سنڈروم

ایک پیچیدہ بیماری، جس کی تشخیص لیبارٹری ٹیسٹ سے ممکن نہیں


غ۔ع April 11, 2014
ایک پیچیدہ بیماری، جس کی تشخیص لیبارٹری ٹیسٹ سے ممکن نہیں۔ فوٹو : فائل

44 سالہ برطانوی شہری ایرک اپنی ٹانگوں میں کھنچاؤ اور پنڈلیوں میں درد کا تعلق اپنے پیدل چلنے اور کام کاج کی زیادتی سے جوڑتے رہے۔

وہ پچھلے چند ہفتوں سے اس تکلیف کی وجہ سے بے آرام تھے۔ انہوں نے سوچا کہ گھر پر آرام کرنے سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا، لیکن دو دن آرام کرنے کے باوجود تکلیف میں برقرار رہی۔ خاص طور پر رات کے وقت انہیں پنڈلیوں میں شدید جلن اور خارش محسوس ہوتی تھی۔ اسی قسم کی شکایت امریکا کے ایک قصبے کی رہائشی جینی کو بھی تھی۔ انہیں اپنی ٹانگوں میں سوئیاں چبھتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں۔ اس تکلیف کی وجہ سے ان کی نیند بری طرح متاثر ہو رہی تھی۔ وہ رات کو بے چینی کے عالم میں بستر سے اٹھ کر ٹہلنے لگتیں۔ اس طرح انہیں تکلیف میں معمولی کمی کا احساس ضرور ہوتا تھا، لیکن یہ راحت بھی وقتی تھی۔ جینی اس کا مستقل علاج چاہتی تھیں۔ ان دونوں نے اپنے ڈاکٹر سے رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ وہ Restless Legs Syndrome کا شکار ہیں، جسے 1940میں میڈیل سائنس نے یہ نام دیا تھا۔



ڈاکٹروں کے مطابق یہ ایک پیچیدہ کیفیت ہے، جسے RLS بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی علامات میں جسم کے زیریں حصّوں کے عضلات میں درد، چبھن یا کچھ رینگنے کا احساس ہونا، اعصابی تناؤ کی کیفیت، ٹانگوں اور پنڈلیوں میں خارش اور تکلیف محسوس کرنا شامل ہیں۔ یہ شکایت زیادہ تر رات کو سوتے وقت ہوتی ہے۔ ایسے افراد کی نیند بار بار ٹوٹتی ہے اور وہ بے چینی کے عالم میں ٹہلنے لگتے ہیں۔ اس عمل سے انہیں وقتی طور پر کچھ سکون مل جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بہت دیر تک کسی جگہ پر بیٹھے رہنے سے بھی یہ مسئلہ جنم لے سکتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس کیفیت میں ٹانگیں اور پنڈلیاں شدید متاثر ہوتی ہیں۔ زیادہ تر ادھیڑ عمر افراد اور حاملہ عورتیں اس مسئلے کا شکار ہوتی ہیں۔

عام بیماریوں کی طرح اس کی تشخیص کے لیے جدید طبی آلات اور لیبارٹری ٹیسٹ کے بجائے ڈاکٹر مریض میں پائی جانے والی علامات پر غور کرتے ہیں۔ اس کے بعد مریض کی مکمل میڈیکل ہسٹری سے واقفیت حاصل کرتے ہیں اور علاج کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اس کیفیت کا شکار افراد کی جانچ کے دوران معلوم ہوا کہ ان کا نروس سسٹم اور خون کی گردش معمول کے مطابق ہے۔



ان کے عضلات بھی نارمل ہیں اور اپنا کام درست طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ چند دوسرے طبی طریقوں سے بھی RLS کا بنیادی سبب معلوم نہیں ہو سکا، لیکن کسی دوسری بیماری میں مبتلا مریض جو اپنا علاج بھی کروا رہے ہوں، انہیں بھی اس مسئلے کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں ڈاکٹر اسے دوسرے عوارض اور اس کے علاج کی وجہ سے پیدا ہونے والا مسئلہ تصور کرتے ہیں اور پہلے اُس سے نجات حاصل کی ہدایت کرتے ہیں۔ ماہرینِ صحت اس نتیجے پر بھی پہنچے ہیں کہ جسم میں پیدا ہو جانے والی بعض خرابیوں کا علاج ہوجائے تو یہ مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے۔

مثال کے طور پر آئرن، وٹامن یا فولک ایسڈ کی کمی کا حل نکالنے سے اس مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس بیماری کا علاج تجویز کرنے سے پہلے ڈاکٹر جسم میں فولاد یا وٹامن کی مقدار معلوم کرتے ہیں اور اسے دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مریض کے لیے مخصوص دوائیں تجویز کرنے کے ساتھ ڈاکٹر پُرسکون اور مکمل نیند کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔ RLS کے مسئلے سے نجات دلانے کے لیے طبی تحقیق کے بعد دوائیں بھی تیار کی گئی ہیں، لیکن ان کے استعمال کا فیصلہ ڈاکٹر ہی کرتا ہے۔ ڈاکٹر کی اجازت کے بغیر کوئی دوا استعمال کرنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔