خدارا سمجھو

احتجاج اور ہڑتال میں پیٹرول پمپس بھی بند کر دیے جاتے ہیں اور میڈیکل اسٹور بھی


Dr Naveed Iqbal Ansari March 06, 2013
[email protected]

کراچی شہر میں ایک بار پھر خون ہی خون نظر آیا۔ محض دو دھماکوں نے سیکڑوں خاندانوں کو متاثر کر دیا، ہر خاندان کی کہانی ایسی دلخراش کہ جس کو سننا بھی آسان نہیں۔ راقم کے ایک شاگرد حافظ فیض رسول نے اس صورتحال پر چند اشعار (شاعر کا نام معلوم نہیں) ایس ایم ایس کیے:

فلک ہے حیران' زمین دنگ ہے

میرے وطن میں یہ کیسی جنگ ہے

ہیں محوِ حیرت یہاں کے باسی

ہے کون حق پر' ہے کون باغی

عجیب منظر' عجیب الجھن

ہے کون اپنا' ہے کون دشمن

برستی ہر سو لہو کی بارش

ہے کوئی فتنہ یا کوئی سازش

کہیں میزائل برس رہے ہیں

کہیں ہیں ضد پر جلوس' جلسے

بدن فضاء میں بکھر رہے ہیں

پلوں میں کنبے اجڑ رہے ہیں

یہ آہ و زاری' یہ سوگواری

ہر اک چہرے پہ موت طاری

لٹی محبت' لٹا سکون بھی

ہمارے ہاتھوں ہمارا خون ہی

نہ ایسے غیروں کی بات مانو

خدارا سمجھو' خدارا سمجھو

میں ٹی وی کے سامنے بیٹھا اس سانحے کے بعد لوگوں کے تاثرات و مناظر سن اور دیکھ رہا تھا' ان میں ایک شخص نے کہا کہ دھماکے کے بعد سیکڑوں مکینوں کے گھروں کی لائٹ اور گیس منقطع ہو چکی ہے اور ایک بڑا مسئلہ خواتین و بچوں کے کھانے کا پیدا ہو گیا ہے کیونکہ ہڑتال کے باعث تمام دکانیں بند ہیں۔ اس شخص نے کہا کہ میں بذریعہ ٹی وی چینل اپیل کرتا ہوں کے بچوں کے کھانے کے لیے لوگ مدد کریں۔

مذکورہ شخص کا کہنا بالکل درست تھا کیونکہ کسی واقعے کے بعد خوف و ہراس کے باعث اور ہڑتال کی اپیل کے بعد ایسی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے یوں متاثرین کو دہری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس امر میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ جب حکومت وقت عوام کے تحفظ میں ناکام ہو اور وہ عوام کے مسائل و مصائب پر کان نہ دھرے تو ردعمل میں سخت ترین احتجاج ہونا چاہیے لیکن دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک طویل عرصے سے عوام جب کسی سانحہ یا مسئلہ پر ردعمل کرتے ہیں تو الٹا خود عوام اس سے متاثر ہو جاتے ہیں اور ان کا مزید نقصان ہو جاتا ہے۔

1980ء کی دہائی کے آخر میں جب کراچی شہر میں ہلاکتوں کا سلسلہ بڑھا اور احتجاجی ہڑتال کا طویل سلسلہ چل نکلا تو ہمارے محلے کے ایک بزرگ نے تجویز پیش کی کہ روز روز کی ہڑتال سے عوام کا اپنا ہی معاشی نقصان ہو رہا ہے لہٰذا دکانوں کو صرف اس وقت بند کیا جائے جب جنازہ اٹھے' اور جنازہ جب علاقے سے گزر جائے تو دکانیں دوبارہ کھول دی جائیں۔ ان بزرگ نے کہا کہ 1977ء کی تحریک میں جب زیادہ جنازے اٹھنے لگے تو جنازے کے آگے آگے ایک شخص بازار والوں کو مطلع کر دیتا اور دکاندار اپنی دکانیں بند کر دیتے اور جب جنازہ گزر جاتا تو پھر دکاندار اپنی دکان کھول لیا کرتے تھے۔

ہمارے بزرگ کا مشورہ غلط نہیں جب حکمرا ن بے حس ہو جائیں تو عوام کو اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے اپنی بہتری کے لیے بھی سوچنا چاہیے نہ کہ الٹا اپنا ہی نقصان کر ڈالیں۔

احتجاج اور ہڑتال میں پیٹرول پمپس بھی بند کر دیے جاتے ہیں اور میڈیکل اسٹور بھی حالانکہ ایمرجنسی میں ان دونوں سہولیات کی سخت ترین اور فوری ضرورت ہوتی ہے۔ پھر متاثرہ خاندان کے افراد کو بھی خود ایمرجنسی میں دوائوں کی فوری ضرورت اور بھاگ دوڑ کے لیے گاڑی کی ضرورت پڑتی ہے ایسے ہی پبلک ٹرانسپورٹ بند ہو، آپ کے اپنے پاس گاڑی ہو لیکن فیول نہ ہو تو بھلا متاثرین کی مدد کیسے کی جا سکتی ہے؟

ایسی ہی صورتحال اس وقت بھی ہوتی ہے کہ جب بڑی شاہراہوں یا معروف گزرگاہوں پر احتجاج یا عام جلسے جلوس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس عمل سے نا صرف ٹریفک جام ہو جاتا ہے بلکہ ایمبولینس بھی ٹریفک جام میں پھنس جاتی ہیں۔ کراچی میں عباس ٹائون میں بم دھماکوں کے بعد جب ایمبولینس شہر کے مختلف علاقوں سے جائے وقوعہ پر پہنچنے کی کوشش کر رہی تھیں تو اس وقت بھی مختلف شاہراہوں پر ان ایمبولینسوں کو ٹریفک جام کے باعث راستہ نہ ملا۔ عوام کی جلد بازی کے باعث ٹریفک جام ہوا اور زخمیوں تک ایمبولینس کو پہنچنے میں بہت زیادہ وقت لگا۔

کراچی شہر ایک کثیر آبادی والا شہر ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس کا ہر ضلع ایک شہر کی آبادی کے برابر ہے لہٰذا اتنی بڑی آبادی میں کوئی سانحہ نہ بھی ہو تو صبح و شام بیشتر افراد کو بیماری یا حادثات کی صورت میں فوراً اسپتال پہنچنا ہوتا ہے مگر اس کا کیا کیجیے کہ اب پر امن جلسے جلوس بھی مین شاہراہوں پر کیے جانے لگے ہیں۔

اگر احتجاج اور پر امن جلوسوں کے لیے مصروف شاہراہوں کو چھوڑ کر کسی اور جگہ کا انتخاب کر لیا جائے تو بہتر ہے یا ان شاہراہوں پر مجبوراً کرنا بھی پڑے تو کم از کم ایک سڑک کو تو ٹریفک کے لیے کھلا چھوڑ دیا جائے تا کہ ایمبولینس جیسی سروس تو متاثر نہ ہو۔

کسی بھی سانحے کی صورت میں پیٹرول پمپ اور میڈیکل اسٹور کی دستیابی کے ساتھ ساتھ ایمبولینس کو جائے حادثہ تک پہنچنے کے لیے راستہ صاف ملے تو بہت سی قیمتی انسانی جانوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ ملک دشمن اور دہشت گردوں کا کام اس ملک اور عوام کے کے اتحاد کو نقصان پہنچانا ہے۔ اب تک بحیثیت پاکستانی ہم نے احتجاج کے دوران بھی یکجہتی قائم رکھنے کا بھر پور مظاہر کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم آیندہ بھی دشمن کی کسی چال میں نہ آئیں اتحاد کا مظاہرہ جاری رکھیں اور اپنے مصائب کو بڑھانے کے بجائے کم کرنے کے لیے ہر صورتحال میں کم از کم پیٹرول پمپ' میڈیکل اسٹور وغیرہ جیسی ضروریات کی ترسیل کو نہ رکنے دیں کیونکہ اس سے متاثرین کی فوری امداد بھی شدید متاثر ہوتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں