ان دیکھے اندیشے وسوسے

ملک میں امن وامان کی کیفیت بحال رہے گی، معیشت کو زوال نہیں آئے گا، راوی امن وچین لکھے گا۔


راؤ سیف الزماں September 18, 2018

ISLAMABAD: عمران خان ، چند روز قبل جی ایچ کیوکے دورے پر تشریف لے گئے ، شنید ہے کہ وہاں انھیں بھرپور پروٹوکول دیا گیا ۔ بہرحال وزیرِ اعظم کا وہاں آٹھ گھنٹے طویل قیام بھی ،اس امرکی غمازی کر رہا ہے کہ اس مرتبہ وزیرِاعظم اور اسٹبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں جو خوش آیند بات ہے ۔ اس بارکوئی دھرنا ،اسلام آباد لاک ڈاؤن بھی نہیں ہو پائے گا۔

ملک میں امن وامان کی کیفیت بحال رہے گی، معیشت کو زوال نہیں آئے گا، راوی امن وچین لکھے گا ۔اسٹبلشمنٹ اور اسمبلی ایک پیج پر رہیں گی، ملک عالمی خطرات سے دوچار نہیں ہوگا ، پاکستان اس بار نازک دور میں داخل ہونے سے محفوظ رہے گا، حتی کہ انڈیا جیسے دشمن سے بھی حالات بہتر ہونے کی توقع۔

دوسرے پہلو پر نظر ضرور رہنی چاہیے، جو مخالف لوگ پہلے ہی سے اس حکومت کوکٹھ پتلی حکومت کا نام دے رہے ہیں، وہ اپنے اس خیال میں مزید راسخ ہوجائیں گے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی، ہوتی رہی ، ہوتی رہے گی،گویا اگلے الیکشن میں بھی فارم 45 نہیں دیے جائیں گے، پولنگ ایجنٹس کو پولنگ اسٹیشنز سے سات بجے باہر نکال دیا جائے گا اور تین یوم کے بعد نتیجے سنا کر اسے مان لینے پر اصرار ہوگا اور یہ سلسلہ شاید اب کبھی ختم نہ ہو، یونہی جاری رہے۔

بظاہر سیاست کی اس حالت سے اتفاق کیے بنا چارہ نہیں ''جس کی لاٹھی اُس کی بھینس'' کے مصداق ۔ لیکن میں نے اپنے کچھ پہلے کے کالمز میں بھی متعدد ان دیکھے اندیشوں، وسوسوں کا اظہارکیا تھا آج اس تحریر میں بھی مجھے وہ لاحق ہیں کہ فطرت اپنا راستہ خود بناتی ہے اور ایسا کرتے سمے وہ کسی سے کوئی مشورہ کرتی ہے نہ کوئی دین، مذہب اس کے پیشِ نظر ہوتا ہے اور جو خلافِ فطرت چلتا ہے وہ اُسے تباہ وبرباد کردیتی ہے ،صفحہ ہستی سے مٹا دیتی ہے اور میرا خیال نہیں، مجھے یقین ہے کہ ہم اور ہمارے ادارے خلافِ فطرت چل رہے ہیں ۔

شاید اپنی آزادی کے پہلے دن سے،کیا آپ واقف ہیں کہ اس طرح کا امتیازی سلوک ان سب سیاست دانوں کے دل میں نفرت کی آگ بھڑکا دے گا ؟ مثال کے طور پر مسلم لیگ ن کے ایک کروڑ پینتیس لاکھ ووٹرزکے جذبات ، اسی طرح دیگر جماعتوں کے اُن کروڑوں چاہنے والے لوگ آج کیا سوچ رہے ہوں گے؟ لیکن صاف لگتا ہے ان تمام باتوں سے اب آپ کوکوئی سروکار نہیں، صاف محسوس ہورہا ہے کہ آپ ٹھان چکے ہیں اپنی کرنی ہے خواہ کچھ بھی ہوجائے۔ حالات کیسے ہی ہوں، بہرحال ایسے میں کیا کہا جاسکتا ہے،آپ کی مرضی ۔

ملک میں صدرِ پاکستان کے چناؤکا مرحلہ بھی درپیش آیا، الیکشن میں پی ٹی آئی کے امیدوار ''عارف علوی'' بڑی آسانی سے جیت گئے، اپوزیشن تقسیم تھی 44 ووٹوں کا فرق رہا، بدقسمتی سے یہاں بھی وہی عمل کار فرما جو اب ملک کی قسمت لگتا ہے۔ قارئینِ کرام ! آپ کو شاید میری اس رائے سے مایوسی ہو، لیکن آیندہ کے پاکستان میں ایک بہت لمیٹڈ سسٹم بننے جارہاہے، بظاہر جس کا نام جمہوریت ہی رہنے دیا گیا ، آیندہ تبدیل بھی ہوسکتا ہے لیکن اتفاقِ رائے سے فی الحال یہی رہے گا جب تک ہمیں اس کی عادت نہ ہو جائے ۔ عمران خان اور ان جیسی شخصیات اس نظام کے وزیرِ اعظم ہوا کریں گی اس نظام کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں پاکستان ہر بار نئے سرے سے تعمیر ہوگا ، تبدیلی آتی رہے گی۔

اڈیالہ جیل مستقل بنیادوں پر آباد رہے گی جس میں آج نواز شریف ہیں لیکن کل چہرہ بدل بھی سکتا ہے ۔ان کے بھائی شہباز شریف سمیت بہت سے نام زیرِ غور ہیں ۔اس نظام کی اور بہت سی خصوصیات بھی ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ اجاگر ہوتی رہیں گی لیکن اچھی بات یہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اس کی محافظ ہوگی ،ججز ہر اس شخص کا احتساب کریں گے جوکرپٹ ہوگا یا سسٹم سے چھیڑچھاڑکرے گا ، میں پہلے ہی عرض کرچکا کہ جو بھی تبدیلی آئی ہے وہ اچھی بہرحال نہیں ہے ۔

البتہ اس بات سے مجھے اتفاق ہے کہ نئی حکومت کو موقع ضرور ملنا چاہیے، حالانکہ انھوں نے اپنی پیشرو حکومت کو نہیں دیا ، مسلسل دھرنے دیے،الزامات کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ، ہٹ دھرمی کی انتہا پرکھڑے رہے لیکن انھیں موقع ملنا چاہیے تاکہ پتا چلے جو دعوے وہ کررہے تھے ان میں سے کتنے سچ کرسکے؟ فی الحال تو روزانہ کی بنیادوں پر تشکیل دی جانے والی کمیٹیوں میں سے ہر دوسری کا سربراہ اسد عمرکو بنایا جا رہا ہے ،اسد عمر کے لیے ماننا پڑے گا کہ وہ ایک اچھے منتظم ثابت ہوسکتے ہیں، ان کی شخصیت میں ٹھہراؤ ہے، متانت وسنجیدگی ہے، پھر بھی شاید وہ ہر ادارے میں کامیاب نہ ہوسکیں ۔اب یہ محترم عمران خان کی بھی مجبوری ہے کہ وہ ان کے علاوہ ذمے داری کسے سونپیں؟

آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے، ایک ڈھونڈو تو ہزار ملتے ہیں ، سبھی اپنے ماضی کرپشن میں لتھڑے ہوئے ہیں بلکہ جن سبھی کو خود عمران خان کرپٹ گردانتے رہے، حتیٰ کہ کسی کو چور کسی کو ڈاکوکا خطاب دیتے رہے۔ انھی کو بعد میں دست وبازو بنالیا اور پھر خلفائے راشدین کے دورکا سپاہی قراردیا لیکن حقیقت سے وہ خود بھی واقف ہیں، اب انھیں ذمے داری کیسے تفویض کریں ڈرتے ہیں پکڑے جائیں گے لہٰذا ہر جگہ اسد عمرکو لیا جا رہا ہے، اللہ میرے وزیرِ اعظم پر رحم فرمائے۔ (آمین) لیکن جو انھیں لائے ہیں وہ کامیاب ہی کامیاب ہیں۔ عمران خان فیل ہوئے تو جھٹ سے کہہ دیں گے ہم نہ کہتے تھے یہ ایسے ہی ہوتے ہیں اورکامیابی تو جانی ہی ان کے کھاتے میں ہے ۔

میرے عزیز دوست ، مہربان ِ ڈاکٹر عامر لیاقت علی خان کی آخری منزل کہاں پر ہے، اللہ ہی جانتا ہے لیکن ہماری فہم وفراست سے بہرحال بالاتر ہے حالانکہ لوگ انھیں بھی کسی خفیہ والوں کا آدمی قرار دیتے ہیں، میں نہیں مانتا کیونکہ ان کا ویژن بلند تر ہے کوئی انھیں سمجھ لے میں تسلیم نہیں کروں گا ۔ان دنوں وہ پھر بدلے بدلے سے دکھائی دیتے ہیں دیکھیں کہاں جا ٹھہریں گے ؟وزیرِ اعظم سے امریکی وزیرِ خاجہ نے فون پرکیا کہا معلوم نہیں، پاکستان کو دی جانے والی امداد بہرحال روک دی گئی ، اس سے آگے ان کے منصوبے اب کچھ زیادہ ڈھکے چھپے نہیں رہے۔

وہ ہم سے کیا چاہتے ہیں ؟ ہم ان کی ڈیمانڈ کس حد تک پوری کرسکیں گے؟ شاید کچھ بھی نہیں اورکبھی نہیں ۔انت کیا ہوگا ؟ وقت کتنا باقی ہے؟ یہ اہم سوالات ہیں جیسے ایک پھانسی کی سزا سنائے جانے والا قیدی اپنے دن گنتا ہے ویسا ہی معاملہ لگتا ہے ۔کیونکہ اگر کوئی ملک امریکا کی دست درازیوں سے محفوظ رہ سکا تو وہ جہاں قوم ایک ہو،جہاں نظام مضبوط ہو ،جہاں عوام کم ازکم اتنے باشعور ہوں کہ انھیں احساس ہوکہ کوئی انھیں لوٹ رہا ہے ، جھوٹے وعدے کرکے بیوقوف بنا رہا ہے ، لیکن یہاں تو ستر سال ہوگئے ایک نہایت جذباتی قوم بستی ہے ۔

جذباتی فیصلے کرتی ہے جدھر چل پڑی جدھر لگ گئی ،کوئی احساس نہیں، اس الیکشن تک یہ قوم اپنے ہاتھوں بیوقوف بنی اور خوب بنی ،جو زندہ تھے انھیں بھلادیا جوگزرگئے ان کی پرستش جاری رہی۔ فلاں زندہ ہے فلاں شہید ہے کے نعرے بجتے رہے ، صحرائے تھرکے بچے بھوک سے بلبلاتے رہے، مرتے رہے قوم کے کسی فردکو ان کی آواز سنائی نہیں دی ! دراصل ہم دھندے باز لوگ ہیں ہر معاملے میں دھندے کا خیال ضرور رکھتے ہیں ۔

جیسے میڈیا ۔اپنا دھندا کر رہا ہے معاملہ کسی معصوم بچی سے زیادتی کا ہو یاڈی پی او پاکپتن کے ٹرانسفر کا ان کا کاروبار متاثر نہ ہو ،خبر چلنی چاہیے اور خبر چٹپٹی ضرور ہو اور تیز رفتار اتنی کہ سب سے پہلے ان کے چینل سے نشر ہو، قارئینِ کرام میں نے اپنی عمر کے 53سالوں میں بہت کچھ دیکھا ، یہ تو لازمًاہی دیکھا کہ ایک دن ہر شخص کی زندگی میں ایسا ضرور آتا ہے جب صرف اس کی خبر چلتی ہے ،وہ دن سوائے اس کے سب جیتے ہیں بس خبر اس کی بنتی ہے ،میرا خیال ہے اس دن کو صرف وہی لوگ بھولتے ہیں جو یہاں اور وہاں خسارے میں رہنے والے ہوتے ہیں ۔اللہ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور نیک ہدایت عطا فرمائے۔(آمین )

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں