انتشار بڑھ رہا ہے
ہر دن ہر سال ہمیں اسے روکنا ہوگا ہر قیمت پر ہر صورت میں اگر ہمیں جینا ہے تو یہی بقا کی جنگ ہے۔
RAWALPINDI:
معاشرہ بنیادی طور پر افراد تشکیل دیتے ہیں۔ افراد کا تعلیمی معیار، شعوری استعداد جو بھی ہوتی ہے وہ ویسا ہی سماج بناتے ہیں۔ دنیا بہرحال آج خاطر خواہ ترقی پر ہے اور دنیا کی ترقی کا مطلب اس میں رہنے بسنے والے انسانوں کی ترقی ہے۔
یہ بھی ماننا ہوگا کہ معاشروں کی تشکیل کردہ اکائیاں اپنی فطری بنیاد سے قطع نظر اپنے وجود میں جزوی تبدیلیوں کا شکار رہتی ہیں جس کا ایک بڑا تعلق ترقی سے ہوتا ہے ، اگرچہ جسے ترقی کہا جاتا ہے اس پر ایک بحث الگ سے ہونا ممکن ہے، لیکن چلیے مان لیتے ہیں کہ وہی ترقی ہے ، تو طے ہوا کہ معمولی اتار چڑھائوکو چھوڑکر جو بنیاد بنائی جاچکی وہی اب معاشرہ ہے اور ہم انسان جہاں بھی آباد ہیں ہمیں ان حدود و قیود میں رہنا ہوگا جسے ہم انسانی معاشرہ قرار دے چکے ہیں اور اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہم پر عالمی قوانین کی خلاف ورزی لاگو ہوگی اور عالمی عدالت میں ہمارے خلاف کیس دائر ہوجائے گا، ہمارے سے مراد یہاں ہر قوم اور ملک ہے بلا تخصیص و رنگ و نسل یہ ایک انسانی معاملہ ہے جس کی پاسداری ہر قیمت پرکرنی پڑتی ہے۔
دراصل ان قوانین کی بنیاد ہی فطرت ہے انسانی فطرت ، تو اس سے اغماز خود اپنی تشکیل سے دوری کا سبب بنتا ہے جس سے انتشار پیدا ہوتا ہے اگر بروقت اصلاح کرلی گئی تو انتشار ختم ہوجاتا ہے ورنہ اس کے بڑھنے کی مقدار میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ وہ قومیں ، ملک تباہ ہوجاتے ہیں اور تاریخ کے ان صفحات کی زینت بن جاتے ہیں جنھیں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔
عزیزان گرامی ! میں نے جس human sosity کا ذکرکیا ہم بطور قوم ان سے بہت دورجاچکے ہیں اور ہنوز یہ سفر جاری ہے ۔تباہی اور بربادی کے اس سفر پر ہم گامزن ہیں، مسلسل ہر سال ، ہرمہینے ، ہر دن ایک حادثہ ایک سانحہ میری بات کا ثبوت ہے ، جس کے خلاف کوئی ایکشن دکھائی نہیں دیتا عدالتیں خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی ہیں ۔ ادارے اپنے کام سے تو کام نہیں رکھتے بلکہ ادھر اُدھر کے کام کرتے پھرتے ہیں ، ڈاکٹرز ، اسپتال ، میونسپل سروسز ،کوئی بھی شعبہ زندگی لے لیں۔
چلیں میت گاڑی سے لے کر قبرستان تک کا جائزہ لے لیں، اندازہ ہو جائے گا کہ ہم تنزلی کی کس انتہا پر کھڑے ہیں اخلاقی پستی تو بہت چھوٹا لفظ ہے کہنا چاہیے کہ کس مجرمانہ نہج پر جا پہنچے ہیں، دیکھ کر خوف آجائے گا، لیکن افسوس کہ اصلاح کی کوئی ایک کوشش کہیں سے بھی نظر نہیں آتی کوئی مسیحا جو درد کے ماروں میں آنکلے۔
ہم نے انسانی معاشرے کی ہر چھوٹی ، بڑی ہر اکائی توڑ ڈالی ، ہر انسانی قانون کی دھجیاں بکھیر دیں، اگرکبھی شاذ و نادر فلاح کا کوئی معمولی سا کام بھی کیا تو درجنوں کیمرے والوں کو بلوا کر اس کام کی تشہیر کی اپنے فوٹوز کھینچوائے ،خبریں چلوائیں اور قبلہ بڑے حکیم صاحب بن بیٹھے ، لیکن گفتگو کی حد تک ہر دوسرے جملے میں ایک حدیث کا حوالہ کسی آیت کا ذکر،غزوات کی مثالیں! باہر سے آنے والا کوئی شخص سنتا ہے تو ایک دفعہ چکرہی کھا جاتا ہے کہ اسلام اگر100%کہیں نافذ ہوا تو وہ پاکستان میں ہے اورکوئی سودا اس نے کرلیا تو اسے لگ پتا جاتا ہے کہ جنگل میں بھی کوئی قانون ہوتا ہوگا ، یہاں کوئی نیا ہی سلسلہ ہے۔
ایک واقعہ مجھے یاد ہے جو میرے ایک دوست نے مجھے سنایا۔ ان کے علاقے میں ایک صاحب کے بیٹے فرانس وزٹ ویزے پرگئے، وہاں انھیں ایک لڑکی سے پیار ہوگیا، لڑکے کی انگلش اچھی تھی بات محبت سے شادی کی طرف جانکلی اور شادی ہو بھی گئی۔ لڑکا لڑکی وہاں تک تو بہت خوش رہے اس کے بعد لڑکا کچھ مدت کے لیے اپنی بیوی کو پاکستان والدین ، بہن بھائیوں سے ملوانے لے آیا جہاں سے ان مسائل نے جنم لیا جو ناقابل حل ثابت ہوئے۔
پاکستان آنے پر لڑکے کے اہل خانہ بظاہر تو خوش ہوئے لیکن ایک دو روز بعد ہی انھیں لڑکی کے لباس اور رہن سہن پر اعتراض ہونے لگا جو رفتہ رفتہ بڑھتا گیا۔ تفصیل کچھ اس طرح سے ہے کہ ابتدا لڑکے کی والدہ کے اس اعتراض سے ہوئی کہ ''بیٹا اپنی بیوی کو اٹھنا بیٹھنا سکھائو وہ کسی کے بھی سامنے بغیر دوپٹے کے آجاتی ہے اور ایسے لباس میں توبہ توبہ ہماری بڑی بے عزتی ہو رہی ہے کچھ کرو۔''
لڑکے نے کہا ''امی وہ فرانس کی رہنے والی ہے وہاں پر ایسا ہی لباس پہنا جاتا ہے اور وہاں کے رسم و رواج ہم سے مختلف ہیں پھر یہ کچھ ہی دن کے لیے آئی ہے ،جلد چلی جائے گی اور میں بھی اس شادی کی وجہ سے وہاں کا نیشنل ہو جائوں گا بس آپ خاموش رہیں۔'' کچھ دن تو لڑکے کی ماں خاموش رہی لیکن پھر بڑبڑانے لگی اس مرتبہ ان کا اعتراض لڑکی کے عیسائی ہونے پر تھا۔ لڑکے نے دلیل دی کہ اہل کتاب سے شادی جائز ہے ماں کا کہنا تھا کہ ان سے شادی جائز نہیں۔ اب تک اس بحث میں لڑکے کے والد اور بہن بھائی بھی شامل ہوچکے تھے اور سب اپنی والدہ کے نقطہ نظر کے حامی تھے گھر میں شدومد سے چہ مہ گوئیاں ہونے لگیں۔ یہ سب کچھ وہ لڑکی بھی دیکھ رہی تھی اس نے بلاآخر اپنے شوہر سے پوچھا ''کیا ماجرا ہے ؟''
لڑکے نے بیوی سے چھپایا نہیں اور سب کچھ بتا دیا وہ لڑکی سن کر بہت پریشان ہوئی اور اس نے لڑکے سے کہا کہ '' یہ سب کچھ تو طے ہوا تھا کہ نہ میں اپنا رہن سہن چھوڑوں گی نہ مذہب ،لڑکے نے اقرار کیا اور بیوی کو تسلی دی کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا ، لیکن سب کچھ ٹھیک نہ ہوسکا بلکہ خراب ہوتا چلا گیا ۔والدین نے بیٹے پر دبائو ڈالا کہ یا تو وہ اپنی بیوی کو طلاق دے یا پھر اسے کلمہ پڑھائے اور اسے اسلامی طور طریقے سکھائے لڑکی نے جب یہ سنا تو وہ بہت پریشان ہوئی اور اس نے اپنے شوہر سے فوراً واپس جانے کے لیے کہا لیکن لڑکا تذبذب کا شکار تھا کہ کس کی مانے سارے گھر والوں کی یا بیوی کی؟
لڑکی اس صورتحال کو بھی سمجھ گئی لہٰذا اس نے کہا کہ وہ خود اکیلی واپس جانا چاہتی ہے لڑکے نے گھر والوں کو بتایا کہ اس کی بیوی تنہا جانا چاہتی ہے کیونکہ اسے یہ شرائط منظور نہیں ۔لیکن لڑکے کے گھر والوں نے کہا کہ اب وہ لڑکی ہمارے گھر کی عزت ہے ایسے کیسے جانے دیں اور اسے کلمہ بھی پڑھانا فرض بنتا ہے۔ ابھی یہ سب کچھ چل ہی رہا تھا کہ لڑکی کے علم میں بھی یہ باتیں آگئیں اس نے معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے فوراً اپنی فیملی سے رابطہ کیا، فیملی نے وقت ضایع کیے بغیر اپنے سفارت خانے سے رابطہ کیا اور لڑکی فرانس لوٹ گئی۔
یہ ہے اُن حالات کی ایک تصویر جن کا ذکر میں نے اس تحریر میں کیا ہے۔ انتشار بڑھ رہا ہے ، ہر دن ہر سال ہمیں اسے روکنا ہوگا ہر قیمت پر ہر صورت میں اگر ہمیں جینا ہے تو یہی بقا کی جنگ ہے۔