کوئٹہ میں تین دن
پی ٹی وی کوئٹہ سے تو میرا تعلق بہت پرانا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اب وہاں مانوس چہرے کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں
نو دسمبر کو ڈی جی نیب بلوچستان نے اینٹی کرپشن کے عالمی دن کے حوالے سے ایک تقریب میں مدعو کر رکھا تھا جس کے لیے 8 دسمبر کی صبح کی فلائٹ لینا پڑی۔ معلوم ہوا کہ یہ اس دن لاہور سے کوئٹہ جانے والی واحد فلائٹ ہے اور اگرچہ اب پی آئی اے کے علاوہ شاہین اور انڈس ایئر کی پروازیں بھی اس سیکٹر پر چل رہی ہیں لیکن پھر بھی لاہور سے کوئٹہ تک براہ راست پرواز شاید ہی کسی دن ایک سے زیادہ ہوتی ہو یعنی کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں آپ کو کم از کم ایک دن کا انتظار تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ زمینی اور ریل کے سفر کی غیر معمولی طوالت کے باعث پروازوں کی اس کمی کی کوئی معقول وجہ واپسی کے بعد بھی سمجھ میں نہیں آ سکی۔
میری واپسی کی فلائٹ شاہین ایئر سے تھی جس کے لاہور کے ایم ڈی برادرم خالد فاروق چشتی ریٹائرڈ ایئرکموڈور نے از رہِ محبت حسب معمول اپنے عملے کو ہدایات دے رکھی تھیں کہ وہ میرا خاص خیال رکھیں لیکن اس کی نوبت ہی نہ آ سکی کیونکہ اب تک کی کسی نامعلوم وجہ کے باعث یہ فلائٹ بھی کینسل ہو گئی اور مجھے مجبوراً پانچ گھنٹے بعد چلنے والی پی آئی اے کی ایک فلائٹ کے ذریعے ایک رات اسلام آباد میں رک کر اگلے دن لاہور آنا پڑا۔ اس ساری تفصیل بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ اس روٹ پر فضائی سفر کو آسان بنایا جائے کہ بوجوہ لوگ پہلے ہی بڑی مشکل سے اس سفر پر تیار ہوتے ہیں جس کا سہرا وہاں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں اور کچھ حد تک ہمارے میڈیا کے سر ہے کہ دونوں کے اشتراک سے بلوچستان کی جو تصویر سامنے آتی ہے اس کا دوسرا رخ دیکھنے اور سمجھنے کے لیے سارے ملک سے لوگوں کا وہاں جانا اور حالات کو سمجھنا بے حد ضروری ہے اور یہی وہ بات ہے جو وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے ان سے ہونے والی دونوں ملاقاتوں میں زور دے کر کہی۔
اب میرے خیال میں جلدی سے اصل میزبانوں یعنی NAB بلوچستان کا ذکر ہو جائے کہ وہ بقول شخصے حساب کتاب میں کسی کا لحاظ نہیں کرتے یہ اور بات ہے کہ پروازوں کی مذکورہ بالا کمی کے باعث انھیں ایک کے بجائے تین راتوں تک میری میزبانی کرنا پڑی اور اگر ان میں صفدر شاہ اور سید خالد اقبال جیسے علم دوست اور میرے ذاتی مہربان نہ ہوتے تو بلا شبہ سارا محکمہ اس وقت غالبؔ کا یہ شعر پڑھ رہا ہوتا کہ
ایک ایک قطرے کا مجھے دینا پڑا حساب
خونِ جگر' ودیعتِ مژگانِ یار تھا
ایئرپورٹ پر نیب کی طرف سے سید آصف رضا اور کوئٹہ آرٹس کونسل کے جنرل سیکریٹری اور ادبی مجلہ ''حرف'' کے ایڈیٹر عزیزی نوید حیدر ہاشمی موجود تھے جو ایک بہت اچھے شاعر اور کالم نگار بھی ہیں معلوم ہوا کہ آج سہ پہر میں وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے ملاقات اور شام کو کوئٹہ کے پی ٹی وی چینل میں ایک Live پروگرام ہے جو بلوچی زبان میں ہوتا ہے لیکن کبھی کبھار کسی بلوچی نہ جاننے والے کو خاص مہمان کے لیے اس میں اردو کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے۔ آج کا موضوع تو عظیم بلوچی شاعر مرحوم گل خان نصیر کو ان کی سالگرہ کے حوالے سے خراج عقیدت پیش کرنا تھا لیکن اس میں میری تحریروں اور اردو بلوچی لسانی رابطوں کو بھی شامل کر لیا گیا جس کا ذکر آگے آئے گا۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں اور زمانہ طالب علمی سے ہی سیاسی محاذوں پر پیش پیش رہے ہیں۔ انقلابی ادب کے دلدادہ ہیں اور ان کی پوری زندگی عملی سیاسی جدوجہد کا ایک روشن باب ہے۔ ان کی قربانیوں اور مختلف اوقات میں قید و بند کی کہانی بہت طویل اور شاندار ہے لیکن میرے نزدیک ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے بلوچستان کی تاریخ میں پہلا غیر سردار وزیراعلیٰ ہونے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ جو لوگ بلوچستان کی سیاست سے آگاہ ہیں وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ انگریز کے زمانے سے قبل، اس کے دوران اور آزادی کے بعد سے اب تک اس علاقے میں سرداروں کے حکم اور مرضی کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں تھا۔ ایسے میں ایک درمیانہ طبقے سے تعلق رکھنے والے شخص کا ان سے بلند تر مقام حاصل کرنا یقیناً ایک نئے اور خوش آئند دور کا آغاز ہے۔
گزشتہ تیس برس میں کئی بار صدر، وزیر اعظم، گورنر اور وزیر اعلیٰ کے محلات اور دفاتر میں ان سے ملاقاتوں کے مواقع ملے ہیں لیکن دہشت گردی کے شدید خطرات کے باوجود جس آسانی اور سادگی سے ہم ڈاکٹر مالک تک پہنچے اور ان کے پرنسپل سیکریٹری نسیم لہڑی نے جس محبت سے ہمارا استقبال کیا اس میں کہیں بھی بیورو کریسی کے اس طنطنے کا دخل نہیں تھا جو اب اجتماعی طور پر اس طبقے کی پہچان بن چکا ہے۔ ڈاکٹر مالک ایک بڑے سے ہال نما کمرے میں آٹھ دس لوگوں کے درمیان اس طرح بیٹھے تھے کہ اگر میں ان کی صورت آشنا نہ ہوتا تو شاید یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا کہ ان میں سے وزیر اعلیٰ کون ہے۔ کمرے کا فرنیچر عام سا تھا اور ڈاکٹر مالک سمیت وہاں بیٹھے ہوئے تمام لوگ بھی عام سی شلوار قمیضوں میں ملبوس تھے۔ یہی حال ان کی واسکٹوں، چادروں اور ٹوپیوں کا تھا۔ معمول کے پروٹوکول اور پر تکلف مسکراہٹوں کے ان دوستوں کی باڈی لینگویج سے ایک ایسی محبت کا اظہار نمایاں تھا جو اقبال کے اس شعر کی مجسم تصویر تھا کہ
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندۂ صحرائی یا مرد کہستانی
میں نے ڈاکٹر صاحب کو ان کی فرمائش کردہ اپنے فلسطینی مزاحمتی شاعری کے منظوم تراجم کی کتاب ''عکس'' کے ساتھ اپنی شاعری کے انگریزی تراجم پر مشتمل کتاب Shifting Sands بھی پیش کی اور انھوں نے اپنے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ بلوچستان میں ملکی اور بین الاقوامی سطح کی علمی اور ادبی کانفرنسوں کے انعقاد کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ اور کتاب کلچر کی سرپرستی اور ترقی پر خصوصی توجہ دیں گے اور اس ضمن میں ملک بھر کے دانش وروں سے مسلسل رابطے میں رہیں گے۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ بھی نیلسن منڈیلا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ماضی کی تلخیوں اور ذاتی انتقام کو بھلا کر اپنے معاشرے کو ایک پر امن اور ترقی پذیر معاشرہ بنانا چاہتے ہیں اور اس سفر میں مقامی سرداروں سمیت تمام طبقوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ مجھے ان کی سوچ اور اپروچ دونوں اچھے لگے اور میں اس دعا کے ساتھ وہاں سے رخصت ہوا کہ انشاء اللہ ان کے اس مشن میں پاکستان کے تمام اہل فکر و نظر ان کے ہم قدم اور ہم راہ ہوں گے۔
پی ٹی وی کوئٹہ کی عمارت اور اسٹوڈیوز سے تو میرا تعلق بہت پرانا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اب وہاں مانوس چہرے کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ البتہ ایک خوبی (جو کوئٹہ کے علاوہ غالباً صرف پشاور سینٹر میں پائی جاتی ہے) اب بھی قائم ہے کہ وہاں کا عملہ اور افسران ہر اعتبار سے اپنے مخصوص علاقائی تمدن کے نمائندے ہیں اور ان کے لباس، گفتگو، مسکراہٹ اور معانقے میں خلوص اور سادگی کی وہ مخصوص مہک قائم ہے جسے ان کا طرۂ امتیاز کہا جا سکتا ہے۔ سو جس طرح جنرل منیجر عطاء اللہ بلوچ نے خود کھڑے ہوکر پروگرام کی Lighting اور Camera Placing کروائی اور ان کے رفقاء نے جس محبت کا مظاہرہ کیا اب اسے دیکھنے کو آنکھیں ترس گئی ہیں۔ پروگرام کے میزبان فاروق شہوانی اور شرکائے محفل ساجد بزدار اور نوید حیدر ہاشمی نے اردو بلوچی رابطوں، میر گل خان نصیر کی شاعری اور میری نثری اور شعری تحریروں کے بارے میں بڑے بامعنی اور اچھے سوالات کیے اور کچھ احباب نے Live Calls کے ذریعے بھی پروگرام میں حصہ لیا۔ لیجیے اصل بات یعنی NAB کی خصوصی تقریب کا ذکر تو رہ ہی گیا۔ سو اب اس پر بات اگلے کالم میں ہو گی کہ ''سفینہ'' چاہے اس بحرِ بے کراں کے لیے''