کل اور آج کی دنیا

یہ بھی قدرت کا بس ایک انتباہ ہی ہے ابھی حشر دور ہے قیامت کی نشانیاں پوری نہیں ہوئیں یہ بھی وارننگ ہے۔


[email protected]

یہ ایک بہت عجیب سا اہتمام ہے، اور یہ بعینہ قدرت کی جانب سے ہے، یعنی کل کا انسان کل کی کائنات اور آج کی دنیا یکسر تبدیل ہے۔

میں بیان کرنے کی جسارت کروں تو ذرا مشکل سے ہی بات کو سمجھا پاؤں گا لیکن کوشش کرنے میں حرج نہیں، دیکھیے کل انسان پر اعتماد تھا وہ چاند پر جا چکا تھا، اور اب مریخ اس کا ہدف تھا وہ چاند پر آباد ہونے کے دعوے کر رہا تھا اور مریخ کی زمین کو جاننے کی کوشش میں مصروف عمل تھا ظاہر ہے اسے وہاں بھی آباد ہونا تھا۔ وہ اس پراسرار مخلوق کو بھی کھوج رہا تھا جو ممکنہ طور پر کسی ستارے یا سیارے پر آباد ہوسکتی ہے۔

گویا ہر معلوم سائنس میں انسانی ترقی تیز تر رہی بل خصوص میڈیکل سائنس میں تو کمال کی حدوں کو چھونے لگی، انسان نے جینیاتی سائنس میں نت نئی دریافتیں کیں، اس نے انسانی جین کو ڈی کوڈ کیا اور بلاشبہ وہاں کچھ ایسے سربستہ راز اس کا انتظار کر رہے تھے جنھیں جاننے کے بعد اس نے یہ دعویٰ بھی کردیا کہ وہ آیندہ اس بات پر قدرت حاصل کرلے گا کہ کوئی اچانک موت اسے نہیں ہلاک کر پائے گی بلکہ وہ انسانی جسم میں آیندہ نمودار ہونے والی بیماریوں کا پتہ قبل از وقت لگا کر ان کا پیشگی علاج کر سکے گا۔

اور اس طرح وہ اپنی موجودہ عمر میں خاطر خواہ اضافہ کرلے گا، نیز ایک جین سے وہ ایک نیا انسان کلون کرسکتا ہے اس پر کچھ اطراف سے یہ اعتراض ہوا کہ یہ امر کچھ غیر فطری سا ہے تو تحقیق یا عمل یہ کہہ کر روک دیا گیا کہ چلیں ہم ایسے انسانی اعضاء کا ٹول بکس بنالیں گے جو عام طور پر مشکل سے میچ ہو پاتے ہیں۔

مثًلا kidneyz,liver,heart etc۔ پھر تحقیق اس درجۂ کمال پر جا پہنچی کہ انسانی جینز اور جانوروں کے جینز کی پیوند کاری کی جائے تو ایک ایسے انسان کو پیدا کرنا ممکن ہے جس میں کچھ جانوروں کی حیرت انگیز حسیات ہوں گی جیسے عقابی نظر، بندر کی چستی اور جمپنگ وغیرہ اور اسے سپر ہیومن کا نام دیا جائے گا۔ اور پھر اسی سپر ہیومن پر مشتمل ایک فورس بنائی جائے گی جو عام انسان کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہوگی اور جو مر بھی جائے تو کوئی نقصان نہیں، ایسی فوج جتنی چاہے تیار کی جا سکے گی۔

اسی طرح کل کی کائنات بھی بہت بے فکر اور خوبصورت تھی۔ زمین کا ایک مخصوص درجۂ حرارت اس میں ودیعت کیا گیا جس کے باعث موسم اپنے وجود میں خوبصورت ہوا کرتے تھے موسمی بارشیں، گرمی، سردی، بہار خزاں، خوبصورت آبشاریں، جھرنے، پہاڑ، دریا، سمندر، صحرا، برفیلی چوٹیاں۔

غرضیکہ ایک حسن بے کراں جو ہر سمت پھیلا تھا یہ وہ زمین تھی جو انسان کو قدرت کا ایک حسین تحفہ تھی، جس میں پھول کھلتے تھے، ہری بھری گھاس کے لا متناہی سلسلے تھے، لہلہاتے ہوئے کھیت، فصلیں، لذیذ پھل صاف پانی کیا کیا نہیں تھا جو انسان کو تحفتاً نہیں دیا گیا ؟ لیکن پھر کیا ہوا؟ انسان نے جہاں سائنسی ترقی کی وہیں اس نے قومیں اور قبیلے بنانے شروع کر دیے، مذاہب جو اس پر تہذیب اور تمدن سکھانے کے لیے اتارے گئے اس نے اس میں بھی من پسند ترامیم کرنی شروع کردیں۔

انسان بھول گیا یکسر فراموش کر گیا کہ یہ زمین اس کی ملکیت نہیں ہے وہ اس کا مالک نہیں ہے اس کا مالک کوئی اور ہے اور اسی نے خود انسان سمیت ہر شے کو پیدا کیا، اور خلق کرنے کے بعد ہر شے کو اس کا جہان عطا کیا جس میں ایک خاص مدت تک اسے بسیرا کرنا ہے اور زندگی کو اعتدال، امن کے ساتھ گزارنا ہے۔ انسان مالک بن بیٹھا اور پھر ملکیت کے وہ تقاضے بھی پورے نہ کر سکا جو کسی مالک کو زیب دیتے ہیں۔

وہ مستقل اور مسلسل بے اعتدالیوں میں مصروف رہا، قدرت اسے انتباہ کرتی رہی، الہامی کتب نازل کی گئیں، messengers کے ذریعے سے پیغامات دیے گئے لیکن اس نے انھیں یا تو نظر انداز کردیا یا پھر انھی کو قتل کر ڈالا۔ اس بیچ بیچ قدرتی آفات کا سلسلہ بھی جاری رہا لیکن انسان نے اس سے سبق سیکھنے کے بجائے ان کا توڑ کرنے کی کوشش کی اور کچھ کا علاج تلاش کرکے وہ پہلے سے زیادہ مغرور ہوگیا۔ یہ سرکشی تھی، ہٹ دھرمی تھی، جس کے بعد وائرسز کے سلسلے کی ابتدا ہوئی اور کوڑھ، جذام، ٹی بی، پولیو اور پھر کینسر، ہیپی ٹائٹس a,b,c بتدریج آئے یہ سب قدرت کا انتباہ تھا جسے انسان نا سمجھ سکا اور اپنی من مانیوں میں مصروف رہا پھر سوائن فلو، اسپینش فلو، سارس 3 اور اب covid19 موجود ہے جو قدرت کی پچھلی وارننگز سے کہیں زیادہ سخت اور ناقابل فہم ہے۔

آج پوری دنیا سہمی ہوئی ہے ایٹمی طاقتیں بے بس دکھائی دے رہی ہیں ہر ویکسین کے بعد ہر علاج کے بعد وائرس ایک نئی صورت میں حملہ آور ہوجاتا ہے۔ خود کو عظیم قوم قرار دینے ممالک وائرس کی طاقت کے سامنے بالکل بے بس نظر آرہے ہیں حالانکہ وائرس کے پاس نہ کوئی ایٹم بومب ہے نہ میزائل، نا جہاز ہیں نا بحری بیڑے کچھ بھی تو نہیں ہے پھر بھی بڑی بڑی ایٹمی طاقتیں، میڈیکل سائنس، کوئی بھی سائنس بے بس ہوگئی ہے۔

اگرچہ یہ بھی قدرت کا بس ایک انتباہ ہی ہے ابھی حشر دور ہے قیامت کی نشانیاں پوری نہیں ہوئیں یہ بھی وارننگ ہے اگر حضرت انسان یہاں پر بھی بس کر جائے وہ جان لے وہ انسانی نسل سے تعلق رکھتا ہے وہ یورپی، امریکی، ایشیائی، روسی یا چینی نہیں بلکہ انسانی ہے ایک جیسے اعضاء ایک جیسا جسم، سوچ، فہم رکھتا ہے۔ اسے صبر اور برداشت سے ہی جینا ہوگا اور اپنا دشمن تلاش کرنا ہے تو اسے انسانوں میں نہیں غیر انسانوں میں ڈھونڈنا ہے۔ انسان تو سب برابر ہیں زمین کو ملک کا درجہ ضرور دیں، شناخت کے لیے نام بھی تجویز کریں لیکن ہتھیار ایجاد نہ کریں امراض کی ویکسین بنائیں۔ ہر صدی میں کم ہوتے ہوئے خوراک کے وسائل بڑھانے پر اپنی توجہ مرکوز کریں اور مان لیں کہ کائنات کا خالق و مالک اللہ پاک ہے اور وہ ایک ہے۔

اپنے ہی جیسے انسانوں پر بے جا مظالم کے سلسلے کو فی الفور بند کریں۔ قومی برتری کا جنون بھی ہٹلر کے انجام کے بعد سمجھ میں آ جانا چاہیے تھا جو گمنام ہوگیا اور جسے کچھ نہ ملا لیکن آج تک کوئی نہ سمجھا اور وہی بحث جاری ہے کہ ہم عظیم ہیں !! ارے بھائی ہر دور یا صدی میں کوئی آگے رہا کوئی پیچھے ، کبھی کوئی نظریہ جیت گیا کبھی کوئی فلاسفی، یہ جیت ہار نہیں ہے۔ انسان کب اور کس دور میں جیتا یہ ہے اصل سوال، انسانی قدریں کب فتحیاب ہوئیں ؟

یہ ہے اصل حقیقت اس پر کوئی تاریخ ہے تو سامنے لائیے۔ میرے نزدیک تو ایسا دور صرف حضورؐ کا دور ہے آپؐ کی نبوّت میں انسان جیتا تھا۔ انسانی قدروں کو فروغ ملا تھا۔ عربی کو عجمی پر، گورے کو کالے، امیر کو غریب پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہوگی انسان اپنے اچھے اعمال کی بنیاد پر پرکھا جائے گا، یہ تھا آپ کا پیغام آپؐ کے دور نبوّت میں کسی بھی مذہب، قوم، قبیلے کے فرد، افراد کو وہی حقوق حاصل تھے جو مسلمانوں کو تھے۔

قرآن کریم کا موضوع انسان ہے، اسلام کا موضوع انسان ہے اور حضور نبویؐ کی تمام تر احادیث کا موضوع بھی انسان ہے۔ ورنہ تو انسانی ادوار چنگیزی، فرعونی، ہٹلری سے بھرے ہوئے ہیں اور موجودہ ایٹمی طاقتوں کا ذکر میں کر ہی چکا ہوں۔ بات یہ ہے کہ ہم نسل انسان سے تعلق رکھتے ہیں ہماری قبیلہ، قوم، ملک انسان ہے، اب یا تو اس حقیقت کو مان کر جیا جائے ورنہ کورونا جیسے وائرس یا کسی اور عذاب الٰہی سے گلہ نہ کیا جائے۔ یعنی کیا تک ہے کہ ہم انسان ہوتے ہوئے بھی انسان کشی کرنے لگیں ؟ اور کرہ ارض کا حلیہ بگاڑنے لگیں، قدرت کا مذاق اڑانے لگیں !!ہمیں سوچنا ہوگا تا وقت یہ کہ عقل آجائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں