کیا ٹرمپ کارڈ کراچی کے پاس ہے

غیرتجربے کار، غیرسنجیدہ مقامی رہنماؤں کو یہ شہر سونپ دیا گیا اور خان کی توجہ کا محور پنجاب ٹھہرا


Iqbal Khursheed November 17, 2017

نظریہ الگ شے ہے، معروضی حقائق الگ شے۔ جب بھی نظریات اور حقائق کا ٹکراؤ ہوگا، آپ حقائق کوفاتح پائیں گے۔

جس رات ہم بحیرہ عرب کے کنارے ، ایک خاموش ریسٹورنٹ میں ایرانی میڈیا سے منسلک پاکستانی سینئر صحافی اور تجزیہ کار گل جمس سے ایران سعودی تنازع پر محو گفتگو تھے، ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کے مرکزی رہنماکراچی پریس کلب میں ایک منشور، ایک نام اور ایک نشان تلے الیکشن لڑنے کا اعلان کر رہے تھے۔

جب میں کئی کلومیٹر کا فیصلہ طے کر کے نارتھ ناظم آباد لوٹا، تو رات خوب گہری ہوچکی تھی، مگرکیفے پیالا کا رش ماند نہیں پڑا تھا اور وہاںایک ہی موضوع زیر بحث تھا۔ نہیں،الائنس نہیں، بلکہ ایم کیو ایم پاکستان ۔ ردعمل شدید آیا۔ چند ہی گھنٹوں بعد22 اگست کو نیا جنم لینے والی اس جماعت میں دراڑیں ابھرنے لگیں ، مخالفین پھبتیاں کسنے لگے۔ نادیدہ قوتوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے تاثر نے فاروق ستارکو تنہا کر دیا ۔

اگلے روز ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی نے، فاروق ستار کی عدم موجودگی میں، اپنے نام اور نشان کے ساتھ الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا۔ شہر میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ فاروق ستار کے امریکا جانے کی خبر گردش کررہی تھی، مگررات ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ نے ایک طویل اور ڈرامائی پریس کانفرنس کر ڈالی۔

پریس کانفرنس، جس نے صورت حال کو یکسر بدل دیا ۔ 22 اگست کو پارٹی سربراہ بننے والے فاروق ستار کو عوام نے ایک لیڈر کے روپ میں دیکھا۔ ایم کیو ایم کے ایک سینئر رہنما کا موقف ہے کہ یہ پریس کانفرنس فاروق ستار کا اپنا فیصلہ تھی ۔ باقی رہنما لاعلم تھے۔ گو اس موقف کو قبول کرنے میں مجھے تامل ہے، مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ فاروق ستار اس پریس کانفرنس میں ایک تیر سے کئی شکارکرنے میں کامیاب رہے۔ انھوں نے چار ٹارگٹ حاصل کیے۔

پہلا ہدف تو مصطفی کمال تھے۔وہ 8 اکتوبر کی پریس کانفرنس میں ایم کیو ایم کو ختم کرنے کا عزم ، بڑے اعتماد سے دہرا چکے تھے ۔ فاروق ستار کی ڈرامائی پریس کانفرنس سے اُن کے اعتماد اور ساکھ ؛دونوںکو دھچکا پہنچا، جسے اُن کی اگلے روز کی پریس کانفرنس سنبھالتی تو کیا ، مزید عیاں کرگئی ۔ شاید یہ پہلا موقع تھا کہ میڈیا کی سب سے زیادہ توجہ بٹورنے والے مصطفی کمال کو اپنی پریس کانفرنس کے دورا ن یادگار شہدا کی سمت جاتے جلوس کی کوریج سے کڑا مقابلہ درپیش تھا۔

دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ فاروق ستارنے پارٹی میں اپنے خلاف موجود آواز وںکوکامیابی سے دبا دیا،الطاف حسین فارمولے سے، جسے شاید اُنھوں نے غیرشعوری طور پر برتا ہو، اپنا کلہ مضبوط کیا اور ایک پارٹی لیڈر کی امیج حاصل کرنے میں ، کسی حد تک، کامیاب رہے۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ یہ فاروق ستار ہی ہیں، جنھیں پنجاب اور دیگر صوبوں میں ایم کیو ایم کے معتدل چہرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ 22 اگست کو کسی اور رہنما نے سربراہی سنبھالی ہوتی، تو شاید اس جماعت کوزیادہ قبولیت نہیں ملتی۔

تیسری کامیابی مہاجر اور لسانی کارڈ کامیابی سے کھیلنا تھا۔ فاروق ستار نے اپنے اُن ووٹرزکو، جن میں سے چندکا جھکاؤ اب بھی لندن کی سمت ہے اور چند کا مصطفی کمال کی سمت، پتنگ کے نشان، ایم کیو ایم کے نام اور مہاجر شناخت سے لبھا کر اپنی سمت پھرمتوجہ کر لیا۔ چوتھا اور آخر فائدہ یہ ہوا کہ ایم کیو ایم، جس پر نادیدہ قوتوں کا دباؤ Open Secret ہے، ایک حد تک اِس دباؤ سے ابھر آئی۔

البتہ ایم کیو ایم پاکستان کے لیے مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں۔ اسے اب بھی کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ پارٹی میں اختلافات ہیں اور پہلے بھی تھے، مگر مرکزی قیادت کی گرفت اور تنظیمی سیٹ اپ کے باعث وہ باہر نہیں آپاتے تھے۔ البتہ اب اختلافات فورا خبر بن جاتے ہیں۔ایم کیو ایم لندن، جسے بہ ظاہر اس وقت Level playing fieldمیسر نہیں، ایک مستقل خطرہ ہے۔ بے شک پی ایس 114 میں لندن کے بائیکاٹ کے باوجود ایم کیو ایم پاکستان خاصے ووٹ لینے میں کامیاب رہی، مگر حیدر آباد کی ایک یوسی میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں اُنھیں لندن کے حمایت یافتہ امیدوار سے، معمولی ووٹوں سے سہی، شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

پاکستانی سیاست میں ''انجینئرنگ ''کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ کبھی کسی سیاسی قوت کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاتا ۔ مستقبل کے کسی ممکنہ کردار کے لیے، ایک امکان کے طور پر باقی رکھا جاتا ہے۔ اچھا، تحریک انصاف کو (ن لیگ کے مانند) 2013 کے انتخابات میں نان اسٹیک ہولڈرز کی حمایت حاصل تھی۔چونکہ خان کو پرکھا نہیں گیا تھا، کچھ شخصیت کا بھی اثر تھا، کراچی میں تحریک انصاف کو ساڑھے آٹھ لاکھ ووٹ پڑگئے، لیکن اس کے بعد تحریک انصاف نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کو درخور اعتنا نہ جانا۔

غیرتجربے کار، غیرسنجیدہ مقامی رہنماؤں کو یہ شہر سونپ دیا گیا اور خان کی توجہ کا محور پنجاب ٹھہرا۔ آیندہ انتخابات میں پی ٹی آئی کوشہر قائد میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پی ایس پی، خود کو میسر پراسرا رحمایت کے باوجود اب تک ایک مکمل جماعت کے طور پر نہیں ابھر سکی۔

البتہ اگر یہ حمایت جاری رہی، تو وہ چند سیٹیں ضرور نکال سکتی ہے۔پی پی کا ووٹ بینک ہے تو، مگر محدود۔ قصہ مختصر، آج بھی کراچی کی سیاست میں مرکزی حیثیت ایم کیو ایم کو حاصل ہے، جو الطاف حسین سے علیحدگی کے باوجود اپنے لیے جگہ بنانے میں کامیاب رہی ہے۔ گو کراچی کوقومی اسمبلی اور سینیٹ کی چند ہی سیٹیں میسر ہیں اور حالیہ مردم شمار ی بھی اُن میں اضافے میں ناکامی ہوئی ہے ، اس کے باوجود مستقبل میں ملکی سیاست میں یہ شہر اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

ن لیگ کے لیے اب 2013 جیسی کامیابی کا حصول مشکل ہے، گو وہ مینڈیٹ بھی پاکستان کی کل آبادی کا فقط 6.5 فی صد تھا۔ البتہ آج بھی ن لیگ کا ٹکٹ پنجاب میں سب سے اہم ہے۔ وہ دوبارہ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھر سکتی ہے، اور اس بار اُن کے لیے کراچی کو نظرانداز کرنا دشوار ہوگا۔یعنی ن لیگ اتحادی تلاش کرے گی، تو اُس کی نظر انتخاب ایم کیو ایم پاکستان پر جا کر ٹھہرے گی۔

تحریک انصاف کے لیے واضح اکثریت حاصل کرنا ناممکن ہے، اگر وہ حکومت میں آئی بھی، تو سیٹ اپ مختلف الائنس اور اتحادوں پر مشتمل ہوگا۔ اس صورت میں بھی کراچی ہی اہم ٹھہرے گا۔ شاید اِسی وجہ سے انجینئرنگ کا عمل، کل کی طرح آج بھی جاری ہے۔ آپ لاکھ ناک بھوں چڑھائیں صاحب، یہ انجینئرنگ ایک معروضی حقیقت ہے۔ صرف پاکستان میں نہیں، دنیا بھرمیں، یہاں تک کہ امریکا میں بھی ریاستی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ایک سچائی ہے۔

دبئی میں بیٹھے پرویز مشرف، جن کے رفقاء نے ایم کیو ایم اور پی ایس پی الائنس پر منہ میٹھا کر لیا تھا، اِس اتحاد کے ٹوٹنے سے بہت جلدی مایوس ہوگئے۔ یہ تک کہہ گئے کہ اُنھیں اس کا سربراہ بننے میں کوئی دل چسپی نہیں۔اگر وہ دونوں پریس کانفرنسوں پر غور کرتے، تو اُنھیں اندازہ ہوجاتا کہ دل کی بھڑاس نکالنے کے بعد بھی فاروق ستار اور مصطفی کمال، دونوں نے اتحاد کے امکان کو زندہ رکھا ہے۔ یاد ر کھیں، نظریہ الگ شے ہے، معروضی حقائق الگ شے۔ جب بھی نظریات اور حقائق کا ٹکراؤ ہوگا، حقائق فاتح قرار پائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں