انیل دتا
اپی پیشہ ورانہ مہارت کی بدولت انگریزی صحافت میں منفرد مقام بنانے والا صحافی
صحافت ایک عبادت ہے، یہ جملہ اکثر سنتے ہیں تو آج کے دور میں حیرانی ہوتی ہے اور عجیب سا لگتا ہے کیوںکہ ہماری نسل کے لیے یہ ایک محض محاورہ ہے لیکن ہمارے معاشرے میں صحافت میں ایک نسل گزری ہے جس نے اس شعبے کا انتخاب عبادت سمجھ کر ہی کیا اور پوری ایمان داری سے اپنی شعبے کے ساتھ انصاف کیا۔ پاکستان میں صحافت کی یہ نسل بڑی نایاب نسل تھی جواب تقریباً ناپید ہوچکی ہے۔
بے شمار صحافیوں نے اپنے اعلیٰ معیار، شخصی وقار اور پیشہ ورانہ مہارت سے اپنا منفرد نام اور مقام بنایا جو موجودہ نسل کے لیے مشعل راہ ہے۔ آج کے مضمون میں ایک ایسے ہی صحافی کی زندگی اور خدمات کا احاطہ کریں گے جنہوں نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی بدولت انگریزی صحافت میں منفرد مقام بنایا۔
سنیئر صحافی انیل دتا 23 اگست 1944 کو لاہور کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ کاتھولک مسیحی گوان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اُنہوں نے ابتدائی تعلیم لاہور کے مشنری اسکولوں سے حاصل کی اور 1965 میں پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کیا اور صحافت کو اپنا کیریئر منتخب کیا۔ بعدازآں وہ کراچی منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے مختلف نامور میڈیا ہاؤسز کے لیے کام کیا۔
صحافی وقار بھٹی لکھتے ہیں، انیل دتا نے ساری زندگی شادی نہیں کی تھی جس کی وجہ سے وہ آخر تک تنہائی کا شکار رہے۔ اُن کا خاندان اور رشتے دار امریکا میں منتقل ہوچکے تھے لیکن اُنہوں نے اپنی ساری زندگی پاکستان میں بسر کرنے کا فیصلہ کیا۔ دتا صاحب 28 جون 2019 کی شام کو حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کرگئے۔ ان کی عمر 74 سال تھی۔ موت کے وقت وہ دی نیوز انٹرنیشنل سے وابستہ تھے جہاں وہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے کام کر رہے تھے۔
سنیئر صحافی مظہر عباس نے کہا کہ ''80کی دہائی کے اواخر سے انیل دتا کے ساتھ طویل رفاقت رہی جب وہ دی اسٹار میں شامل ہوئے۔ انیل ایک ایمان دار، مکمل پیشہ ور اور دیانت دار آدمی تھے۔''
مصنف، فلم ساز، سابق وفاقی وزیر اور سینیٹر (ر) جاوید جبار نے میری درخواست پر انیل دتا کو ان خوب صورت الفاظ میں بیان کیا:
''انیل دتا کو یاد کرتے ہوئے یہ تصویر ذہن میں آتی ہے۔ نرم بولنے والا، خود پر اثرانداز ہونے کے باوجود خود پر یقین رکھنے والا، حساس، پیشہ ورانہ طور پر انتہائی قابل، ایک الگ فرد ایک منفرد شخصیت۔ یہ وہ چند ابتدائی صفات ہیں جو انیل دتا کو یاد کرنے پر ذہن میں آتی ہیں۔
انیل دتا کی انفرادیت اور ان بیان کی گئی خوبیوں کا مجموعہ کافی غیرمعمولی ہے، خاص طور پر صحافت کے شعبے میں جس میں بہت سے لوگوں کے درمیان قیاس، گھٹیاپن، دعویٰ افسوس ناک طور پر تیزی سے سامنے آ جاتا ہے۔
انیل دتا کو سماجی انصاف کے پہلوؤں میں غیرمعمولی دل چسپی تھی۔ اُنہوں نے تسلیم کیا کہ زیادہ تر پاکستانی مسلمان تکثیریت پسند ہیں اور غیرمسلموں کا خیال رکھتے ہیں، وہ خوش فہمی کے خطرات سے باخبر رہے۔ وہ چاہتے تھے کہ معاشرہ اور ریاست انتہاپسندی یا بے راہ روی کے رجحانات کو روکیں، اور ایسے وائرس کو ذہنوں کو متاثر کرنے اور طرزعمل کی تشکیل سے روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔ انہوں نے مصوری، ادب میں مخلصانہ دل چسپی لی۔ چاہے وہ فنون لطیفہ سے متعلق واقعات کی کوریج ہو یا لوگوں کے ساتھ گفتگو۔''
ڈان نیوز سے وابستہ سنیئر صحافی پیرزادہ سلمان سے جب میں انیل دتا کے بارے میں بات کی تو انہوں نے بتایاکہ وہ اور انیل دتا صاحب دونوں کلچر کو کور کرتے تھے۔ عام طور پر ہمارے ہاں صحافت میں کلچر کے شعبے کو بہت آسان سمجھا جاتا ہے لیکن یہ ایک مشکل اور بہت سنجیدہ کام ہے،کیوںکہ اس میں زبان، موسیقی، لباس، ڈانس اور فلم سب شامل ہیں۔ اس لیے صحافی کو اس ضمن میں خاص مہارت حاصل ہونی چاہیے۔
انیل دتا صاحب کو ان سب پر مکمل دسترس حاصل تھی۔ وہ کافی عمر ہونے کے باوجود ہمیشہ آرٹ اور کلچر کے پروگرام خود کور کرنے جاتے اور ہمیشہ وقت پر پہنچتے تھے اور بڑے شوق سے اس پر لکھتے تھے۔ انیل دتا کو میوزک سے بے حد لگاؤ تھا۔ وہ ویسٹرن کلاسک اور ایسٹرن کلاسک میوزک کو بہت پسند کرتے تھے۔ اس لیے جب وہ میوزک کے بارے میں لکھتے تھے تو اُن کی تحریر کا انداز بالکل ہی الگ ہوتا تھا۔ محمد رفیع اُن کے پسندیدہ گلوکار تھے۔
وہ اکثر ان کے گیت گنگناتے تھے۔ وہ محمد رفیع کی کبھی کسی سے برائی سننا برداشت نہیں کرتے تھے۔ صحافت کیوںکہ ایک جنون ہے اس میں ایک خاص قسم کا جنون نہ ہونے کی وجہ سے آپ کو ئی نام اور مقام نہیں پیدا کرسکتے، انیل دتا صاحب صحافت کی جس نسل سے تھے وہ اپنے کام سے عبادت کی حد تک لگاؤ رکھتی تھی۔ وہ اپنے کام کو بڑے جوش وخروش سے ادا کرتے تھے اور صفائی، آداب اور لباس کا خصوصی خیال رکھتے تھے ۔ وہ اکثر عام صحافیوں کے برعکس خاص پروگرامز کے لیے خاص لباس کا انتخاب کرتے تھے۔ وہ ایک حقیقی اور نفیس انسان تھے جو اپنے کام سے بے حد محبت کرتے تھے۔
سنیئر صحافی اور کالم نگار وارث رضا لکھتے ہیں، ''ہمارے سنیئر صحافی انیل دتا سے آخری ملاقات رمضان2019 میں کراچی پریس کلب کی کینٹین میں ہوئی۔ اس کھانے کی محفل کے روح ورواں پیرزادہ سلمان جب کہ شرکا میں خدابخش ابڑو، غازی صلاح الدین اور جاوید ستار سمیت میں بھی شامل تھا۔ کھانے کے بعد ٹیرس پر انیل دتا صاحب سے موسیقی، فلم اور ادب پر پُرمغز گفتگو رہی۔ وہ پاکستانی معاشرے کی گھٹن، انتہاپسندانہ سوچ اور سیاسی بے شعوری سے بہت نالاں اور افسردہ نظر آئے۔
ان کا خیال تھا کہ اس سماج کو بچانے کے لیے روشن خیال سوچ اور جمہوری رویوں کا ہونا ضروری ہے ورنہ یہ سماج ختم ہو جائے گا۔ اس گفتگو کے بعد صحافتی فرض شناسی کا یہ عالم کہ کہا وارث صاحب مجھے ایک پریس کانفرنس کور کرنی ہے سو اجازت۔ مجھے کیا علم تھا کہ ایسے باشعور اور اعلٰی صفات کے شخص سے یہ میری آخری نشست ہوگی۔ عجب آزاد منش شخص تھا وہ۔آہ۔''
سنیئر صحافی ضیاء الرحمن کہتے ہیں انیل دتا بہت ہی پروفیشنل صحافی تھے ۔ وہ اپنے کام سے بے حد مخلص تھے۔ عمر کے اس حصے میں بھی وہ پروگرام کی رپورٹنگ کے لیے خود جاتے تھے۔ اکثر غلط انگریزی لکھنے پر ناراض ہوجاتے۔ اُن کی تحریریں بہت ہی اعلیٰ پائے کی ہوتی تھیں۔ اُن کی تحریروں میں بہترین انگزیزی ہوتی اور الفاظ کا چناؤ شاید ہی کوئی ان سے بہتر انداز میں کرتا ہو۔ وہ شان دار شخصیت کے حامل تھے۔''
ڈان نیوز سے وابستہ صحافی اور انیل دتا صاحب کے دوست نعیم سہوترا کہتے ہیں:
''مسٹر انیل دتا ایک حیرت انگیز انسان تھے، اور بطور صحافی انتہائی پیشہ ور شخصیت کے مالک تھے۔ وہ اعلیٰ اخلاقی اقدار اور اعلیٰ اخلاق کے حامل انسان تھے۔ نظریاتی طور پر وہ ایک کٹر مارکسٹ تھے اور سرمایہ داری کے شدید مخالف تھا لیکن باقاعدگی سے چرچ بھی جاتے تھے۔ میں نے ہولی ٹرینٹی چرچ، صدر میں ان کے ساتھ اتوار کی چند عبادات میں شرکت بھی کی۔
مسٹر دتا بدقسمتی سے ملک میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی اور دہشت گردی کی وجہ سے خوف کی دُنیا میں رہتے تھے۔ ہم اکثر کراچی پریس کلب میں ناشتے، دوپہر کے کھانے یا رات کے کھانے پر ملاقاتیں کرتے تھے، جو بطور صحافی ان کے کیریئر کے دوران ان کا دوسرا گھر تھا۔ اپنی زندگی کے آخری سالوں میں، مسٹر دتا معاشرے میں بڑھتے ہوئے انتہاپسندانہ خیالات کے بعد تنہائی میں چلے گئے تھے، اور بدقسمتی سے کچھ صحافیوں کا رویہ بھی اُن کے ساتھ مناسب نہ تھا۔
پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو اسلام آباد میں ان کے اپنے ہی سیکیوریٹی گارڈز کے ہاتھوں قتل کیے جانے کے ایک دن بعد، مسٹر دتا نے مجھے بتایا کہ وہ اور سلمان تاثیر کراچی کے ایچی سن کالج میں اکٹھے پڑھتے تھے۔ بحیثیت صحافی وہ انتہائی پیشہ ور انسان تھے۔ مسیحی مشنری تعلیمی اداروں کی بدولت جہاں انہیں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا تھا، انگریزی زبان پر ان کو مکمل گرفت حاصل تھی۔ ان کے ساتھی صحافیوں کا خیال ہے کہ مسٹر دتا نے موسیقی، فن اور ثقافت کے مخصوص مسائل پر لکھنے کے لیے گہری بصیرت اور مہارت پیدا کی تھی۔ وہ ملکی اور بین الاقوامی سیاست پر گہری نظر رکھتے تھے۔
اسی لیے ان کے اخبار نے سفارتی تقریبات کی کوریج کے لیے بھی انہیں تفویض کیا تھا کیوںکہ وہ سفارتی اصولوں اور آداب کو جانتے تھے۔ مسٹر دتا نے ساری زندگی شادی نہ کرنے وجہ سے بہت سادہ زندگی گزاری۔ ملک میں حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں، انہیں کسی دوسرے ملک میں امیگریشن یا سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے نہیں جانا تھا کیوںکہ وہ اپنے وطن پاکستان سے پیار کرتے تھے۔2018 میں، جب وہ امریکا میں اپنے رشتے داروں سے ملنے جا رہے تھے، تو اُنہوں نے مجھے کرسمس کے موقع پر پوسٹ آفس کے ذریعے ایک پوسٹ کارڈ بھیجا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ آج کی زندگی میں، جو انٹرنیٹ کے ذریعے چلتی ہے، کتنے سادہ انسان تھے۔''
کراچی پریس کلب سے نکلتے ہوئے شام ڈھل رہی تھی، میں واپس گھر کی جانب آرہا تھا سوچا راستے میں آتے گورا قبرستان میں انیل دتا صاحب کی قبر پر ہو کر چلا جاؤں۔ زندگی میں تنہا رہنا والے دتا صاحب وہاں بھی اکیلے ہی آرام کررہے ہیں۔ سوچا دتا صاحب سے اُن کی زندگی کے متعلق چند سوال پوچھ لوں، پھر خیال آیا، دتا صاحب آرام کرلیں، ایک ہی دفعہ مل کر پوچھیں گے۔
قبرستان سے نکل رہا تھا تو محسوس ہوا کہ ایک طرف قبرستان میں خاموشی اور دوسری طرف شاہراہ فیصل پر زندگی رواں دواں ہے۔ انیل دتا جیسے نفیس انسان اور صحافی ہر معاشرے کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔
جن کی زندگی کے راہ نما اصول، اپنے کام سے وفاداری اور خلوص نوجوان نسل کے لیے کسی روشن مثال سے کم نہیں۔ صحافت، معاشرے اور وقت کے بدلتے منظرناموں نے نئے چیلینجز ہمارے سامنے لا کھڑے کیے ہیں لیکن اب انیل دتا جیسے صحافی کہاں رہے جو اپنی ذات اور مفاد کو پس پر دہ رکھ کر اپنے پیشے سے عبادت کی طرح عشق کرتے تھے۔ کیسے دیوانے اور عجیب لوگ تھے جو اپنے کام پر اپنا سب کچھ وار گئے۔ ایسے کام انیل دتا جیسے لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ انیل دتا آپ کی عظمت کو سلام۔