سفید پوش عوامی طبقہ اور بجٹ

کیا مہنگائی یا روپے کی قدر صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کے لیے ہی متاثر کن تھی؟ عوام کے لیے نہیں؟


Dr Naveed Iqbal Ansari June 18, 2019
[email protected]

ہر اپوزیشن نے ہمیشہ بجٹ کو غلط اورعوام پر ظلم ہی قراردیا ہے اور ہر حکومت نے بجٹ کو عوام کے لیے اچھا تحفہ قرار دیا ہے مگرموجودہ بجٹ کو جب عوامی نظر سے دیکھیں تو یہ انتہائی ظالمانہ اور غیرمنصفانہ بھی نظرآتا ہے اور یہ بھی نظر آتا ہے کہ اس بجٹ سے عوام کا جوطبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوگا وہ سفید پوش لوئرمڈل اور مڈل کلاس طبقہ ہوگا۔ اس کالم میں یہی بات سمجھانے کی کوشش کی جائے گی تاکہ اگر حکومت کا کوئی ذمے دار اس بات کو سمجھ لے تو وہ حکومتی پالیسیوں کو درست کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔

بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں اگر عوام سے ٹیکس لیے جاتے ہیں اور سخت پالیسی بنائی جاتی ہے توکم ازکم انھیں زندگی گزارنے کی بنیادی سہولیات دی جاتی ہیں جن میں صحت، رہائش، تعلیم اور انصاف کی مفت یا آسان تر سہولیات شامل ہوتی ہیں مگر ہمارے ملک میں یہ تمام سہولیات انتہائی مشکل اور مہنگی ترین ہیں۔

راقم نے اپنے گزشتہ کالم میں اس طرف تفصیل سے بات کی تھی کہ ایک عام شہری کی نوے فیصد کے قریب تنخواہ کا حصہ رہائش، صحت اور تعلیم پر ہی خرچ ہوجاتا ہے اگر حکومت کی جانب سے یہ سہولیات مفت نہیں توکم ازکم سستی فراہم کردی جائیں تو ایک عام شہری کا معیار زندگی بھی بلند ہوسکتا ہے اور غربت کی شرح بھی کم ہو سکتی ہے مگر افسوس کے حالیہ بجٹ میں جو پالیسی سامنے آئی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ ایک عام شہری خصوصاً سفید پوش طبقہ کی مشکلات میں معمولی نہیں، بہت حد تک اضافہ ہوگا۔ یہ اضافہ کس طرح ہوگا۔

آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔رہائش کے حوالے سے دیکھیں تو کرائے پر مکان فراہم کرنیوالے پر ٹیکس عائدکرنے کی بات کی گئی ہے، بظاہر تو لگتا ہے کہ یہ رقم مالک مکان سے حکومت وصول کریگی مگر یہ بات طے ہے کہ اگر کسی مالک مکان سے فرض کریں دو ہزار روپے ٹیکس لیا جاتا ہے تو وہ مالک مکان کرائے میں دو ہزار اضافہ کرکے کرائے بڑھا دیگا اور اس ٹیکس کی رقم کا بوجھ اس کرائے دار پر پڑے گا جو پہلے ہی اپنی ماہانہ تنخواہ کا تقریباً نصف کرائے میں دیتا ہے۔

ہوسکتا ہے کہ کوئی حکومتی حامی یہ کہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا ، تو یہ بالکل غلط اور حقیقت کے برعکس ہو گا کیونکہ جب پرویز مشرف نے اقتدار میں آکر سولہ فیصد جنرل سیلز ٹیکس آئی ایم ایف کے کہنے پر لگایا تھا تو اس پر تاجر برادری نے احتجاج کیا تھا کہ یہ ان کے ساتھ ظلم ہے اور اس سے ان کے کاروبار میں مشکلات پیش آئیں گی تاہم یہ ٹیکس لگا تو تاجروں نے دھڑلے سے یہ ٹیکس اشیاء فروخت کی قیمت میں لگا دیا۔

آج بھی یہ ٹیکس دواؤں کے پیکٹس پر بھی تحریر ہوتا ہے اور خریدار یہ لفظ '' سیلز ٹیکس'' پڑھنے کے باوجود ''پرچیز'' کرنے پر دیتا ہے، سوال یہ ہے کہ جب یہ ٹیکس اشیاء بنا کر فروخت کرنیوالوں پر لگایا گیا تھا تو پھر یہ ٹیکس خریدار سے کھلے عام کیسے وصول کیا جا رہا ہے؟ یہ کھلا جرم نہ پرویز مشرف کی حکومت نے روکا، نہ شریف، زرداری حکومت نے نہ موجودہ انصاف کی داعی حکومت نے جو حکومت شریفوں اور زرداریوں کی حکومت کو عوام کا مجرم کہہ رہی ہے ۔اس کے دور میں بھی نہ صرف یہ سیلزٹیکس ، '' پرچیزر'' یعنی عوام سے وصول کیا جا رہا ہے بلکہ اب اس جیسے مزید کئی اور ٹیکس لگا کرکہا جا رہا ہے کہ عوام پر ٹیکس کا بوجھ نہیں ڈالا گیا جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس قسم کے ایک نہیں کئی ٹیکس براہ راست عوام ہی کو ادا کرنے پڑینگے لیکن ان کے نام کچھ اور ہونگے بالکل ویسے ہی جیسے ''سیلز ٹیکس''۔یوں اب کرائے پر مکان دینے والا اپنے اوپر لگائے جانے والا ٹیکس کھلے عام کرائے دار سے وصول کرے گا اورکہے گا ''روک سکو تو روک لو، تبدیلی آئے رے۔''

اسی طرح اب وہ سفید پوش جو اپنی ذاتی گاڑی نہ ہونے پرکرائے کی ٹیکسی کرلیتا تھا ، اسے بھی اب زائدکرایہ ادا کرنا ہوگا محض صرف اس لیے نہیں کہ پٹرول آئے روز مہنگا ہو رہا ہے بلکہ اس لیے بھی کہ نئے بجٹ کی پالیسی کے مطابق اب کرائے والوں کی گاڑیوں سے فی سیٹ کے اعتبار سے ٹیکس لیا جائے گا ، ظاہر ہے کہ اب یہ طبقہ بھی اپنے اوپر لگنے والے ٹیکس کو مسافروں ہی سے وصول کریگا اور یوں شہرکے اندر ہی نہیں شہر سے باہر جانے والے مسافروں سے بھی زائد کرایہ وصول کیا جائے گا لہٰذا اب وہ غریب بھی جو نوکری کے لیے کسی شہر آتا جاتا ہے اس سے متاثر ہوگا۔ دوسری طرف تنخواہ کی مد میں ٹیکس چھوٹ کی حد بارہ لاکھ سے کم کرکے چھ لاکھ کر دی گئی اور غیر تنخواہ دار طبقے کے لیے چار لاکھ حد مقرر کردی گئی جس سے صاف ظاہر ہے کہ لوئر مڈل، مڈل کلاس اور خاص کر سفید پوش طبقہ مالی پریشانی سے سخت دوچار ہوگا۔ جس طریقے سے مہنگائی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور روپے کی قدر میں کمی واقع ہو رہی ہے اس تناظر میں تو تنخواہ کی حد یکدم پچاس فیصد کم کرکے سفید پوش طبقہ پر مزید ظلم کیا گیا ہے۔

تحریک انصاف کا کیا انصاف ہے کہ ایک جانب تو کفایت شعاری کا درس دیکر اپنے صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کا پچھلا خرچہ 98 کروڑ سے زائد کر ڈالا اور آیندہ کے بجٹ میں مزید اضافہ بھی کرلیا، سوال یہ ہے کہ کیا مہنگائی یا روپے کی قدر صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کے لیے ہی متاثر کن تھی؟ عوام کے لیے نہیں؟ جس دن کے اخبارات میں بجٹ کی خبریں شایع ہوئیں اسی دن کے اخبارات میں بجلی کے نرخ میں ڈیڑھ روپے فی یونٹ کے قریب اضافے کا اعلان بھی ہوا جس سے صرف ایک مڈل کلاس کے بجلی کے بل میں کم ازکم دوہزار روپے کا اضافہ بنتا ہے جب کہ یہ سلسلہ رکنے والا نہیں یعنی اگلے بجٹ تک نہ جانے کتنا اضافہ ہو چکا ہوگا۔

یہاں صرف چند فیصلوں کے عوام پر پڑنیوالے ممکنہ اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ دانشمندی کا تقاضہ ہے کہ حکومت اس بات کو سمجھے کہ لوئر مڈل، مڈل کلاس اور خاص کر سفید پوش طبقہ کی مالی مشکلات میں دن بہ دن کس طرح اضافہ ہو رہا ہے۔سب سے بڑا بوجھ عوام پر صحت، تعلیم اور رہائش کا ہے جب کہ حالیہ بجٹ سے رہائش بشمول یوٹیلیٹی بلز کا بوجھ عوام پر سخت ترین ہونے جا رہا ہے ۔ جن ریاستوں میں تعلیم ، رہائش اور صحت کی سہولیات حکومت اچھے انداز میں فراہم کرتی ہے وہاں ٹیکس وصول کرنا سمجھ میں آتا ہے مگر ہمارے ہاں تو ان سہولیات کا سارا بوجھ عوام خود ہی اٹھاتی ہے ۔

عوام خبریں پڑھ رہے ہیں کہ '' وزراء کے اسپیشل سیکریٹریز کی خصوصی تنخواہوں میں پچیس فیصد اضافہ۔ وزیر اعظم اور صدر کے دو طیاروں کی مرمت کے لیے چودہ کروڑ مختص۔ صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کے بجٹ میں اضافہ۔'' یقینا یہ اخراجات و اضافے ضرورت کے مطابق ہونگے مگر اہم ترین سوال یہ کہ کیا کسی کو عوام کے نچلے طبقے کی ضروریات بھی نظر آتی ہیں؟ کیا اس ملک کے عوام اتنے عیاش اور صاحب حیثیت ہیں کہ ان پر ٹیکس کی بھر مار کر دی جائے؟ یہ وقت ہے سوچنے کا، حکمرانوں کے سوچنے کا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔