ایک مثال سے سمجھاتا ہوں۔ ہمارے معدے کی ایک معین گنجائش ہے۔ مؤثر ہاضمے اور صحت مند زندگی کے لیے ضروری ہے کہ اپنے ہاضمے میں گنجائش سے زیادہ اور بلا ضرورت نہ ٹھونسیں۔
فرض کریں معدے کے پانچ حصے ہیں ، تین حصے کھانے ، ایک حصہ پانی اور ایک حصہ آسانی سے سانس لینے کے لیے استعمال کریں۔ ڈاکٹر کی تلقین سن کر ساتھ بیٹھے ستم ظریف گویا ہوئے۔ چھوڑیں صاحب ، زندگی ایک بار ملی ہے۔ ہم تو پورا معدہ کھانے سے فل کرتے ہیں۔ رہا پانی تو وہ اپنی گنجائش ادھر ادھر لڑھک کر بنا لیتا ہے۔
ڈاکٹر کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔ اور سانس کی گنجائش؟ مخاطب نے زوردار قہقہہ لگاتے ہو جواب دیا: سانس کا کیا ہے، جب تک لکھی ہے آتی رہے گی!
زندگی اور صحت کے بارے میں یہ عمومی رویہ اور بے نیازی ہماری روزمرہ زندگی کا وطیرہ ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کا شور و غوغا تو چند سال سے بلند ہوا لیکن ہمارے انداز و اطوار کئی دہائیوں سے اس آلودگی کی افزائش میں کار فرما رہے ہیں۔
لاہور اور نزدیکی علاقوں میں اسموگ کا مسئلہ پہلی بار نو دس برس قبل شدت کے ساتھ سامنے آیا۔ اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے سارا الزام پڑوسی ملک میں فصلوں کی باقیات جلائے جانے کے دھوئیں پر ڈال کر اپنا دامن جھاڑ لیا۔ اگلے سالوں میں اسموگ کا ظہور باقاعدگی سے نومبر دسمبر میں شروع ہوا تو یار لوگوں نے اسے اسموگ کا سیزن قرار دے کر قبول عام کی صورت دے ڈالی۔
اس سال نومبر کے آغاز ہی سے اسموگ لاہور اور نزدیکی اضلاع بلکہ تقریبا پنجاب کے تمام علاقوں میں پھیل گئی۔ ایئر کوالٹی انڈیکس خوفناک حدوں پر اٹک گیا۔ معمولات زندگی درہم برہم ہو گئے۔ میڈیا پر شور اٹھا تو وجوہات اور اقدامات کا ذکر یوں شروع ہوا جیسے یہ مسئلہ اچانک رونما ہوا اور چٹکیوں میں ان اقدامات سے غائب ہو جائے گا۔
صوبائی حکومت کے تمام تر اقدامات کے باوجود اسموگ ٹس سے مس نہیں ہوئی بلکہ مزید علاقوں پر اس کا راج پھیل گیا۔ ناصر کاظمی نے یہ شعر رومانوی کیفیت کے لیے کہا تھا لیکن اسموگ کی کیفیت بھی آجکل اس سے مختلف نہیں :
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
اسموگ کیونکر پیدا ہوتی ہے؟ کون کون سے عوامل اس کا سبب بنتے ہیں؟ اسموگ کا لفظ انگریزی کے دو الفاظ کا مرکب ہے یعنی دھواں اور دھند۔ اسموگ میں صنعتی اداروں سے خارج ہونے والے زہریلی گیسیں، کوئلہ اور لکڑی وغیرہ جلانے کا دھواں، سڑکوں پر بے محابہ بڑھتی ہوئی گاڑیاں، خستہ حال یا ناقص مینٹیننس والی گاڑیوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ، ملک بھر میں کمتر گریڈ کے فیول کا استعمال ، گرد و غبار ، شہروں کے آس پاس اور شہروں کے اندر سبزے کی بڑھتی ہوئی نایابی جیسے عناصر حصہ دار ہیں۔
صوبائی حکومت اسموگ سامنے پا کر انتظامی اقدامات، اب لاک ڈاؤن اور اسموگ ایمرجنسی جیسے اقدامات اٹھانے پر مجبور ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سماج بالعموم اور ماضی کی تمام حکومتیں بالخصوص ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں کبھی بھی حساس نہیں رہیں۔ ماحولیات کے ساتھ جو کھلواڑ مجموعی طور پر روا رکھا گیا ہے اس کا نتیجہ اب ہمارے سامنے ہے۔
اسموگ اور صنعتی ترقی کا بہت حد تک ایک تعلق بھی ہے۔ جب امریکا اور یورپ کے بہت سارے ممالک بھرپور صنعتی ترقی کے سفر پر نکلے تو کوئلے کا استعمال ہیٹنگ اور انرجی کے لیے معمول تھا۔ اس کے علاوہ صنعتی آلودگی میں بے تحاشہ زہریلی گیسیں اور صنعتی فضلہ روٹین رہا لیکن جب ماحول کی آلودگی انسانی زندگیوں کے درپے ہوئی تو ان تمام معاشروں میں دور رس اور سخت اقدامات اٹھائے گئے۔
جن میں نمایاں ترین ہوا میں کسی بھی طرح کے زہریلے اخراج پر کنٹرول ،کوئلے کی کھپت میں کمی اور ایمیشن اخراج کے کڑے معیارات ،گاڑیوں میں استعمال ہونے والے ایندھن کی کوالٹی اور بہتر ایندھن کارکردگی پر مبنی ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز بہتری، صنعتی یونٹس سے گیسوں اور زہریلے مادے کے اخراج پر سخت کنٹرول اور قوانین شامل تھے۔ بہت حد تک ان سخت قوانین اور معیارات کی وجہ سے 80 اور 90 کی دہائی میں بہت سی انڈسٹریز یورپ اور امریکا سے ایشیائی ملکوں میں منتقل ہوئیں۔
فضائی آلودگی کے وہ مسائل جن سے سو ڈیڑھ سو سال پہلے ترقی یافتہ ممالک کو سامنا رہا گزشتہ 30/ 40 سالوں سے ایشیاء کے ممالک کو سامنا ہے۔ گزشتہ 20 سالوں سے عالمی سطح پر زہریلی گیسوں کے اخراج اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر مختلف اقدامات اور خطیر فنڈنگ کا شہرہ رہا لیکن ایسے زیادہ تر اجلاس نشستند گفتند اور برخواستند پر ہی منتج ہوئے۔ حالیہ ہونے والی سی او پی 29 کانفرنس بھی اس سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے۔
چین نے جہاں دنیا بھر کو اپنی حیرت انگیز صنعتی ترقی سے حیران کیا آج سے 10/ 12 سال قبل چین کو بھی خوفناک اسموگ کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سے شہروں میں سانس لینا بحال ٹھہرا۔ چینی حکومت نے بہت جلد یہ ادراک کر لیا کہ دور رس اقدامات اور سخت انتظامی فیصلوں کے بغیر یہ معاملہ حل ہونے والا نہیں۔ ان اقدامات کا نتیجہ یہ ہوا کہ پانچ دس سالوں میں چین نے اپنی فضا کو اس قابل کر لیا کہ صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ سکون کا سانس بھی لینے کے قابل ہوئے۔
ہمارے ہاں اسموگ کا یہ حادثہ ایک دم رونما نہیں ہوا بلکہ ہم نے برسوں اس کی پرورش کی ہے۔
کہنے کی حد تک دنیا بھر میں آزمودہ اقدامات کو دور رس پلاننگ اور انتظامی شکل دے کر اس مسئلے سے نمٹا جا سکتا ہے لیکن کم بخت ان ترجیحات کا کیا کریں کہ حکومت وقت کو اپوزیشن سے نمٹنے کا چیلنج درپیش ہے، سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے نمٹنے کا حتمی چیلنج درپیش ہے۔
رینٹ سیکنگ اشرافیہ کو اپنے پسندیدہ رئیل اسٹیٹ بزنس کے لیے شہروں کے آس پاس باقی ماندہ زرعی زمینوں پر ہاتھ صاف کرنے کا چیلنج درپیش ہے۔ عوام کو صبح کو شام کرنے کا روزانہ چیلنج درپیش ہے۔
ایسے میں دور رس حکومتی اقدامات اور سماجی رویوں میں کسی تبدیلی کے انتظار کے بجائے بارش کا انتظار ہی آسان ترین حل ہے… شنید ہے کہ بارشوں کے سسٹم کو ہم پر رحم آ گیا ہے اور وہ پاکستان کی حدود میں داخل ہو چکا ہے!