Arif Aziz

  • کوچۂ سخن

    کفِ اِمکاں پہ خیالات کی لُو میںگھل کر؛
    میں نیا رنگ بنا، رنگِ نمو میں گھل کر

  • کوچہ ٔ سخن

    میرے قصے جب پرندوں نے سنے اڑنے لگے؛
    کہکشاں کی مثل راہی کو سبھی رستے لگے

  • کوچۂ سخن

    ہر ادا محبت کی یوں سدا سمجھتے تھے؛
    اس کے دل سے ہم نکلی ہر ندا سمجھتے تھے

  • کوچۂ سخن

    ابھی پڑاؤ زمینی نہ آسمانی ہے؛ یہ لامکانی ہماری بڑی پرانی ہے

  • کوچۂ سخن

    کیسی بے ترتیبی ہے؛
    ہر شے بکھری بکھری ہے

  • کوچۂ سخن

    گھرا تھا نیند میں خوابوں نے راستہ نہ دیا؛
    مجھ ایک لمحے کو صدیوں نے راستہ نہ دیا

  • کوچۂ سخن

    تنہائی کو رحل بنایا، حیرت کو فانوس کیا؛
    پہلی بار خدا کو ہم نے یاد نہیں، محسوس ِکیا

  • کوچۂ سخن

    مسیحا اپنی کوشش کر چکے ہیں؛
    مگر جس کو دوا سے مسئلے ہیں

  • کوچۂ سخن

    اپنی مرضی کے ہیں ہم، اپنا کہا مانتے ہیں؛
    تیرے کہنے سے کہاں تجھ کو خدا مانتے ہیں

  • کوچۂ سخن

    کون کہتا ہے یہ زخموں کی پذیرائی ہے؛
    آنکھ توآنکھ ہے بس ویسے ہی بھر آئی ہے