افغانستان گلے کی پھانس

امریکا تو افغانستان چھوڑ کر چلا جائے گا مگر پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے اس سلسلے میں کیا اقدامات کیے ہیں؟


اکرم ثاقب January 30, 2019
امریکا تو افغانستان چھوڑ کر چلا جائے گا مگر پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے اس سلسلے میں کیا اقدامات کیے ہیں؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اس وقت پوری دنیا میں امریکا طالبان مذاکرات کا شور ہے۔ ہر طرف بریکنگ نیوز یہی ہے کہ امریکا اپنی افواج افغانستان سے نکالنا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں طالبان سے کامیاب مذاکرات ہوچکے ہیں۔ البتہ افغان طالبان کی جانب سے مذاکرات میں پیش رفت کا عندیہ ضرور دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ابھی اس معاملے میں کچھ تصفیہ طلب امور باقی ہیں۔ امریکا کو افغانستان کے طالبان کے ساتھ ایک ہی بڑا مسئلہ تھا کہ امریکی انخلا کے بعد افغان سرزمین امریکیوں کے خلاف استعمال نہ ہو۔ انہوں نے اپنے ان مذاکرات میں کسی دوسرے ملک کا ذکر نہیں کیا کہ ہمارے جانے کے بعد ان سے کیا سلوک ہوگا۔

افغان طالبان مذاکرات اگرچہ خوش آئند ہیں مگر اس میں بہت سے مضمرات بھی پوشیدہ ہیں۔ اگر ایک بار امریکا یہاں سے نکل گیا اور ہمسایہ ممالک کے حوالے سے کوئی شق ان کے طالبان معاہدے میں شامل نہ ہوئی تو دوبارہ یہ خطہ آگ اور بارود کا میدان بن سکتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس سے پہلے جب روسی فوج نے انخلا کیا تو وہاں کے مقامی سرداروں نے کشت و خون کا وہ بازار گرم کیا کہ لاکھوں کی تعداد میں افغانی قتل ہوئے اور لاکھوں کی تعداد میں پناہ گزینوں کا سیلاب امڈ آیا جسے سنبھالنے کےلیے پھر امریکا آیا نہ روس؛ اور جس کا خمیازہ ابھی تک پاکستان بدامنی اور دہشت گردی کے واقعات کی صورت میں مسلسل برداشت کر رہا ہے۔ اس کے بعد اب دوبارہ وہی صورت حال پیدا ہونے جارہی ہے۔

امریکا تو افغانستان چھوڑ کر چلا جائے گا مگر ہمارا کیا ہوگا؟ ہمارے ملک کی وزارت خارجہ نے اس سلسلے میں کیا اقدامات کیے ہیں؟ کیا ہم صرف اس بات پر ہی خوش ہو رہے ہیں کہ ہم نے امریکا اور طالبان کے مذاکرات کروا دیئے؟ امریکا اور دوسرے ممالک سے دانش مندانہ آوازیں اٹھ رہی ہیں اور لوگ سوال کر رہے ہیں کہ طالبان سے کامیاب مذاکرات کے بعد امریکا چلا جائے گا تو طالبان اور کابل حکومت کا آپس میں کیا رشتہ ہوگا؟ کیا کابل حکومت طالبان کو آسانی سے اقتدار منتقل کردے گی؟ کیا اس کےلیے بھی مذاکرات اور طالبان امریکا معاہدہ جات میں کوئی شق رکھی گئی ہے؟ افغانیوں کو خانہ جنگی سے بچانے کےلیے کیا کیا جا رہا ہے؟ اس کے ساتھ ساتھ وہاں پر موجود خفیہ ایجنسیاں بھی وہاں سے نکلیں گی؟ کیا بھارت اور ایران کا اثر و رسوخ بھی ختم ہوجائے گا؟ باقی ہمسایہ ممالک سے کابل حکومت اور طالبان کا کیا سلوک ہوگا؟

یہ وہ امور ہیں جن پر اس وقت نہ صرف غور وغوص کی ضرورت ہے بلکہ یہ تمام خدشات مذاکرات کی میز تک پہنچنے چاہئیں اور انہیں بھی معاہدے میں شامل کرنا چاہیے۔ پاکستان کو افغان طالبان یا افغان حکومت سے براہِ راست تو کوئی خطرہ نہیں مگر وہاں بھارتی اثر و رسوخ اور بھارت نواز طبقے کے اقدامات سے فکر مندی ہے۔ کیا بھارت بھی اپنا بسترا گول کرے گا یا پاکستان میں در اندازی کرنے کےلیے وہاں حکومت اور طالبان کو ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے کے در پے کر دے گا؟ کیا امریکا کے ساتھ آئی ہوئی اسرائیلی اور دوسرے ممالک کی خفیہ ایجنسیاں بھی وہاں سے اپنا مقام تبدیل کریں گی؟

یہ وہ سوال ہیں جو ہمارے ملک کی وزارتِ خارجہ کو سامنے رکھنے چاہئیں اور ان پر اپنے اندیشوں کو دور کر لینا چاہیے ورنہ ایک مرتبہ پھر وہی پرانے حالات پیدا ہو جائیں گے اور پاکستان، جس کی اپنی حکومت اور معیشت کمزور ہے، ان حالات کا سامنا نہیں کر پائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔