تعلیم کو تربیت کی ضرورت ہے
آج بھی اگر آپ کو سوشل میڈیا عزیز ہے تو پھر انجام جان لیں۔
مینار پاکستان پر ہونے والا واقعہ ایک ایسی صورت میں قوم کے سامنے آیا ہے ، جس کے نتیجے میں اب ہر شخص اپنی ذات میں اس جانورکو تلاش کر رہا ہے جو کسی بھی وقت بیدار ہوسکتا ہے کسی پر بھی جان لیوا حملہ کر سکتا ہے اُسے نہ اپنے کی پہچان ہے نہ پرائے کی ،اس کا کوئی دین ہے نہ مذہب، کوئی سماج ہے نہ معاشرہ کوئی گھر ہے نہ گھر والے وہ ایک تن تنہا شخص ہے اور اس میں موجود آدم خور جانور دنیا کو ایک جنگل سمجھتا ہے۔
عجیب بات ہے کہ یہ جانور ایک ایسے شخص کے وجود میں رہتا ہے جس نے بظاہر تعلیم بھی حاصل کی ہے بلکہ بعض اوقات تو اس شخص نے گریجویشن تک کی تعلیم حاصل کی ہوتی ہے۔بعض اوقات ماسٹرز تک کی تو پھرکیونکر ممکن ہے کہ وہ اپنے اندر ایک ایسے جانور کی پرورش سے بے خبر رہتا ہے جو انتہائی خونخوار ہوتا ہے کسی کی بھی عزت تار تار کرسکتا ہے، جان لے سکتا ہے ، ایک زندہ انسان کی بوٹی بوٹی نوچ سکتا ہے ، حالانکہ بظاہر تو وہ تعلیم یافتہ ہے۔
مینار پاکستان پر ایک لڑکی کے ساتھ جو انسانیت سوز واقعہ ہوا وہ اسی سوچ کا شاخسانہ ہے ایک خاص طرح کی ذہنی پسماندگی کا خوفناک اظہار جو کسی وقت بھی ہو سکتا ہے کہیں پر بھی ممکن ہے۔ آج اس واقعے پر بہت سی وڈیوز بن رہی ہیں متاثرہ لڑکی سے ہر فورم پر اظہار افسوس کیا جارہا ہے پوری قوم آنسو بہا رہی ہے لیکن اسوقت بھی کچھ عاقبت نا اندیش لڑکیاں سوشل میڈیا پر اپنی ہی بہن بیٹی کے خلاف بھی بول رہی ہیں کہ ان کے ساتھ تو آج تک مینار پاکستان پر کچھ نہیں ہوا۔
اب اس کا ایک مطلب تو واضح ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر سستی اور بے معنی شہرت حاصل کرنے کے لیے ایسا کر رہی ہیں یا پھر وہ بے وقوف اور حد سے زیادہ جاہل ہیں کہ انھیں معاملے کی سنگینی کا احساس ہی نہیں۔ آخری بات مجھ سے کہی نہ جاسکے گی سو میں نہیں کہتا۔ اللہ کرے کہ کسی بہن بیٹی کے ساتھ ایسا کبھی نہ ہو لیکن آپ اپنے ساتھ تو کھڑی ہوں۔
آج بھی اگر آپ کو سوشل میڈیا عزیز ہے تو پھر انجام جان لیں۔ آپ تو اپنی بہن کاساتھ دیں، ہر قیمت پر اسے انصاف دلوائیں اور تب تک چین سے نا بیٹھیں جب تک حکومت اس معاملے پر کوئی واضح قانون سازی نہ کرلے ۔ عورت کھڑی ہوجائے اور ایک تحریک چلائے ان مردوں کو ساتھ لے کر جو معتدل مزاج رکھتے ہوں۔
حد ہوگئی بے سروسامانی کی عدم تحفظ کی ، قبروں سے نکال کر عورتوں کی بے حرمتی کی جا رہی ہے اور کہتے ہیں کہ ہم مرد ہیں اور خواتین اگرآج بھی اپنی ہی صنف کی بے توقیری میں ان ظالم مردوں کا ساتھ اس لیے دے رہی ہیں کہ انھیں میڈیا پر شہرت چاہیے تو وہ یاد رکھیں قدرت کی لاٹھی بے آواز پڑتی ہے۔
قارئین کرام ! کسی بھی طرح کی کرپشن کسی بھی ملک میں جہاں انسانی معاشرے قائم ہیں وہ کسی ان پڑھ نے نہیں کی اس کا کارن ہمیشہ تعلیم یافتہ لوگ رہے ہیں۔ کسی کسان یا دیہاڑی دار مزدور نے ملک کو نہیں لوٹا جو عام طور پر اپنے حالات کے باعث تعلیم سے محروم رہ جاتا ہے بلکہ عالمی جنگوں سمیت تمام جرائم ان لوگوں کے ہاتھوں سرزد ہوئے جو تعلیم یافتہ تھے وہ سائنسدان جنھوں نے بیماریوں کی ادویات ایجاد کیں تو انسانوں کی ہلاکتوں کے لیے ایٹم بم بھی ایجاد کیے۔
وہی انسان جو عظیم نیکیاں کرتا ہے بدترین گناہ بھی اسی سے سرزد ہوتے ہیں ایسا کیوں ہے؟ کیا ہم یہ مان کر اس تلخ حقیقت سے بری الذمے ہوسکتے ہیں کہ اللہ نے انسان کی فطرت میں خیر و شر دونوں ودیعت کیے ہیں؟ میری رائے میں ہمیں اسے جزوی طور پر لینا چاہیے اور اس حقیقت کا مکمل سچ یہ ہے کہ خیر و شر میں توازن کی ذمے داری ہم پر ہی عائد ہوتی ہے اور اسی توازن کے قائم کرنے پر اللہ پاک نے ہم سے آخرت کے لیے نیک وعدے کیے ہیں۔
تعلیم ہمیں تعلیمی اداروں سے حاصل ہوجاتی ہے لیکن تعلیم سے تربیت کلی طور پر حاصل نہیں ہو پاتی جس سے انسانیت کا اور انسان کہلائے جانے کا حق ادا ہوتا ہے اور تربیت ہمیں صرف دین سے ملتی ہے۔ مذہب ہمیں انسانی قدروں کی تعلیم دیتا ہے ، وہیں سے ہمیں انسانی برابری کا درس ملتا ہے۔ حقوق والدین، حقوق اللہ، انسانوں اور حیوانوں کے ساتھ سلوک کی تربیت ملتی ہے۔ بدقسمتی سے جن حادثات سے ہم دوچار ہوئے اور ان دنوں بھی ہو رہے ہیں۔
ان میں تربیت کا فقدان نظر آرہا ہے ورنہ جس نے جرم کیا وہ زیادہ تر پڑھا لکھا شخص تھا ، لیکن ہم نے اپنی اولاد کو دنیاوی تعلیم سے توکسی حد تک بہرہ ورکیا البتہ دینی تعلیم جہاں سے انھیں تربیت ملنی تھی وہ بس اس حد تک دلوائی کہ وہ قرآن پاک پڑھ لے، مدرسے بھی فارغ اوقات میں چلا جایا کرے، کبھی یہ کوشش نہیں کی کہ وہ قرآن یا کوئی بھی مذہبی کتاب پوری طرح سمجھ کر پڑھے اور جان لے کہ آخر اللہ بندے سے چاہتا کیا ہے؟ خالق تو وہی ہے وہ کس طرح سے زندگی گزارنے کا حکم دے رہا ہے؟
سمجھ کر ترجمے کے ساتھ پڑھنے کا رجحان تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے ، لہٰذا ہم یہ جان ہی نہیں پاتے کہ اس عظیم کتاب الٰہی کا موضوع کیا ہے اور یہیں سے ہم تربیت سے محروم رہ جاتے ہیں ، ظاہر ہے فزکس یا کیمسٹری تو ہماری تربیت نہیں کرسکتی۔
میری نظر میں مینار پاکستان پر ہونے والا المیہ ہماری تاریخ کا بدترین واقعہ ہے جسے مدتوں فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ میں نے سوشل میڈیا پر اس خبر اور اس پر ہونے والے ہزاروں کمنٹس پڑھے ہیں ان میں سے اکثر مردوں نے واقعے کا ذمے دار متاثرہ لڑکی کو یہ کہہ کر ٹہرانے کی کوشش کی ہے کہ '' وہ وہاں کرنے کیا گئی تھی؟'' یا '' اس لڑکی نے اشتعال دلانے والے کپڑے کیوں پہنے ہوئے تھے'' میں ان سے پوچھتا ہوں کہ چلو مان لیا اس لڑکی نے نا مناسب لباس زیب تن کیا ہوا تھا تب بھی آپ کو کس نے اجازت دی ہے کہ آپ اس پر حملہ کردیں؟ اگر مردوں کا معاشرہ بھی بد قسمتی سے بن گیا ہے تو اسے ُمردوں کا معاشرہ بنا لینا چاہتے ہیں؟
اگر اس لڑکی کی جگہ آپ کی کوئی عزیزہ ہوتی تب بھی یہی رائے دیتے؟ کیا آپ مردوں کو یہی عورت نہیں جنتی؟ اگر یہ آپ کو پیدا کرنے سے معذرت کرلے تو یہ مردوں کا معاشرہ کیسے بنے گا ؟ اور آپ یہ غنڈہ گردی کیسے کرسکیں گے۔لاہور تو بڑا تاریخی شہر ہے بیک وقت بادشاہ اور اولیائے کرام یہاں قیام پذیر رہے ہیں۔
لاہورکی ایک بہت تاریخی ، علمی اور ادبی حیثیت رہی ہے اور آج بھی ہے۔آپ نے تو اپنے گھر پر داغ لگا دیا اور اس حرکت سے ملا کیا آپ کو ؟کسی نے سوچنے کی زحمت کی تھی کہ اوپر اللہ موجود ہے وہ دیکھ رہا ہے۔
اب اس کا تدارک تو حکومتِ وقت کی ذمے داری ہے لیکن آپ اہل شہر کی ذمے داری یہ ہے کہ آپ واقعے میں ملوث نوجوانوں کی نشاندہی کریں اگرکوئی بھی کسی بھی ایسے شخص سے واقف ہے تو اپنی گواہی اللہ کے واسطے ضرور دے اور اسے گرفتار کروائے۔ جہاں تک پولیس کے موقعہ واردات پر نہ پہنچنے کی بات ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔