زندگی کے نام انتساب
بظاہر دنیا کو تہِ تیغ کردینے کے دعوے رکھنے اور ارادے رکھنے والا انسان من و مٹی تلے دفن ہوجاتا ہے۔
انسان کس قدر بہادر ہے یہ دیکھ کر فخر ہوتا ہے ، کیونکہ ہم انسان ہیں۔ میں اُسے بہادری کا یہ تمغہ یونہی نہیں دے رہا بلکہ اگر آپ اس کی بناوٹ کا جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ وہ اپنے جسم میں اتنی پیچیدگیاں رکھتا ہے کہ اسے اپنے موجود ہونے کا یا نہ ہونے کا ایک پل کا بھی یقین نہیں ہونا چاہیے۔
اس کا دماغ کھربوں خلیات سے بنا ہے اور اُن میں سے صرف چند cells بھی ڈسٹرب ہوگئے تو وہ زندہ نہیں رہتا ، اس کا دھڑکتا ہوا دل صرف چند لمحے کے لیے رک جائے تو وہ کسی اور دنیا کا مسافر بن جاتا ہے۔ بظاہر دنیا کو تہِ تیغ کردینے کے دعوے رکھنے اور ارادے رکھنے والا انسان من و مٹی تلے دفن ہوجاتا ہے۔
اس کی بہادری عقل و خرد سے بالا تر اور سمجھ سے فزوں تر ہے ، لیکن بظاہر کائنات پر اس کی ترقی ، خود اپنے نظامِ زندگی پر اس کا مشاہدہ فضا میں موجود سیاروں اور ستاروں پر اس کا علم ، ایجادات ، بحری اور بری راستوں پر اس کی تحقیق بھی ایسے کارنامے ہیں جنھیں آسانی سے فراموش نہیں کیا جاسکتا ہو۔ زندگی ایک درخت کی مانند ہوتی ہے جس کی جڑ اس کے جذبات ، احساسات کے آب سے سرسبز رہتی ہے لیکن زندگی کا ایک فریم ورک ہے کچھ سرحدیں ہوتی ہیں ، وہ ایک ادب کا قرینہ ، سلیقہ چاہتی ہے۔
ابھی میں نے اس کی جڑکا ذکر کیا تھا تو وہ جڑ صرف انسانی احاطہ میں ہی پھیلتی ہے ، اسے انسانوں کا ہجوم درکار ہے ، قبیلہ ، قوم ، زبان ،شناخت،نام،نسل،تہذیب،ثقافت اس کے آب حیات ہیں اور اس کی خلاف ورزی پر وہ جڑ سوکھ جاتی ہے۔ رہبانیت اس کی منزل نہیں غاروں کو اس نے کبھی پسند نہیں۔ کیا ایک معاشرہ بنانا ،رشتے قائم کرنا ، ان کی آبیاری کرنا ، امن وسکون ،پیار محبت ، زندگی کا تمدن ہیں۔ بلا شبہ انسانوں میں ایسی ایسی عظیم ہستیاں گزری ہیں آسمان بھی جن پر ناز کرتا ہے اور ایسے ایسے شیاطین بھی زندگی ہی نے پیدا کیے جن کو لے کر انسان خود سے شرمسار ہوا۔
قارئینِ ! میں زندگی کے ایک انتہائی مختصر دورانیے پر انسانی سوچ اور ارادے پربحث کرنا چاہتا ہوں ، جو بعض اوقات غیر انسانی سرحدوں کی سمت جا نکلتا ہے اور وہ ایسی غیر فطری بہادری کا مظاہرہ کر جاتا ہے جس پر قدرت اس کی سرزنش کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔
مثال کے طور پر پچھلے دنوں میرے علاقے کے ایک بہت شریف النفس انسان ۔ نام پوشیدہ رکھتے ہوئے قریشی سے مخاطب کروں گا ، میرے پاس آئے چہرے مہرے سے کچھ پریشان لگ رہے تھے۔ میں نے احوال دریافت کیے تو انھوں نے اداسی سے سب ٹھیک بتایا لیکن میں سمجھ رہا تھا کہ کچھ تو گڑبڑ ہے کیونکی قریشی صاحب میرے دیرینہ ملنے جلنے والوں میں سے ہیں ۔لہٰذا میرے اصرار پر بتایا کہ '' بیٹی کے سسرال کی طرف سے کچھ پریشانی ہے'' میں نے تفصیل جاننا چاہی تو کہنے لگے '' داماد ایک مذہبی تنظیم کے ذمے داران میں سے ہے اور یہی دیکھ کر کہ لڑکا شریف اور دیندار ہوگا رشتہ کیا تھا لیکن اب وہ لڑکی کو بہت تنگ کر رہا ہے۔
جہاں ملازمت کرتا ہے ،آدھی تنخواہ اس تنظیم کو دے دیتا ہے کہ جنت کا حقدار قرار پائے ،گھر میں اس وجہ سے تنگی رہتی ہے جب خرچ پورا نہیں ہوتا اور بچوں کی اسکول فیس بھی نہیں بھری جاتی تو لڑتا ہے ،جھگڑا کرتا ہے بلکہ بیوی سے مار پیٹ تک کرتا ہے'' اُدھر قریشی صاحب اور ان کی بیگم نے بیٹی کو ایسی تربیت دی کہ وہ بیچاری اپنی کل کائنات اپنے شوہر اور بچوں کو ہی سمجھتی ہے ، لہٰذا اکثر و بیشتر والدین سے شکایت تک نہیں کرتی لیکن بات تو کہیں سے کھل ہی جاتی ہے۔
قریشی صاحب نے یہ بھی بتایا کہ خود انھوں نے بھی داماد سے اس سلسلے میں کئی بار بات کی جس نے انھیں سختی سے جھڑک دیا اور جواب دیا کہ آپ کیسے مسلمان ہیں جو اپنے عزیز کو جنت سے محروم کر رہے ہیں، آخرکار یہ تنازعہ اس قدر بڑھا کہ بیٹی کوگھر لانا پڑا اور تاحال وہ گھر ہی بیٹھی ہے۔
اسی طرح کچھ عرصہ قبل میرے پڑوس میں ایک فیملی کرائے پر رہنے کے لیے آباد ہوئی ،شوہر کہیں پرائیوٹ جاب کرتے تھے ،کچھ عرصہ تو وہ لوگ امن و شانتی سے رہے لیکن ایک دن جب میں گھر آیا تو اس قدر شور تھا کہ کان پڑے آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ غور سے سننے ہر پتہ چلا کہ محفلِ منعقد کی گئی ہے لیکن لاؤڈ اسپیکر ضرورت سے زیادہ بھی تھے اور ان کی سمت بھی محلے بھر کی جانب رکھی گئی تھی آواز ماشاء اللہ ،بلکہ زیادہ آواز کے باعث اشعار ہی سمجھ میں نہیں آ رہے تھے ۔
میں نے کچھ دیر بہ مشکل گزارا کیا لیکن جب برداشت سے باہر ہوگیا تو ارادہ کیا کہ پڑوسیوں سے کم از کم آواز کم کرنے پر تو مذاکرات کرنے ہی چاہییں ،میں اس ارادے کو لے کر گیا شیخ صاحب سے گزارش کی الفاظ کا چناؤ بھی بہت دیکھ بھال کر کیا کہ کہیں میرے ایمان پر کوئی کاری ضرب نہ پڑ جائے لہٰذامیں نے کہا کہ اگر انھیں ناگوارِ خاطر نہ گزرے تو کچھ volumeکم کردیا جائے ۔جواب میں وہ مجھے بہت حیران نظر آئے اور بولے کہ بھائی آپ کو پتہ بھی ہے یہ دینی محفل ہے؟
میں نے کہا جی مجھے معلوم ہے لیکن بیگم کی طبیعت ذرا ناساز ہے اس لیے درخواست کی ہے ۔وہ دوبارہ گویا ہوئے اور کہنے لگے راؤ صاحب تو بیگم کو ہمارے یہاں بھیج دیں ، محفل میں بیٹھیں گی تو ابھی کہ ابھی بھلی چنگی ہوجائیں گی۔ یہ حکم صادر فرما کر میرا جواب سنے بغیر دروازہ بھیڑ دیا ۔یعنی حضرت انسان خیرکی حقیقت سے بھی نا واقف ہے ، جب کہ فطرت کی ساری خوبصورتی تو وہ وسطی راستہ ہے جسکا ذکر ہر الہامی کتاب میں موجود ہے۔
توازن پس کہ دین و دنیا اسی پلِ صراط سے ہوکرگزرتے ہیں حتی کہ صدقہ ،خیرات ، مدد بھی ایک توازن کو رکھ کر ہی کرنے کا حکم ہے۔ سچ کیا ہے زندگی کا سچ؟ آپ خود اپنے جج ہیں دیکھیے جب بھی آپ کوئی اچھا یا برا کام کرتے ہیں یا جو کچھ بھی کرتے ہیں اس کی سب سے پہلی اور اولین اطلاع خودآپ ہی کو ہوتی ہے آپ کا ضمیر آپ کو ہر آئینہ دکھاتا ہے تو پھر پہلا فیصلہ بھی آپ ہی کو کرنا ہوتا ہے۔ آپ کے بارے میں جو عدالت درست ترین فیصلہ سنائے گی وہ خود آپ ہی کی عدالت ہوگی کیونکہ یہ اندرکی عدالت ہے جہاں جھوٹ نہ بولا جاسکتا ہے نہ ثبوت گھڑے جاسکتے ہیں۔
ہاں باہرکی عدالتوں میں آپ کو شک کا فائدہ مل سکتا ہے یا شک پر سزا بھی ممکن ہے لیکن اس عدالت کے تو جج بھی آپ ہیں اور ملزم بھی۔کہانی نویس بھی اور کردار بھی ، قارئینِ کرام جو میری تحریرکا موضوع ہے میں اس کے حوالے سے زندگی کو توازن کے نذرکرنے کا پیغام دیتا ہوں۔ یقین کیجیے زندگی سے جڑے تمام تر مسائل کا حل اسی میں موجود ہے۔جیسے ایک شعر ہے
بڑھاؤکسی سے نہ الفت زیادہ
مبادہ نہ ہوجائے نفرت زیادہ
یعنی ہر جذبہ توازن کا متقاضی نظرآتا ہے۔