بلوچستان اور 2013ء
برٹش انڈیا کے چالیس کروڑ انسانوں میں بلوچستان کی آبادی کا تناسب بہت کم تھا۔
بلوچستان ایک سر زمین اور 2013ء ایک سال۔ ایک علاقے کو وقت کے پیمانے سے ناپنا یہ کالم کوئی فزکس کا فارمولا نہیں۔ گاڑی کی رفتار اتنی ہو تو زمین کا فاصلہ اتنے وقت میں طے ہو سکتا ہے۔ انسانوں کی نفسیات سے گفتگو کرتی تحریر کو چیزوں سے نہیں ملایا جا سکتا۔ یہ طے ہے کہ سال رواں کا بلوچستان خود اپنی دھرتی اور سر زمین پاکستان کا مستقبل طے کرے گا۔
خود دار اور جفاکش قوم ایک طرف ہے کہ بہت بڑے رقبے پر بہت کم آبادی ہے۔ وسائل سے مالا مال پاکستان کا یہ صوبہ زخموں سے چور چور ہے۔ پہلے زیادتی کرنا اور پھر تلافی کی کوشش کرنا ہماری تاریخ ہے۔ مشرقی پاکستان کا سانحہ ہمارے لیے سبق ہے تو دشمنوں کے لیے حوصلے کا باعث۔ ایک طرف ہماری نادانیاں ہیں تو دوسری طرف رقیبوں کی عیاریاں۔ سمجھا جاتا ہے کہ جو ملک ایک مرتبہ توڑا جا سکتا ہے تو کوشش دوسری مرتبہ بھی کی جا سکتی ہے۔ اس برس کے ہونے والے انتخابات بڑی حد تک صوبے کے آنے والے برسوں کا تعین کر دیں گے۔ اس سے قبل کہ ہم مستقبل کے بلوچستان کا اندازہ لگائیں، لازمی ہے کہ صوبے کی 65 سالہ تاریخ مختصراً بیان کر دی جائے۔
برٹش انڈیا کے چالیس کروڑ انسانوں میں بلوچستان کی آبادی کا تناسب بہت کم تھا۔ سندھ کے چالیس لاکھ لوگ، صرف ایک فیصد بنتے تھے۔ ایسے میں علیحدہ مسلم وطن کی تشکیل کو بلوچ سرداروں نے قبول کر لیا۔ کوئٹہ کے نمایندوں نے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیا۔ صوبہ سرحد اور بلوچستان کی باؤنڈریاں ہندوستان سے ملتی ہی نہ تھیں۔ یوں ہندوستان اور پاکستان کے انتخاب میں ٹاس مسلم اکثریتی ملک کو ہی جیتنا تھا۔ خان آف قلات کی جانب سے تحفظات تھے۔ جو کام ہندوستان نے حیدر آباد دکن میں کیا وہی ہم نے قلات میں کیا۔ اکبر بگٹی جیسا دبنگ اور نوجوان سردار، قائد اعظم کا پرستار تھا۔ وقت کا پہیہ آگے بڑھا اور وزیر اعظم فیروز خان کے دور میں گوادر کو واپس پاکستان میں شامل کر لیا گیا۔
پاکستانی حکمرانوں اور بلوچ سرداروں کی کشمکش تاریخ کا حصہ ہے۔ شکایتیں ایوب خان کے دور میں بھی پیدا ہوئیں اور پھر ظالمانہ آپریشن بھی کیا گیا۔ پس منظر میں ہمیں عوام کہیں نظر نہیں آئیں گے۔ یہ ترجیح نہ حکمرانوں کی رہی اور نہ سرداروں کی۔ یحییٰ دور کے انتخابات میں بلوچ کچھ قریب نظر آئے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد 73ء کے آئین پر اس صوبے کا اتفاق ان کا پاکستان پر اعتماد تھا۔ بھٹو دور میں سردار عطاء اللہ مینگل وزیر اعلیٰ اور غوث بخش بزنجو گورنر بنائے گئے۔
نو ماہ بعد اس حکومت کے خاتمے نے اسلام آباد اور کوئٹہ کے درمیان تلخیاں پیدا کر دیں۔ بلوچوں کا احتجاج پہاڑوں پر چلے جانا ہے۔ وہ سڑکوں پر جلوس اور گلیوں میں ٹائر نہیں جلاتے۔ بھٹو نے فوج کے ذریعے آپریشن کروایا اور ''حیدر آباد ٹریبونل'' کے ذریعے ولی خان، بلوچوں اور نیشنل عوام پارٹی (نیپ) کو ملک دشمن قرار دلوانے کی کوشش کی۔ 77ء میں بھٹو کے خلاف تحریک چلی اور حکومت کے ساتھ ٹریبونل کا خاتمہ ہوا۔
جنرل ضیاء الحق اور بلوچوں کا تعلق ہماری تاریخ کا الگ ہی رومانس ہے۔ ان پالیسیوں پر عمل کر کے ہم بلوچوں کو اپنے سے قریب کر سکتے تھے۔ بھٹو کے چاہنے والوں، ترقی پسندوں، سیکولر اور کمیونسٹوں نے ضیاء دشمنی میں اس دور کے روشن پہلوؤں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ کتابیں ان واقعات کا اظہار کرتی ہیں کہ بلوچ مسئلے سے جنرل ضیاء کیسے نمٹے؟ یہ واحد آمرحکمران کا واحد عشرہ تھا جس میں بلوچستان میں کوئی فوجی آپریشن نہ ہوا۔
ضیاء نے بلوچوں کے خلاف مقدمات کے خاتمے کے بعد ان کی مرضی کا گورنر نامزد کیا۔ جنرل رحیم الدین نے بلوچستان کے زخموں پر مرہم رکھا۔ جب ضیاء نے سردار مینگل کے علاج کے لیے سرکاری خرچ پر لندن جانے کی آفر کی تو ان کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ بلوچوں سے مقابلے کا امتحان پاس کرنے والے ہر فرد کو ملازمت دی گئی چاہے صوبے کا کوٹہ ہو یا نہ ہو۔ اسی دور میں کوئٹہ کو گیس فراہم کی گئی۔ اس کام کی اہمیت کم کرنے کے لیے فوجی چھاؤنی کو یہ سہولت دینے کی بات کی جاتی ہے۔
ایٹمی دھماکے کی جگہ بلوچستان میں چنی گئی۔ وزیر اعلیٰ اختر مینگل نے شکایت کی کہ انھیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ کوئی ایک مقبول پارٹی و شخصیت کا نہ ہونا اور وسیع رقبہ پیچیدگیوں کا سبب ہیں۔ روپے، فنڈز، وسائل کی تقسیم کے لیے انسانوں کی گنتی اس صوبے کی احساس کمتری کی ایک بڑی وجہ ہے۔ مشرف کے دور میں حکمرانوں اور بلوچوں میں دوریاں مزید بڑھ گئیں۔ سردار اکبر بگٹی کے بہیمانہ قتل نے اس میں آگ بھر دی۔ تلخیاں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ صوبے میں نہ قومی پرچم لہرایا جا سکتا ہے اور نہ اسکولوں میں قومی ترانہ پڑھا جا سکتا ہے۔
صدر زرداری نے ''آغاز حقوق بلوچستان'' کے نام سے کچھ کرنے کی کوشش کی۔ 2008ء کے انتخابات میں حقیقی نمایندوں کے بائیکاٹ نے مزید مسائل کو جنم دیا۔ رقوم براہ راست اراکین اسمبلی کو دی جاتی ہیں جو عوام تک نہیں پہنچتیں۔ ایسے میں عوامی گفتگو کی توپوں کا رخ سردار کے ڈیرے کے بجائے اسلام آباد کے ایوانوں کی جانب ہوتا ہے۔ اب انتخابات سے قبل دو اہم باتیں ہو گئی ہیں جنھیں حکمرانوں، سرداروں اور عوام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
چین سے گوادر پورٹ پر اور ایران سے گیس کے لیے معاہدے کا سب سے زیادہ اثر بلوچستان پر ہو گا۔ یہ خطہ بین الاقوامی بازی گروں کی نظروں میں ہے، بلوچستان کا یہ پورٹ سعودی عرب کے جدہ، ایران کے بندر عباس کے علاوہ خلیجی ریاستوں اور بھارتی بندرگاہوں کی اہمیت کم کر دے گا۔ امریکا اپنے معاشی حریف چین اور روایتی دشمن ایران کی خطے میں اہمیت کو اچھی نظر سے نہیں دیکھ رہا۔ ایسے میں عوام، سرداروں اور حکمرانوں کا رویہ فیصلہ کن ہو گا۔ ساحل اور وسائل پر بلوچوں کے حقوق کی روشنی میں ہمیں کچھ باتیں طے کرنی ہوں گی اور جلد کرنی ہوں گی۔
سرداروں کو سمجھنا ہو گا کہ اب مشرقی پاکستان والی تاریخ دہرائی جانا ممکن نہیں۔ ہزاروں میل دور دشمن میں گھرے بنگال اور ہر صوبے سے سرحدی تعلق رکھنے والے بلوچستان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ طاقتور چین، کمزور روس اور ایٹمی پاکستان کی بدولت بنگال کی تاریخ دہرائے جانے کا خواب دیکھنے والوں کو حقیقت کی دنیا میں آنا ہو گا۔ بلوچ ان حقائق کی بنیاد پر اپنا مستقبل پاکستان سے وابستہ سمجھیں گے؟
2013ء انتخابات کا سال ہے۔ اگر اس برس میں بلوچستان کے حقیقی نمایندے اسمبلی میں پہنچ گئے تو صوبے کا نقشہ کچھ اور ہو گا۔ اگر؟ جی ہاں ایک بہت بڑا اگر ہے، اگر انھوں نے حقیقت کو سمجھا، اگر اسلام آباد اور کوئٹہ ایک سمت میں چلے تو صوبے اور ملک کی ترقی کو دنیا دیکھے گی۔ اس کے لیے ہمیں دو جانب دیکھنا ہو گا۔ ایک سر زمین اور ایک برس کو۔ بلوچستان اور 2013 ء کو۔