ سب ہی دریودھن کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے۔ تب بھرت راشٹر نے بیچ میں پڑ کر معافی تلافی کرائی۔ سمجھوتہ یہ ہوا کہ پانڈو کو دیس نکالا دیا جائے۔

وہ اندر پرستھ سے نکل کر بارہ برس تک گمنامی کی زندگی بسر کریں اس طرح کہ کوئی ان کی شناخت نہ کر سکے۔ اگر اس دوران میں کسی نے انھیں پہچان لیا تو ایک دفعہ پھر انھیں اسی سزا کے عمل سے گزرنا ہو گا۔ سو پانڈو اندر پرستھ چھوڑ کر جنگلوں میں نکل گئے اور بارہ برس انھوں نے بھیس بدل کر اس طرح گزارے کہ آج اس نگر میں کل کسی دوسرے نگر میں۔ نگر نگر بن بن کی خاک چھانتے اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پیتے پھرتے پھرے اس حلیے میں کہ انھیں کوئی پہچان نہ سکے۔

بن باس کے دن اس طرح گزار کر آخر کار واپس اپنے نگر اندر پرستھ پہنچے۔ مگر پھر وہی کٹا چھنی۔ انجام کار جنگ۔ کو روکشیتر کے میدان میں رن پڑا۔ نو نیزے پانی چڑھا۔

یہ ہنگامہ پرور تاریخ ماقبل تاریخ کے ذیل میں آتی ہے۔ پرانا قلعہ اس ماقبل تاریخ عہد کی طرف بھی اشارہ کرتا نظر آتا ہے۔ بعد میں جو ہنگامہ پرور عہد آئے ان کا بھی گواہ ہے۔ اب ان سارے ہنگامہ پرور زمانوں کی یادوں کو آغوش میں لیے خاموش کھڑا ہے۔ اس کے ارد گرد نئی زندگی رواں دواں ہے۔ نئے ہنگامے' نئی رونقیں۔ بقول بہادر شاہ ظفر ؎

ظفر احوال عالم کا کبھی کچھ ہے کبھی کچھ ہے

کہ کیا کیا رنگ اب ہیں اور کیا کیا پیشتر یاں تھے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔