نئی سڑکیں نئی اکھاڑ پچھاڑ
مطلب یہ ہے کہ لاہور کے پیادوں اور سواروں کو بھی آپ رہروانِ راہ محبت میں شمار کریں
MITHI:
شاعر نے یہ شعر شاید ہمارے آپ ہی کے لیے کہا ہے کہ ؎
رہروِ راہ محبت کا خدا حافظ ہے
اس میں دوچار بہت سخت مقام آتے ہیں
مطلب یہ ہے کہ لاہور کے پیادوں اور سواروں کو بھی آپ رہروانِ راہ محبت میں شمار کریں کیونکہ لاہور کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے بھی جا بجا سخت مقام آتے ہیں۔ بیچ بیچ میں ایسے زمانے بھی آتے ہیں، جب دو چار نہیں بلکہ جدھر سے گزرو ایسے مقامات آتے چلے جاتے ہیں۔
ابھی پچھلے دنوں تک سوار اور پیاد ے کتنے لمبے عرصے تک اس شہر کی سڑکوں پر خراب ہوتے رہے۔ لگتا تھا کہ شہر کی ساری سڑکیں تخریبِِ تمام کی زد میں ہیں مگر ساتھ میں یہ امید تو تھی کہ یہ تخریب تمام نئی تعمیر کا پیش خیمہ ہے۔ جلدی وہ وقت آئے گا کہ سڑکوں کا سارا چولا ہی بدل جائے گا۔ خیر وہ وقت جلدی تو نہیں آیا۔ مگر آ گیا۔ نئے پل نئی شاہراہیں' نئے دوراہے چوراہے دیکھ کر کتنا دل خوش ہوا۔ ارے یہ تو لاہور کی کایا کلپ ہو گئی۔ کیا پیاد ے کیا سوار ان راہوں سے گزرتے ہوئے کتنے خوش نظر آ رہے تھے۔
مگر وائے بر حال ما۔ ہمارے ساتھ وہ مضمون ہوا کہ ع
آ کے بیٹھے بھی نہ تھے اور اُٹھائے بھی گئے
انھی نئی نویلی سڑکوں پر جو شیشوں کی طرح چمک رہی تھیں پھر کھدائی ہونے لگی۔ آپ بیتی سناتے ہیں کہ سویرے جو کل آنکھ اپنی کھلی تو ہم نے خوشی خوشی گھر سے قدم نکالا۔ جیل روڈ پر چار قدم چل کر مزنگ چونگی پر، جسے اب ہم چوک قرطبہ کہتے ہیں، پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ سڑکیں یہاں سے وہاں تک کھدی پڑی ہیں اور جا بجا ملبہ کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ ہم حیران کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ یہ سڑک کل بن کر تیار ہوئی تھی آج اسے ادھیڑ ڈالا۔ ارے نیک بختو ذرا تو سانس لیتے۔ خدا خدا کر کے تم نے اس چوک کو اور اس شاہراہ کو ایک نئے سانچہ میں ڈھالا تھا۔ اتنی عجلت کیا تھی کہ ترت کے ترت اسے ادھیڑ ڈالا۔
مگر کیوں۔ یہ کھدائی کس خوشی میں۔ پتہ چلا کہ پانی کی نکاسی کے لیے زمین دوز پائپ ڈالنے بھول گئے تھے۔ اب نو تعمیر سڑک کو ادھیڑ کر پائپ ڈالے جا رہے ہیں۔
ہم نے یہ اپنے علاقہ کا نقشہ دیکھا ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ شہر کی نئی بنی سڑکوں کے ساتھ جا بجا یہ سلوک ہو رہا ہے۔ اس پر ہمیں ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ آپ نے سن رکھا ہو گا کہ ایک زندہ دل نے یاروں کی دعوت کی۔ دعوت شاندار تھی۔ دستر خوان پر قسم قسم کے کھانے چنے گئے۔ یاروں نے کھایا پیا۔ جب کلی کر کے ہاتھ دھو کر باہر نکلے تو میزبان دوڑا ہوا آیا اور پکارا کہ یارو ذرا ٹھہر جائو۔ ہماری سگھڑی بیگم صاحب سالن میں زیرہ ڈالنا تو بھول گئی تھیں تو زیرہ اب حاضر ہے۔
جن معماروں، انجینئروں نے نئی سڑکوں کا یہ نقشہ بچھایا تھا ان کا حال بھی اس سگھڑ بی بی کا سا ہے جو ہنڈیا کو دم دیتے وقت اس میں زیرہ ڈالنا بھول ہی گئی تھی۔کیا خوب ماہرین و معماران سڑکات ہیں۔ سڑکوں کا نقشہ خوب بنایا اور خوب جمایا۔ بس اس میں ایک آنچ کی کسر رہ گئی اور اس کمبخت ایک آنچ کی کسر نے ہمارے ساتھ اچھی خاصی خرابی کر دی۔ اب پھر ہمارے لیے ان سڑکوں سے گزرتے ہوئے خرابی ہی خرابی ہے۔ ارے ان ماہرین سے کوئی یہ پوچھنے والا نہیں ہے کہ یہ تم نے سڑکیں بچھاتے وقت پانی کی نکاسی کے مسئلہ کو کیسے فراموش کر دیا۔
نئی سڑک کے ساتھ یہ کتنی زیادتی ہے کہ اس کی تعمیر کے فوراً بعد اسے ادھیڑ ڈالا جائے۔ اب جہاں جہاں ان سڑکوں کے ساتھ یہ واقعہ گزرا ہے اب ان میں پیوند لگائے جائیں گے۔ یہ ایسی بات ہے کہ آپ پہننے کے لیے بڑے شوق سے ایک نیا جوڑا بنائیں۔ پھر جب شوق سے اسے پہنیں تو دوسرے تیسرے دن وہ جگہ جگہ سے پھٹ جائے اس طرح کہ اس میں پیوند لگانے پڑیں۔
ویسے لاہور کی سڑکوں کے ساتھ ایسا سلوک کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہمیشہ کب سے یہ دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ جب کوئی نئی سڑک بنتی ہے تو ادبدا کر کسی نہ کسی سمت سے اسے ادھیڑنے والے نمودار ہو جاتے ہیں۔ بھئی یہ کون لوگ ہیں کہ اس سڑک پر جو اب اتنی ہموار ہو گئی تھی اس میں گڑھا کر دیا' دراڑیں ڈال دیں۔ کبھی یہ قبیح حرکت کرنے والے ٹیلی فون والے ہوتے ہیں' کبھی سوئی گیس والے' کبھی بجلی والے' کبھی نکاسی آب والے' ارے بابا پہلے تم کہاں سو رہے تھے اور سڑک کی تعمیر یا مرمت کرنے والوں نے ان محکموں والوں سے بات چیت کیوں نہیں کی کہ اس سڑک کو پھر سے بنانے کے لیے ہم کھدائی کر رہے ہیں۔
تمہیں اپنے محکمہ کے تقاضوں کے تحت اس سڑک کے ساتھ ایسی کوئی کارروائی کرنی ہے تو اس وقت کر لو۔ مگر ایسا ہوتا نہیں۔ شاید ان محکموں میں ایک دوسرے سے ایسا کوئی ربط ضبط نہیں ہے۔ یا پھر یوں ہے کہ نئی سڑک دیکھ کر متعلقہ محکموں کا جی للچاتا ہے کہ اسے ادھیڑا جائے۔ شاید نئی سڑک کو ادھیڑنے میں اپنا ایک لطف ہے۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک ٹھیکہ تو سڑک بنانے کا ہوا۔ اس میں کوئی کمی رہ جائے اور اس کی خاطر سڑک کو ادھیڑا جائے تو پھر نئے سرے سے ایک ٹھیکہ کی صورت نکل آتی ہے۔ باقی سڑک کا کیا ہے۔ اس ادھیڑ کر دوبارہ پاٹا بھی جا سکتا ہے۔ فرق کیا پڑے گا۔ بس ایک دو پیوند لگ جائیں گے۔
سو اس معاملہ کے کتنے ہی پہلو ہیں۔ پھر بھی نئی تعمیر شدہ سڑک کو تھوڑا سانس لینے کا موقع تو دیا ہی جاتا ہے۔ مگر اب جو منتوں مرادوں سے شہر کی سڑکوں کی کایا کلپ کی گئی تھی تو انھیں سانس لینے کا موقعہ ہی نہیں دیا گیا۔ بس جلد ہی ادھیڑنے کی کارروائی شروع ہو گئی۔ سو اب پھر وہی جا بجا کھدائی ہو رہی ہے اور ملبہ کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں ع
پھر وہی زندگی ہماری ہے