پی ٹی آئی حکومت کے لیے تکلیف دہ معاشی حقائق
پی ٹی آئی حکومت گردشی قرضے کے بوجھ سے کراہ رہی ہے جو ایک ٹریلین روپے سے زیادہ ہو چکا ہے۔
عمران خان نے وزیراعظم کا عالیشان منصب حاصل کرنے لیے 22 سال تک جدوجہدکی، مگر انھیں یہ ادراک نہ ہوا کہ یہ منصب پھولوں کی سیج نہیں ہوگی۔ پاکستان کے معاملے میں ان پھولوں میں کلیوں سے زیادہ کانٹے ہوتے ہیں۔ ان کا واحد نعرہ حکمرانوں کی بدعنوانی کے خلاف تھا اور وہ کہتے رہے کہ اگر وہ منتخب ہوگئے تو لٹیروں سے وہ رقم واپس لیں گے، جو انھوں نے نقدی اور اثاثوں کی صورت میں بیرون ملک رکھی ہوئی ہے۔
مجھے 2002ء کے انتخابات سے قبل کراچی کے پرل کانٹی نینٹل ہوٹل میں ان کے ساتھ بالمشافہ ملاقات یاد ہے، جہاں ایک ممتاز بینکار نے انھیںچند دوستوں کے ساتھ گپ شپ کے لیے دعوت دی تھی۔ وہ صدر جنرل پرویزمشرف کے ساتھ ظہرانے پر اپنی ملاقات کے حوالے سے بہت خوش تھے اور زیادہ تر وہ اسی کا ذکرکرتے رہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ ایک خصوصی ملاقات تھی جس کے لیے جنرل مشرف نے انھیں اس وقت ان کی اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ کے ساتھ مدعوکیا تھا اور ظہرانے میں جنرل مشرف کی بیگم بھی شریک تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مشرف نے ان کی سوچ کی تعریف کی اور کہا کہ ''آپ (خان) اور میں مل کرکام کرسکتے ہیں'' مگر مشرف نے بالکل یہی بات چوہدری شجاعت سے بھی کی تھی۔
چوہدریوں کے برعکس عمران میں الیکٹ ایبلزکو اپنی طرف راغب کرنے کی استعداد نہیں تھی۔ یوں لگتا ہے کہ شاید عمران خان نے یہ سوچ رکھا تھا کہ سٹیبلشمنٹ حکومت بنانے کے لیے انھیں مطلوبہ نشستیں دلوا دے گی۔ تاہم ان کی پارٹی مشرف کی حمایت سے صرف ایک سیٹ ہی جیت سکی۔ اس بات پر مایوس ہونے کے بعدکہ مشرف نے پولیٹیکل انجنیئرنگ کے ذریعے انھیں وزیراعظم نہیں بنایا، وہ مشرف کے خلاف ہوگئے، ورنہ وہ اس امرکو خاطر میں نہ لاتے کہ وہ فوجی آمریت کا حصے دار بننے جا رہے ہیں۔ بہرحال، اس بار پولیٹیکل انجنیئرنگ نے کام دکھایا اور انھیں وزیراعظم بنا دیا گیا۔
عمران خان کے بارے میں فراخ دلی سے کام لیتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ نیک نیت ہیں مگر جیسا کہ میں نے چند سال قبل کہا تھا کہ سیاسی اعتبار سے وہ بہت بھولے ہیں اور حکومتی نظم ونسق کی پیچیدگیوں کو نہیں سمجھتے۔ مثال کے طور پر ان کا خیال ہے کہ چندے سے دو ڈیم بنائے جاسکتے ہیں اور یہ کہ نام نہاد لوٹی ہوئی دولت بیرون ملک سے واپس لا کر معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے۔
وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ پاکستان کو چلانا شوکت خانم اسپتال کا انتظام چلانے کی طرح نہیں ہے۔ یہ بات حلف اٹھانے کے بعد ان تقریروں سے عیاں ہے جو انھوں نے قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کیں۔ انھوں نے اور ان کے وزیر خزانہ اسد عمر نے بلند بانگ دعوے کیے کہ وہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض نہیں لیں گے مگر چند ہی ہفتوں میں انھیں احساس ہوگیا کہ معیشت کا پہیہ چلائے رکھنے کے لیے ملک کو نہ صرف آئی ایم ایف بلکہ کسی بھی قسم کے دوسرے دستیاب ذرایع سے قرض لینا پڑے گا۔
وہ ملک کو معاشی تباہی کے کنارے پر پہنچانے کا الزام نواز شریف اور زرداری کی حکومتوں پر عائد کرسکتے ہیں اور یہ جواز دے سکتے ہیں کہ ا ن کے پاس دوسرا کوئی چارہ کار نہیں ہے مگر اس الزام کا کچھ حصہ انھیں اور ان قوتوں کو بھی قبول کرنا ہوگا جنھوں نے شروع سے ہی نواز حکومت کو غیرمستحکم کرنے میں ان کا ساتھ دیا ۔
آئی ایم ایف کی شرائط سخت ہو رہی ہیں۔ یہ لوگ پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ معیشت کو مستحکم کرنے اور اسے پائیدار سطح تک لانے کے لیے پاکستان کو ڈالرکے مقابلے میں اپنی کرنسی کی قدرکم کرنا ہوگی، تیل اورگیس پر زر اعانت کو ختم کرنا ہوگا اورکھپت کو قابو میں رکھنے کے لیے شرح سود کو بڑھانا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان محصولات سے اپنی آمدنی کو دگنا کرے۔ آئی ایم ایف کے اپنے تخمینوں کے مطابق اس قسم کے اقدامات 14-15% افراط زر کی راہ ہموار کرنے کا باعث بنیں گے۔ ضروری اشیا کی قیمتیں بڑھنے سے نیا پاکستان کی چمک پہلے ہی ماند پڑ رہی ہے۔ عام آدمی اس مہنگائی کا ذمے دار نئی حکومت کا سمجھتا ہے جسے آئے ہوئے بمشکل دو ماہ ہوئے ہیں۔
لوگوں کو یہ یقین دلانے کے لیے کہ حکومت یہ سب کچھ آئی ایم ایف کی شرائط کے نتیجے میں نہیں کر رہی، نئی حکومت نے پہلے ہی کرنسی کی قدر میں کمی کردی ہے اور تیل وگیس کے نرخ بڑھا دیے ہیں۔ تاہم ان سخت اقدامات کے کچھ اچھے ضمنی اثرات بھی ہیں۔ کرنسی کی قدر میں کمی برآمدات کے لیے موافق ہے، جو پچھلے چند سال میں زوال پذیر تھیں، حکومت ملکی درآمدات پرکسٹم ڈیوٹی سے آمدنی بڑھا سکتی ہے، کیونکہ یہ ڈیوٹی تناسب کی بنیاد پرعائد کی جاتی ہے۔ اسی طرح سے پٹرولیم کی قیمتوں اور بجلی وگیس کے چارجز میں اضافے سے محاصل مزید بڑھانے میں مدد ملے گی کیونکہ ان قیمتوں میں ٹیکسوں کا بھاری بوجھ شامل ہے۔
پی ٹی آئی حکومت گردشی قرضے کے بوجھ سے کراہ رہی ہے جو ایک ٹریلین روپے سے زیادہ ہو چکا ہے۔ یہ مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہوسکتا جب تک کہ بعض بنیادی نوعیت کی اصلاحات نہیں کی جاتیں، جن میں تقسیم کارکمپنیوں (DISCOs) کی نجکاری اولین اہمیت رکھتی ہے۔
پاور سیکٹرکی مرکزیت کو اس طرح ختم کیا گیا کہ DISCOs ، بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں اور این ٹی ڈی سی کو ایک ساتھ الگ کیا گیا ۔یہ کام ان کمپنیوں کو پرائیویٹائزکرنے کے لیے کیا گیا تھا تاکہ یہ بجلی کی ترسیل و تقسیم میں30-40% ریونیوکے نقصان کے بجائے منافع کمانے والے کاروبارکے طور پر چلائی جائیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی ، جو اب نجکاری کی مخالفت کرتی ہے ، وہ جماعت ہے جس نے بینظیر بھٹو کی رہنمائی میں بجلی پیدا اور تقسیم کرنے والی کمپنیوں کی نجکاری شروع کی تھی۔ کوٹ ادو، جو بجلی پیدا کرنے والی واپڈا کی ایک بڑی کمپنی تھی، خود واپڈا کی طرف سے مزاحمت کے باوجود پرائیویٹائز کی گئی۔ بینظیر بھٹو ہی کے دور میں فیصل آباد ایریا الیکٹریسٹی بورڈ کی نجکاری کی تیاری کے لیے بھی کام شروع کیا گیا تھا ۔ وہ پہلی وزیراعظم تھیں جنھوں نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کے شیئرزکو پرائیویٹائزکیا۔
وہ پرائیویٹائزیشن کے تھیچر ماڈل سے متاثر تھیں، جس میں پی ٹی سی ایل جیسے سرکاری شعبے کے اداروں کے شیئرز رعایتی نرخ پر لوگوں کو پیش کیے گئے۔اس آئیڈیا کا مقصد نہ صرف غیر ملکی سرمایہ کاروں بلکہ متوسط طبقے کے عام سرمایہ کاروں کو بھی پی ٹی سی ایل کے شیئرز میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینا تھا۔ منافعے کو پھیلانے کے لیے 500 یا اس سے کم شیئرزکے خریداروں کی درخواستوں کو ترجیح دی گئی ۔
پی ٹی آئی کی حکومت کو 90ء کی دہائی میں بینظیر حکومت کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات سے سبق سیکھنا چاہیے اور نقصان کا باعث بننے والی تقسیم کارکمپنیوں کونجکاری کے لیے سب سے اوپر رکھنا چاہیے۔ جب تک یہ کام نہیں کیا جاتا ہم ان کمپنیوں کے پاور لاسزکوکم نہیں کرسکتے اور نہ ان کے ادائیگی کے نظام کو بہتر بناسکتے ہیں ۔ ان کا گردشی قرضہ بڑھتا رہے گا اور صارفین کوجو اپنا بل ادا کرتے ہیں DISCOs کے بھاری نقصانات کی قیمت برداشت کرنی پڑے گی ۔
اس کا اطلاق دو گیس ڈسٹری بیوشن کمپنیوں پر بھی ہوتا ہے جوگیس کی تقسیم سے ہونے والے نقصان پر قابو پانے کے قابل نہیں ہو سکیں۔ اس کے نتیجے میں یہ دونوں کمپنیاں ہمیشہ اوگرا سے رجوع کرتی ہیں اورگیس کے نرخوں میں اضافے کی دلیل دیتی ہیں۔ یہاں بھی صارفین کو زیادہ قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ٹیکس ادا کرنے والے ایک ایسے شکنجے میں ہیں کہ انھیں عاقبت نااندیش لوگوں کی چوری بھی چکانی پڑتی ہے۔ عوام امید کرتے ہیں کہ نیا پاکستان میں اس نا انصافی کا کسی حد تک ازالہ کیا جائے گا، مگر اس کے لیے غیر مقبول اسٹرکچرل اصلاحات نافذ کرنی ہوں گی۔