الوداع…خوش آمدید

کہتے ہیں جب برطانیہ کا کوئی حکمران مرتا ہے تو اس کی لاش محل کے ایک خاص کمرے میں...


Amjad Islam Amjad January 01, 2014
[email protected]

KARACHI: کہتے ہیں جب برطانیہ کا کوئی حکمران مرتا ہے تو اس کی لاش محل کے ایک خاص کمرے میں رکھ دی جاتی ہے اور ساتھ والے کمرے میں نئے حکمران کی تاج پوشی کی رسم کا اہتمام کیا جاتا ہے اور شاید اسی لیے اس موقعے پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ

The King is dead, long live the King

تو نئے سال کے اس پہلے کالم کی صورت حال بھی کچھ ایسی ہی ہے ہم بیک وقت 2013 کو الوداع اور 2014 کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں دیکھا جائے تو یہ منظر دل فریب بھی ہے اور چشم کشا بھی یعنی فرق صرف زاویہ نظر کا ہے البتہ زیادہ مناسب طریقہ شاید یہی ہے کہ دونوں پہلوئوں کو ایک ساتھ دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ کیلنڈر کے حساب سے برسوں کا یہ آنا جانا تو اپنی اصل میں ایک ایسا تماشا ہے جو انسان کا اپنا ہی ایجاد کردہ ہے ورنہ وقت تو بقول اقبالؒ ''ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات'' کے مصداق ہے جس میں ماضی حال اور مستقبل اپنی ظاہری علیحدہ شناخت کے باوجود ایک ہی منظر کے روپ ہیں۔

ہر برس میں نئے سال کے پہلے کالم میں ایک بظاہر مزاحیہ مگر حقیقتاً بہت گہرا شعر درج کیا کرتا ہوں سو اس روایت کو قائم رکھتے ہوئے سب سے پہلے اسی پر ایک نظر ڈالتے ہیں' شاعر کہتا ہے
یکم جنوری ہے' نیا سال ہے
دسمبر میں پوچھیں گے کیا حال ہے؟
یہ خواب اور شکست خواب کا ایک ایسا المناک منظر نامہ ہے جو برس ہا برس سے دہرایا جا رہا ہے ہر نئے سال کے آغاز پر ہم آنے والے دنوں سے کچھ امیدیں وابستہ کرتے ہیں اور پھر سارا سال ان کی راکھ ہماری آنکھوں اور ارد گرد کے مناظر میں اڑتی اور بکھرتی رہتی ہے۔ اقبال نے کہا تھا

صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں' اپنے عمل کا حساب

اب قصہ کچھ یوں ہے کہ ہم نے بالعموم خواہش کو ''عمل'' کا نام دے دیا ہے اور یوں سال کے آخر میں جو حساب ہم سے ہو نہیں پاتا وہ اصل میں ہمارے عمل کا نہیں بلکہ خواہشوں کا ایک ایسا گوشوارہ ہوتا ہے جس میں خرد اور جنوں کی پہچان باقی نہیں رہتی۔ اب ظاہر ہے اگر DATA ہی صحیح نہ ہو تو اس کی بنیاد پر کیا جانے والا حساب کیسے درست اور بامعنی ہو سکتا ہے۔

معیاری (qualitative) اور مقداری (quantitative) دونوں طرح کی تبدیلیاں دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں معیار سے مقدار یا مقدار سے معیار کو علیحدہ کرکے ہم کبھی کسی چیز کی ہیئت اور اثر کا صحیح تجزیہ نہیں کر سکتے تبدیلی اگر معیاری نہ ہو تو اس سے عملی طور پر اس کے مقداری پہلو پر بھی کوئی واضح اور دیر پا اثر مرتب نہیں ہوتا چند برس قبل ایک ٹی وی پروگرام میں ایک اعلیٰ سرکاری ترجمان ارشاد فرما رہے تھے کہ گزشتہ حکومت کے غلط طریقہ کار کی وجہ سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے اب ہم ایک نیا طریقہ کار لا رہے ہیں جس سے سب ٹھیک ہو جائے گا عرض کیا گیا کہ جناب عوام کا اصل مسئلہ روٹی ہے' باورچی نہیں۔ آپ لوگ بار بار باورچی بدل دیتے ہیں جو نہ عوام کا مسئلہ ہے اور نہ ان کا مطالبہ خدا کے لیے سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ ...عوام کا مسئلہ نان ہے نان بائی نہیں۔

کم و بیش یہی صورت حال عوام اور حکمرانوں کے مابین اجتماعی زندگی کے ہر مسئلے اور معاملے میں کارفرما دکھائی دیتی ہے' اقبال نے کہا تھا
عطائے شعلہ' شور کے سوا کچھ اور نہیں

تو اگر ہم قاصدان بہار کے نام پر ہر بار آتش فروشوں سے پھولوں کی تمنا کرتے رہیں گے تو نتیجہ وہی نکلے گا جو اب تک نکل رہا ہے اور آیندہ بھی نکلتا رہے گا کہ جوس مشین میں آپ جو پھل ڈالیں گے اسی کا رس آپ کو ملے گا یہ نہیں ہو سکتا کہ مالٹے کے اندر سے سیب یا سڑابری کا جوس نکلنا شروع ہو جائے کہ یہاں وہ کلیہ منطبق نہیں ہو سکتا کہ
لہو خورشید کا نکلے اگر ذرے کا دل چیریں
سو حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو اصل بات یہ ہے کہ وہ عوام کو ''آسانیاں'' بہم کرنے کی اہلیت اور نیت رکھتی ہو عوام کو ان کی محنت کے صلے میں حق حلال کی روٹی ملتی رہے انھیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ باورچی کون ہے اور اس کے کوائف کیا ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک بطور ایک قوم کے ہماری کارکردگی کوئی بہت زیادہ اچھی نہیں رہی جس کے اصل یا الحاقی اسباب کی گردان بدلی ہوئی آوازوں میں ہم بڑے تسلسل سے سنتے بھی چلے آ رہے ہیں لیکن بغور دیکھا جائے تو اس تاریکی میں روشنی کی اس قدر کرنیں شروع سے موجود رہی ہیں کہ اگر ان کو ظہور کے صرف مناسب مواقع ہی مہیا کر دیے جاتے تو آج چاروں طرف روشنی ہی روشنی ہوتی۔ زندگی کا کون سا ایسا شعبہ ہے جس میں انفرادی سطح پر ہماری قوم نے بے مثال کارکردگی کا مظاہرہ نہ کیا ہو ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی بکھری ہوئی خوبیوں کو ایک جگہ جمع نہیں کر پائے انھیں کسی نظام کا حصہ نہیں بنایا اور ان میں تعمیر کے تسلسل کو قائم نہیں رکھا۔

اوپر سے نیچے تک پھیلی ہوئی ہمہ جہت اور ہمہ گیر بدعنوانی سیاستدانوں کی نااہلی' فوج کی مداخلت' روز افزوں دہشت گردی اور لاقانونیت اور سرحدوں پر جاری مسلسل کشمکش اپنی جگہ لیکن ان سب کے باوجود ہماری قوم میں آگے بڑھنے کی جو ناقابل یقین خداداد صلاحیت ہے اس کے پیش نظر یہ بات اعتماد سے کہی جا سکتی ہے کہ ہمارا مسئلہ صلاحیت کی کمی نہیں بلکہ اس کا صحیح اور موثر استعمال ہے ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم بطور قوم 2013 کو الوداع کہتے وقت اپنے ماضی پر نظر ڈال کر ان غلطیوں کو سمجھنے کی کوشش کریں جو ہم نے گزشتہ برس اور اس سے پہلے کے برسوں میں کیں اور ان سے سبق لے کر ایک نئے عزم اور ارادے کے ساتھ اپنے معاشرے میں انصاف کی حکومت قائم کرنے کی کوشش کریں۔

دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ جس معاشرے میں انصاف قائم ہو جائے وہ آہستہ آہستہ اپنی تمام خرابیوں پر قابو پانے میں کامیاب ہو جاتا ہے لیکن یہ انصاف ہمیں اپنے اندر سے قائم کرنا ہو گا کہ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی جو خود اس کے لیے عمل اور کوشش نہیں کرتی۔
2014 کو اگر روشن امکانات کا سال کہا جائے تو یہ بے جا نہ ہو گا کہ اس برس میں نہ صرف ہماری سرحدوں پر دبائو کم ہونے کی توقع ہے بلکہ اندرون ملک بھی دہشت گردی اور لاقانونیت پر قابو پانے کے لیے
بوجوہ بہتر فضا قائم ہونے کے واضح امکانات پیدا ہو رہے ہیں اور یہ بھی امید کی جا سکتی ہے کہ موجودہ حکومت اپنی غلطیوں سے سیکھ کر ملکی اور بین الاقوامی مسائل کو بہتر انداز میں حل کرے گی جس کے دھندلے اور غیر مرتب ہی سہی مگر آثار نظرآنا شروع ہو گئے ہیں سو اس حکومت اور اس سے توقعات وابستہ کیے ہوئے عوام کی خدمت میں آتش کا یہ شعر دعائوں اور تمنائوں کے ساتھ کہ

سفر ہے شرط' مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجر سایہ دار' راہ میں ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں