نوجوان مستقبل کے معمار مگر کیا تعمیر کے لیے ہیں تیار

 اپنی سوچ اور رویے بدلیں تو ترقی کی منزلیں آپ کی منتظر ہیں۔


ایاز مورس June 06, 2021
 اپنی سوچ اور رویے بدلیں تو ترقی کی منزلیں آپ کی منتظر ہیں۔

ISTANBUL: نوجوان معاشرے کا چہرہ اور سرمایہ ہیں، یہ کسی بھی معاشرے کی اساس ہوتے ہیں۔ پاکستان اُن خوش قسمت ملکوں میں شامل ہے جہاں نوجوان آبادی کا 60 فی صد سے بھی زیادہ ہیں۔

یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان کی کل آبادی کا 64 فی صد نوجوانوں پر مشتمل ہے، جن کی عمر 30سال سے کم ہے جب کہ کل آبادی کا 29 فی صد وہ ہیں جن کی عمر 15سے 29 سال ہے۔

یہ نوجوان ہمارے مستقبل کی ضمانت ہیں۔ یہ ہمارے مستقبل کے معمار ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ ہمارے مستقبل کے معمار بننے کے لیے تیار ہیں؟ کیوںکہ اگر انسان کا حال درست نہیں تو اُس کے بہتر مستقبل کی اُمید کیسے کی جا سکتی ہے۔

البرٹ آئن اسٹائین نے کہا تھا،''پاگل وہ ہوتا ہے جو روز روز ایک ہی جیسا کام کرتا ہے، مگر چاہتا ہے کہ نتیجہ الگ ہو۔''

معروف موٹی ویشنل اسپیکر ٹونی رابنز نے تو اس بات کو بڑے عمدہ انداز میں بیان کیا ہے،''اگر تم وہی کرو گے جو تم ہمیشہ کرتے آئے ہو ، تو تمہیں وہی ملے گا جو تمہیں ہمیشہ ملتا رہا ہے۔''

ان اقوال سے ہمیں ایک بڑا واضح پیغام ملتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو کچھ منفرد اور ہٹ کر کام کرنا ہوگا۔ مشکلات، مسائل اور چیلنیجز بے شمار ہیں لیکن ان مسائل کے اندر سے اپنے لیے وسائل اور مواقع پیدا کرنے کی صلاحیت کے حامل افراد ہی زندگی میں آگے بڑھتے ہیں۔

ویسے بھی زندگی میں مواقع ملتے کہاں ہیں مواقع بنانے پڑتے ہیں۔

اس مضمون میں ہم اپنے معاشرے کے نوجوانوں کا مختصر جائزہ لیں گے اور اُن کو مستقبل کی تیاری کے لیے چند راہ نما اصول پیش کریں گے تاکہ وہ خود کو بدل کر معاشرے اور ملک کی اجتماعی ترقی و خوش حالی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔

اگر ہم نیک نیتی، صدقِ دل اور وسیع ذہن سے اپنے ملک کے نوجوانوں کی اجتماعی صورت حال کا احاطہ کریں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ ہمارے نوجوان بے شمار قدرتی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ ان میں محنت کا جذبہ اور زندگی میں آگے بڑھنے کی جستجو موجود ہے لیکن یہ اکثر درست سمت کی راہ نمائی، مناسب حوصلہ افزائی اور مسلسل ٹوئنگ (کسی ایک فرد کا دوسرے فرد کو مسلسل آگے بڑھانے کے لیے کوشش کرنا) نہ ملنے کی وجہ سے خود سے مایوس اور حالات سے تنگ آکر معاشرے سے بددل ہوجاتے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ ٹیلنٹ ہونا ہی کافی نہیں ہے، اس کے ساتھ اپنی صلاحیت کا مناسب مواقع پر ادراک، اُس صلاحیت کو وقت کے ساتھ ساتھ نکھارنا اور مستقل مزاجی کے ساتھ کام کرتے رہنا انسان کی ترقی کا سبب بنتا ہے ۔ ہمارے ملک کے سیاسی، معاشی، سماجی اور تعلیمی حالات آئیڈیل نہیں ہیں لیکن حالات و مسائل کا رونا رونے سے دست یاب وسائل کا بہتر استعمال نہیں ہو سکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جو مواقع ہیں ان سے فائدہ اُٹھا یا جائے اور مزید بہتری کے لیے اپنے حصے کی شمع روشن کی جائے۔

امجد اسلام امجد نے کیا خوب کہا ہے:

اندھیرے سے لڑائی کا یہی احسن طریقہ ہے

تمہاری دسترس میں جو دیا ہو وہ جلا دینا

میں جب اکثر ملک کے مختلف حصوں میں نوجوانوں سے مکالمہ کرتا ہوں تو مجھے ان نوجوانوں میں شدید نااُمیدی اور خوف نظر آتا ہے جس کی وجہ سے وہ غصے کا اظہار کرتے ہوئے منفی سوچ اپنا لیتے ہیں۔

پاکستان کے معروف مصنف، دانش ور اور اسکالر جناب جاوید جبار سے پاکستان کے نوجوانوں کے حوالے سے گفتگو میں اُنہوں نے کہا، ''ہمارے ملک کے نوجوانوں میں بے شمار قدرتی صلاحیتیں ہیں لیکن اُنہیں اپنے رویے، زندگی کے طرزِعمل اور مقاصد کو تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔''

یہاں یہ بات بہت ضروری ہے کہ ہمیں اپنے نوجوانوں کا موازنہ ان کے گاؤں، محلے، شہر اور ملک سے نہیں کرنا بلکہ دُنیا کے نوجوانوں سے کرنا ہے۔ ہم پاکستانیوں میں قدرتی، جفرافیائی اور معاشرتی ماحول کی وجہ سے زندگی سے لڑنے کے لیے ایکس فیکٹر موجود ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو زمانے کے لیے رول ماڈل بنانا ہے۔ پاکستانی نوجوان گلوبل لیڈرشپ، فوربس 30، انٹرنیشنل ایکسپرٹ بن کر دُنیا میں اپنے خاندان، کمیونٹی، گاؤں، شہر اور ملک کا نام روشن کریں۔ نوجوانوں کو اپنے مقصد کے حصول کے لیے آغاز مقامی سطح سے کرنا ہے لیکن سوچ عالمی رکھنی ہے۔

سوچ بڑی اور وسیع رکھ کر ہی نوجوان معاشرے میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔ نااُمیدی، غصہ، نفرت اور حسد انسان کی قدرتی صلاحیتوں کو اندر ہی اندر کھا جاتی ہیں، اس لیے ان منفی سوچوں اور رویوں سے بچنے کے لیے باہمت اور مثبت سوچ کے حامل افراد، اداروں اور کتابوں سے وابستگی بڑھائیں۔ ہمت کریں زندگی کو جییں اور حالات کا مقابلہ کرنا سیکھیں تو حالات اور چیز یں بدلیں گی۔

سینٹ آگسٹین نے اس حقیقت کو نہایت عمدگی سے بیان کیا ہے،''اُمید کی دو خوب صورت بیٹیاں ہیں، ان کے نام غصہ اور ہمت ہیں۔ غصہ یہ کہ چیزیں ایسی ہی ہیں، اور ہمت یہ کہ چیزیں ایسی نہیں رہیں گی جیسی وہ ہیں۔''

یہ بات درست ہے کہ آج کے تیزرفتار دور میں نوجوانوں کے لیے زندگی میں آگے بڑھنا ایک بہت مشکل مرحلہ ہوگیا ہے، لیکن یہ آپ کی سوچ ہے جو آپ کی کام یابی کے سفر پر گام زن ہو نے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمارے اردگرد بے شمار ایسے افراد کی مثالیں ہیں جنہوں نے بڑی دلیری کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا اور محدود وسائل میں رہتے ہوئے معاشرے میں اپنا منفرد مقام اور نام بنایا۔ کبھی ہم غور کریں تو ایسے پاکستانیوں کی ایک طویل فہرست بن جائے گی جو ہمارے نوجوانوں کے لیے مشعل ِراہ ہیں۔

ایک امریکی فلاسفر ایم۔سکاٹ پیک اپنی کتاب میں لکھتے ہیں،''زندگی مشکل ہے۔ یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے، یہ ایک عظیم ترین سچائی ہے۔ یہ ایک بہت بڑی سچائی ہے کیوںکہ جب ہم واقعی اس سچائی کو دیکھتے ہیں تو ہم اس کو عبور کرتے ہیں۔ جب ہم ایک بار حقیقی طور پر جان لیں گے کہ زندگی مشکل ہے، جب ہم اسے حقیقی طور پر سمجھ اور قبول کر لیں گے، پھر زندگی کبھی بھی مشکل نہیں رہے گی، کیوںکہ جب ہم اس حقیقت کو ایک مرتبہ قبول کرلیتے ہیں، تو یہ سچ کہ زندگی مشکل ہے کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے۔''

نوجوانوں کی بہتری اور ایمپاورمنٹ کے لیے سرمایہ کاری کرنا کسی بھی قوم کے لیے بہترین اسٹریٹجک سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ اگر نوجوانوں کو بنیادی سہولیات، یعنی، معیاری تعلیم، بہتر اور باعزت نوکری، اچھی طبعی ونفسیاتی صحت کی سہولیات اور جدید دور کے مطابق زندگی بسر کرنے کے ہنر سے آراستہ کر دیا جائے تو یہ ملک و معاشرے کے لیے بہترین ترقی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ نوجوانوں کی اُمیدیں، خوف، خواب اور چیلینجز کو جاننے کے لیے پاکستان نیشنل ہیومین ڈویلپمنٹ کی 2017 کی رپورٹ پڑھ لیں۔ آپ کو اس ملک کے نوجوانوں کے حقیقی مسائل کا اندازہ ہو جائے گا۔

اس رپورٹ میں 100 پاکستانی نوجوانوں کی زندگی کا احاطہ کیا گیا ہے۔

ان 100 نوجوانون پاکستانیوں میں سے 50 لڑکے ہیں اور 50 لڑکیاں۔

100میں سے 67 شادی شدہ ہیں اور 33 غیرشادی شدہ۔

55 پنجاب میں، 23سندھ میں،4 بلوچستان میں، 14کے پی کے میں، 4آزاد کشمیر، کشمیر، فاٹا اورگلگت بلتستان میں رہتے ہیں۔

64 شہروں میںجب کہ 36 دیہی علاقوں میں رہتے ہیں۔

15کی پہلی زبان اردو ہے۔37کی پنجابی، 10کی سندھی، 13کی پشتو، 4کی بلوچی، 13 کی سرائیکی اور 8 دیگر زبانیں بولتے ہیں۔

70 پڑھے لکھے اور 30 ان پڑھ ہیں۔

29 بالکل پڑھے لکھے نہیں۔

16صرف پرائمری تک پڑھے ہیں۔

40 صرف مڈل سے میٹرک اسکول گئے ہیں۔

9 صرف انٹر تک تعلیم حا صل کرسکے ہیں۔

6 نے 12سال تک کی تعلیم مکمل کی ہے۔

39 کے پاس ملازمت ہے جن میں 32 لڑکے اور 7 لڑکیاں ہیں۔

4کے پاس نوکری نہیں اور وہ نوکری کی تلاش میں ہیں۔

57 کے پاس نوکری نہیں اور وہ نوکری کی تلاش میں بھی نہیں۔

100میں سے60 کام نہیں کررہے۔

14 بغیر پیسوں کے کام کررہے ہیں۔

10غیرمستقل ورکر ہیں۔

8 اپنا کاروبار کرتے ہیں۔

8 سیلری ورکر ہیں۔

100میں سے صرف 6 کی لائبریری تک رسائی ہے جب کہ باقی 94 لائبریری کی نعمت سے محروم ہیں۔

100میں سے صرف 7کو کھیلوں تک رسائی ہے باقی93 اس سہولت سے بھی محروم ہیں۔

15کے پاس انٹرنیٹ موجود ہے جب کہ 85 کے پاس نہیں ہے۔

1کے پاس کار ہے، 12کے پاس موٹر سائیکل،10کے پاس سائیکل اور77کے پاس کو ئی سہولت نہیں۔

52 کے پاس موبائل فون ہے جب کہ48 کے پاس فون موجود نہیں۔

رجسٹرڈ ووٹوں میں سے 80 نے گذشتہ الیکشن میں ووٹ ڈالا تھا جب کہ 20 نے نہیں۔

70 نے اپنے آپ کو محفوظ قرار دیا، 15 نے غیرمحفوظ جب کہ 15خو د کو نہ محفوظ اور نہ غیرمحفوظ سمجھتے ہیں۔

89 خوشی محسوس کرتے ہیں جب کہ8 اس سے مختلف اور 3 ناخوش ہیں۔

38 مستقل کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں، 3 کبھی کبھار جب کہ59 شاذونادر ہی حصہ لیتے ہیں۔

67 یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی زندگی ان کے والدین سے بہتر ہے۔18 یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی زندگی ان کے والدین جیسی ہی ہے،15محسوس کرتے ہیں کہ ان کی زندگی اپنے والدین سے بھی بدتر ہے۔

48 یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل بہت بہتر ہو گا، 16کا خیال ہے کہ پاکستان میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، 36 کے نزدیک صورت حال اس سے بھی خراب ہوگی۔

اس رپورٹ سے ہمیں اپنے ملک کے نوجوانوں کی مجموعی صورت حال کا بخوبی اندازہ ہوگیا ہے۔ ہمیں اس ضمن میں ٹھوس، قابلِ تقلید اور جامع اقدام کرنے ہوں گے۔

نوجوانوں کی تعلیم وتربیت کے لیے خصوصی اقدام:

ہمیں اپنے نوجوانوں کی تعلیم کے لیے خصوصی بجٹ مختص کرنا ہوگا۔ ہمارا تعلیمی بجٹ 2.3 انتہائی کم ہے۔ اقوام متحدہ کی ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (HDI2020)

کی رپورٹ کے مطابق 189ممالک میں سے پاکستان کا 154واں نمبر ہے جو اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ ہمیں اس ضمن میں مزید عملی اقدام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

نوجوانوں کی قدر کریں:

لیڈرشپ ایکسپرٹ جان سی میکسویل کہتے ہیں کہ''جب لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ نوجوانوں کی ترقی کے لیے کیا کریں؟ تو میں کہتا ہوں کہ نوجوانوں کی، اپنے خاندان، اسکول، معاشرے اور ملک میں عزت کریں۔ ان کو اہمیت دیں ۔''

نوجوانوں کی سنیں:

ہم یہ شکوہ کرتے ہیں کہ آج کے نوجوان بات نہیں سنتے، لیکن کیا ہم ان کی بات، رائے اور نقطۂ نظر سننے کے لیے تیار ہیں؟

لائف اسکلز:

تعلیم، ہنر اور روزگار کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو لائف اسکلز سکھانا بہت اہم ہے۔ مشکل وقت میں قوتِ ارادی، فیصلہ سازی، ذمے داری، لیڈرشپ اور زندگی کے نشیب وفراز سے آگاہ کرنا بھی ضروری ہے۔

فیصلہ سازی میں شمولیت:

یہ بات طے ہے کہ آج کے دور میں نوجوانوں کو سیاست، مذہب، سماج، خاندان اور زندگی کے ہر پہلو میں فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے مستقبل کے منصوبوں میں اپنی رائے اور سوچ کا اظہار کر سکیں۔

مائنڈ سیٹ بدلیں:

نوجوان اگر اپنی زندگی بدلنا چاہتے ہیں تو اُنہیں اپنا مائنڈ سیٹ بدلنا ہو گا۔ اگر سوچ مثبت اور مائنڈسیٹ درست ہو گا تو مسائل ہی وسائل بن جائیں گے۔

اپنی ذات کی کھوج لگائیں:

دُنیا کی سب سے انمول اور نایاب چیز اپنی ذات کی کھوج کے لیے اپنا وقت، سرمایہ اور قوت لگانا ہے۔ دُنیا کی سب چیزیں آپ کو مل جائیں گی بس اپنی ذات کی کھوج لگائیں۔

زندگی کے مقصد کو تلاش کریں:

اگر انسان دُنیا کے بے شمار خزانے تلاش کر لے لیکن اپنی زندگی کے مقصد کی تلاش نہ کر سکے تو زندگی کا کیا فائدہ؟

سیکھنے کا عمل زندگی کا حصہ بنائیں:

سیکھنے کے رویے کو زندگی بھر کا عمل بنالیں۔ سیکھنے کے لیے جب بھی، جہاں بھی، کہیں بھی ملے سیکھ لیں، اس پر رنگ، نسل، زبان، ملک، مذہب اور عمر کی قید نہ لگائیں۔ زندگی جو سکھائے سیکھ لیں ۔

اپنی توانائی مثبت کاموں میں لگائیں:

جوانی میں جوش اور توانائی ہی اصل طاقت ہوتی ہے اور اکثر لوگ اس توانائی کو موثر طور پر استعمال نہیں کرتے اس لیے اپنی زندگی مثبت کاموں کے لیے وقف کردیں۔

اپنی مثال خو د بنیں:

دُنیا میں پہلے سے موجود مثالیں صرف مثالیں ہیں۔ آپ کو اپنی مثال خود بننا ہے۔ مثالیں بنتی نہیں بنانی پڑتی ہیں۔

اپنی پہچان خود بنائیں:

قدرت نے آپ کو منفرد اور خوب صورت بنایا ہے اس لیے آپ کو معاشرے میں اپنی پہچان خود بنانی ہے۔

نوجوان اپنی سوچ اور رویے بدلیں تو ترقی کی منزلیں اُن کی منتظر ہیں۔

سیکھنے کو زندگی بھر کا عمل بنائیں اور اپنے اُن منفی رویوں کو بدلیں، جو معاشرے سے اخذ کیے ہیں۔ معروف امریکی مصنف ایلون ٹوفلر کا کہنا ہے کہ''اکیسویں صدی میں ان پڑھ وہ لوگ نہیں جو پڑھ اور لکھ نہیں سکتے، بلکہ وہ ہیں جو سیکھنے، نہ سیکھنے اور دوبارہ سیکھنے سے قاصر ہیں۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں