شمالی وزیرستان میں آپریشن کی باتیں
افغانستان میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کا اثر بلاواسطہ پاکستان پر پڑتا ہے, وزیر خارجہ حنا ربانی کھر.
شمالی وزیرستان میں سوچے سمجھے بغیر کوئی کارروائی بہت سے مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ فوٹو اے ایف پی
وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کر دیا ہے کہ ''پاکستان کے لیے واشنگٹن سے زیادہ کابل اہم ہے کیونکہ وہاں جو کچھ بھی ہوتا ہے، اس کا اثر براہ راست پاکستان پر پڑتا ہے۔''
ایک عرب ٹی وی چینل کے ساتھ اپنے خصوصی انٹرویو میں وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ''ہمسایہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کی تقدیر افغانستان سے جڑی ہوئی ہے، افغانستان میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کا اثر بلاواسطہ پاکستان پر پڑتا ہے۔''
واضح رہے پاکستان افغان سرحد جو ہزار کلو میٹر سے بھی زیادہ طویل ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی دشوار گزار سرزمین پر مشتمل ہے جس کی مکمل ناکہ بندی بہت مشکل تصور کی جاتی ہے۔ مزید برآں ڈیورنڈ لائن اس طرح کھینچی گئی ہے کہ کہیں یہ افغانستان کے اندر چلی گئی ہے اور کہیں پاکستان میں چلی آتی ہے۔گذشتہ ساٹھ برس سے اس سرحد پر مسلسل اور کڑی نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے ڈیورنڈ لائن کے آپار بسنے والے آزادانہ آتے جاتے ہیں۔
یہاں بسنے والے قبائل کی دونوں جانب قریبی رشتہ داریاں بھی موجود ہیں، ان کے سفر کرنے بھی کوئی پابندی نہیں رہی۔ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے باقاعدہ اعدادوشمار کے ساتھ یہ انکشاف کیا ہے کہ روزانہ اوسطاً نصف لاکھ سے زاید افراد پاک افغان سرحد پر سفر کرتے ہیں۔
یہ وہ تعداد ہے جس کا کہیں رسمی اندراج ہو جاتا ہو گا لیکن ہزار کلو میٹر سے زیادہ طوالت رکھنے والی سرحد کے آر پار آنے جانے والے تمام افراد کا مکمل حساب کتاب رکھنے کا کوئی نظام ہی نہیں ہے ۔ بالخصوص جب کہ دونوں جانب قریبی رشتہ داریاں بھی ہوں اور سرحد پر کوئی باڑ اور چیک پوسٹیں بھی نہ ہوں تو آمد رفت کی شدت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔دنیا کے کسی دوسرے ملک کی سرحد شاید ہی اتنی نرم ہو۔
افغانستان میں طالبان حکومت کی واپسی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں پاکستانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ''افغانستان میں طالبان کی واپسی پاکستان کے مفاد میں نہیں۔'' ان کی یہ بات درست ہے ۔ طالبان کی افغانستان کے اقتدار میں واپسی پاکستان ہی نہیں سارے خطے کو ڈسڑب کرے گی۔ایسی حکومت افغانوں کے لیے بھی مشکلات کا باعث بنے گی ، ایران اور وسط ایشیائی ریاستں بھی اس حکومت کے حق میں نہیں ہوں گی ، اس لیے پاکستان نہیں چاہتا کہ افغانستان میں وہی حالات پیدا ہوں جو نائن الیون سے پہلے تھے۔
بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ دونوں پڑوسی ممالک کے تعلقات بہتر ہوئے ہیں اور دونوں کے درمیان اعتماد کی فضا پیدا ہوئی ہے تاہم اس حوالے سے وزیر خارجہ نے کوئی زیادہ وضاحت نہیں کی۔ ادھر اخبارات میں ایسی خبریں بھی شائع ہوئی ہیں کہ امریکا کی طرف سے پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں آپریشن پر زور دینے کے جواب میں پاکستان نے واشنگٹن سے کہہ دیا ہے کہ پاکستان کو آپریشن کرنے میں کوئی قباحت نہیں مگر امریکی افواج کو جو سرحد کے اس پار افغانستان میں بیٹھی ہیں، سرحد کو مکمل طور پر بند کرنے کی یقین دہانی کرانا ہو گی۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پاکستان کے ایک اعلیٰ سیکیورٹی اہلکار نے بتایا ہے کہ امریکیوں کو کئی بار سمجھایا گیا ہے کہ شمالی وزیرستان میں جب بھی پاکستان کی طرف سے کارروائی کی گئی تو امریکیوں کو پاک افغان سرحد بند کرنا ہو گی کیونکہ پیچیدہ اور مسام دار پہاڑی سرحدی علاقے کو مناسب طریقے سے بند نہ کیا گیا تو وزیرستان میں موجود جنگجو افغانستان فرار ہو جائیں گے جہاں پاکستان کی عملداری نہیں لیکن امریکا کی طرف سے پاکستان کے اس سوال کا مسکت جواب کبھی بھی موصول نہیں ہوا۔
اس خبر رساں ادارے نے متذکرہ اہلکار کے حوالے سے مزید بتایا ہے کہ پاکستان کی طرف سے شمالی وزیرستان میں آپریشن کا دو مرتبہ باقاعدہ طور پر منصوبہ بنایا گیا لیکن امریکا دوسری جانب سے سرحد بند کرنے میں ناکام رہا۔ دریں اثنا آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کے دورہ امریکا کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ کسی بھی عسکری کارروائی کے لیے امریکی فوجیوں کو پاکستان کی سر زمین پر قدم رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اگر کسی کارروائی کو ناگزیر تصور کیا گیا تو یہ کارروائی ہم خود کریں گے۔ چنانچہ واشنگٹن کو صاف الفاظ میں بتادیا گیا ہے کہ شمالی وزیرستان میں فی الوقت کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی کیونکہ اس کے منفی نتائج برآمد ہوں گے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکا کے اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی 3 اگست کی اشاعت میں دعویٰ کیا تھا کہ اسلام آباد واشنگٹن اور افغانستان پاکستان میں انسداد دہشتگردی کے سلسلے میں حقانی نیٹ ورک اور طالبان جنگجوئوں کے خلاف مشترکہ آپریشن پر غور کر رہے ہیں۔
تاہم پاکستانی حکام نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں معمول کی کارروائیوں کو آپریشن قرار دینا غلط ہو گا۔ دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے شمالی وزیرستان میں آپریشن کے حوالے سے خبروں پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے کہا ہے کہ حکومت نے بالآخر امریکی دبائو کے آگے ہتھیار ڈال ہی دیئے ہیں۔ ان کا ہنا تھا کہ یہ فیصلہ ملکی سلامتی کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو گا جس کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔
اور پھر یہ سلسلہ شمالی وزیرستان تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی پھیل جائے گا۔شمالی وزیرستان میں آپریشن کے حوالے امریکا اور پاکستان کے موقف واضح فرق ہے۔ پاکستان کا موقف منطق اور اصولی ہے۔ امریکا اور نیٹو جس عینک سے شمالی وزیرستان کو دیکھ رہے ہیں ، اس میں پاکستان کے لیے خطرات ہیں۔ یہ بات منطقی لگتی ہے کہ جب تک ڈیورنڈ لائن کو سیل نہیں کیا جاتا، شمالی وزیرستان میں آپریشن کامیاب نہیں ہوسکتا ہے، ویسے بھی پاک افغان سرحد پر سخت حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہے۔
امریکا کو اس حوالے سے پاکستان کے موقف کو وزن دینا چاہیے۔ امریکا اور نیٹو افواج افغانستان میں تعینات ہیں، ان کے پاس وسائل بھی ہیں، وہ پاک افغان سرحد کو اس طرح سیل کردیں کہ پاکستان سے کوئی جنگجو فرار ہوکر افغانستان نہ جاسکے اور وہاں سے کوئی ادھر نہ آسکے، اس کے بعد ہی صورتحال میں بہتری آسکتی ہے، ادھرپاکستان کو بھی اس معاملے میں ماضی کی پالیسی ترک کرکے پاک افغان سرحد پر زیادہ توجہ دینی چاہیے، اس سرحد کو نرم رکھنے کا خمیازہ دہشت گردی کی صورت میں بھگتا جاچکا ہے۔
شمالی وزیرستان میں سوچے سمجھے بغیر کوئی کارروائی بہت سے مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ پاکستان کا اس حوالے سے موقف درست ہے، جب امریکا اس موقف کو تسلیم نہیں کرتا، شمالی وزیرستان میں کوئی کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔