قسمت ترے رنگ نرالے

ان کے حلیے اور انداز میں کئی اداکاروں کو پنجابی فلم بینوں کے سامنے پیش کیا گیا۔


[email protected]

انورمقصود ایک ٹی وی چینل پر اداکار ندیم کا انٹرویوکر رہے تھے، پچیس برسوں تک فلم دیکھنے والوں کے ہیرو ندیم بیگ کا۔جب کامیابی کے حوالے سے انور نے قسمت کے دخل کے بارے میں پوچھا تو جواب دو میں سے ایک ہی ہوسکتا تھا۔ ندیم نے کہا کہ ان سے کہیں زیادہ باصلاحیت اداکار تھے لیکن کامیاب نہ ہوسکے، شاید ان لوگوں کی فلم غلط ہاتھوں میں پہنچ گئی یا پھر ایک اچھی فلم غلط وقت پر سامنے آگئی۔

ندیم اور وحید مراد کے سے ہیئر اسٹائل کے دو اداکاروں کو فلم سازوں نے عوام کے سامنے پیش کیا۔ عقیل اور ناظم دونوں با صلاحیت تھے لیکن ہیروئن نشو(Nisho) کے ساتھ ان کی پہلی بڑی فلم ناکامی سے دوچار ہوگئی۔ یوں ایک عمدہ کہانی پر مبنی تین طرفہ پیارکی کشمکش لیے فلم بہت جلد سینما سے اتر گئی، یہی صورت حال سلطان راہی کی کامیابی کی تھی۔

ان کے حلیے اور انداز میں کئی اداکاروں کو پنجابی فلم بینوں کے سامنے پیش کیا گیا۔ سلطان راہی کی فلمیں دیکھنے کا وعدہ لیے ان کے پرستاروں نے سلطان کے سوا کسی کو پنجابی فلموں کا سلطان نہ مانا۔ کئی باصلاحیت لوگ اتنے کامیاب نہیں ہو پاتے جتنے قسمت کے دھنی اورکم اہلیت رکھنے والے ہوجاتے ہیں۔ اس سوال کا ایک جواب اور بھی ہوسکتا ہے ،کامیابی میں قسمت کے دخل کے حوالے سے چند ایک لوگ کوئی اور جواب دیتے ہیں، ان کے جواب سے پہلے تقدیر کے ساتھ تدبیر پر کچھ گفتگو کرتے ہیں۔

ہائی کورٹ میں اپنے مقدمے کے انتظار میں تھا کہ شاہد ایڈووکیٹ برابر کی نشست پرآگئے، عدالت میں بیٹھے وکلا اور سائیلین مقدمے کی کارروائی سننے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ باتیں بھی کرتے رہتے ہیں۔ اتنی آہستہ کہ بس ایک آدھ بندہ ہی سن سکے۔ لاء کالج کے کلاس فیلو کے ساتھ عدالت میں بیٹھا تھا کہ انھوں نے ایک اہم بات کی طرف توجہ دلائی، جب ایک مقدمے میں ایک وکیل صاحب، جج صاحب کے روبرو اپنے دلائل پیش کر رہے تھے۔

شاہد نے کہا کہ یہ دونوں بھی ہمارے کلاس فیلو ہیں۔ اب تقدیر کے ساتھ کچھ تدبیر کا کھیل دیکھیے۔دونوں حضرات مارچ 2007 میں سندھ ہائی کورٹ کے جج تھے۔ عدالت کی کرسی پر بیٹھے جج صاحب اور آج ایک مقدمے میں دلائل دیتے وکیل صاحب۔ جنرل مشرف نے جسٹس افتخار چوہدری کو برطرف کر دیا۔ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کا مسئلہ آیا تو ایک نے حلف اٹھا لیا اور دوسرے نے انکار کردیا۔ انکار کرنے والوں سے عدالتی عہدہ واپس لے لیا گیا اور فوجی جنرل کا حلف اٹھانے والے عدالتی کرسیوں پر براجمان رہے۔ یہ دو لوگوں کی الگ الگ تدابیر تھیں۔ وکلا کی یہ تحریک ہچکولے لے رہی تھی اور ایک سال مکمل کرچکی تھی۔

جنرل مشرف نے 2008 کے انتخابات کروائے۔ بڑی بڑی پارٹیاں اسمبلیوں میں تھیں،آہستہ آہستہ صوبوں میں بھی حکومتیں قائم ہوگئیں، امید تھی کہ پیپلز پارٹی کے آصف زرداری ان ججوں کو بحال کردیں گے جنھیں مشرف نے برطرف کیا تھا۔ اس مسئلے پر ٹال مٹول دیکھتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے وزراء نے استعفے دے دیے۔ وفاق اور صوبوں میں تمام جمہوری حکومتیں آگئیں پھر بھی وہ وعدہ پورا نہیں ہورہا تھا۔

ستمبر میں مشرف کی جگہ زرداری ایوان صدر میں تھے، نئی نئی جمہوری حکومت آئی تھی، اکیلے وکلا تمام سیاسی پارٹیوں سے نہیں لڑسکتے تھے۔ اگر وہ عدلیہ بحالی کے مخالف ہوں یا غیر جانبدار ہوں، ایسے میں وہ کیا واقعہ ہوا کہ عدلیہ بحال ہوگئی، پی سی او کا حلف اٹھانے والے نکال دیے گئے اور قربانیاں دینے والے بحال ہوگئے۔ یہ کسی ''اور'' کی تدبیر تھی جس نے سیکڑوں لوگوں کی تقدیر کے فیصلے کردیے۔ کرسی پر بیٹھے جج حضرات اٹھا دیے گئے اور اٹھائے گئے جج صاحبان بٹھا دیے گئے۔

گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے صدر آصف علی زرداری کو مشورہ دیا کہ اگر صوبے میں گورنر راج لگا کر انھیں موقع دیا جائے تو وہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے لیے راہ ہموار کرسکتے ہیں۔ 77 سے ''تخت لاہور'' سے محروم جیالوں کا یہ خواب ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں ان کی حکومت ہو۔ اسی دوران سری لنکا کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تھی، کرکٹ ٹیم پر حملہ ہوا اور ایک ڈرائیور جان پر کھیل کر مہمان کھلاڑیوں کی بس بھگاکر محفوظ مقام تک لے گیا۔ گورنر تاثیر کے گورنر راج کی تاثیر تھی کہ ایک ڈرائیور کروڑپتی بزنس مین بن گیا، سری لنکن حکومت اور کھلاڑیوں نے اسے نواز دیا۔ واہ رے قسمت! وہیں یہ گورنر راج اعلیٰ عدلیہ کے کئی ججوں کو کرسی پر بٹھا گیا اور کئی کو کرسی سے اٹھا گیا۔

جب وکلاء تحریک کی تلخی کے ساتھ نواز شریف کی تلخی اور جماعت اسلامی و تحریک انصاف کے کارکنان شامل ہوگئے تو کامیابی نے قدم چومے۔ مشرف نے ججوں کو نکال باہر کیا اور زرداری نے انھیں بحال کرنے کے بجائے شہباز شریف کی حکومت بھی ختم کردی۔ لاہور سے نکلنے والے جلوس کو گوجرانوالہ پہنچنے سے پہلے روک لیا گیا۔ یہ مارچ2009 کی بات ہے، صبح چھ بجے وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی نے ٹی وی پر قوم سے خطاب کیا۔ انھوں نے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی بحالی کا اعلان کیا، یوں نہ صرف ججز بلکہ حکومت پنجاب بھی بحال ہوگئی۔ اگر سلمان تاثیر حکومت پنجاب کے خاتمے کا اعلان نہ کرتے تو وکلاء کی تحریک دم توڑ جاتی۔ سیاستدانوں کی تحریک میں شمولیت نے پاکستان کی عدالتی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔ نہ صرف عدالتی تاریخ کو بلکہ سیکڑوں لوگوں کی قسمت کو بھی۔

کالا کوٹ پہنے ہمارے دو ساتھیوں نے دو الگ الگ فیصلے کیے تھے۔ ایک مرحلے پر بظاہر یہ محسوس ہورہا تھا کہ مشرف کا حلف اٹھانے والوں نے ٹھیک کیا ہے۔ وہ عدالتی کرسیوں پر براجمان ہیں اور حلف نہ اٹھانے والے ریٹائرڈ کردیے گئے ہیں۔ یہ تدبیر ٹھیک معلوم ہورہی تھی کہ وکلا تحریک کامیاب ہوگئی اور وہ ججز بحال ہوگئے جنہوں نے فوجی آمر کا حلف نہیں اٹھایا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ وہ تمام ججز جنہوں نے سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ کی ممانعت کے باوجود اپنے چیف اور اصول کو چھوڑ دیا، وہ اعلیٰ عدلیہ سے علیحدہ کردیے گئے۔ کبھی ایک تدبیر خوش قسمتی کی علامت سمجھی گئی تو کبھی ایک تدبیر عزت افزائی کا سبب قرار دی گئی۔ تقدیر اور تدبیر کی یہ کشمکش کئی ہزار برسوں سے جاری ہے۔ وہ کون سی دوسری بات ہے جو اکثرکامیاب لوگ کہتے ہیں۔

قسمت کی دیوی اترتی سیڑھیوں سے کس طرح اوپر لے جاتی ہے؟ ہمارے ایک ساتھی اپنے ماموں کو زندگی کے بدلے جانے میں خوش قسمتی کے کردار کو یوں بیان کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ماموں نے ایک بڑے بینک میں نوکری کی درخواست دی، لیکن انھیں مسترد کردیا گیا۔ جب وہ بینک کی سیڑھیاں اداس قدموں سے اتر رہے تھے کہ سیڑھیاں چڑھتے کلاس فیلو نے ان سے احوال پوچھا۔نتیجہ بتانے پر وہ انھیں ایک دفتر میں لے گیا۔ اپنے والد کے دفتر میں جو ایک بڑے عہدے پر فائز تھے، یوں ماموں پوری زندگی خوشگوار گزار گئے، اگر سیڑھیوں پر صرف چند لمحے وہ آگے پیچھے ہوجاتے تو نہ جانے نوکریوں کی کتنی ٹھوکریں ان کو بدنصیب بنا دیتیں۔

کامیاب لوگ بعض اوقات اپنی خوش قسمتی کو اپنی تدبیر کی ہنرمندی بتاتے ہیں۔ وہ تدبیر سے تقدیر کو بدل کر رکھ دینے کی بات کرتے ہیں۔ وہ تقدیر کو نااہلوں کا بہانہ قرار دیتے ہیں۔ ممکن ہے وہ صحیح کہتے ہوں لیکن ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے جب کامیاب لوگ ناکام یا خوش قسمت جب بدقسمت بن جاتے ہیں تو عقل کہاں چلی جاتی ہے؟ جب سنچریاں لگانے والے بلے تھم جاتے ہیں یا گھنٹوں میں لاکھوں کمانے والے جب مہینوں میں چند سو نہیں کماسکتے تو اسے کیا کہیں؟ شاید ندیم کو ہدایت کار احتشام نہ ملتے یا پنجاب میں گورنر راج نہ لگتا یا ماموں سیڑھیوں سے کچھ دیر پہلے یا بعد میں اترتے تو نہ جانے کیا ہوتی ان سب کی قسمت!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں