شبنم شکیل

چند برس پہلے اس کی ’’اڑی ہوئی ہوں… بڑی ہوئی ہوں‘‘ والی ردیف اور قافیہ کی حامل غزل بے حد مشہور ہوئی تھی


Amjad Islam Amjad March 06, 2013
[email protected]

کوئی تین ہفتے پہلے شبنم سے آخری بار گفتگو ہوئی تو وہ کراچی میں اپنی بیٹی ملاحت کے پاس تھی۔ ملاحت نے بتایا کہ ابھی (یعنی شکیل صاحب) کی وفات کے بعد وہ اندر باہر سے ٹوٹ پھوٹ گئی ہے اور جسمانی عوارض کے ساتھ ساتھ شدید قسم کے ڈیپریشن کی بھی شکار ہو گئی ہے میں نے اسے حوصلہ دینے کی بہت کوشش کی مگر اس کی آواز کی خستگی اور لہجے کی لرزش صاف بتا رہی تھی کہ یہ وہ شبنم شکیل نہیں جس کو ہم گزشتہ تقریباً 45 برس سے جانتے تھے کہ اس سے اور شکیل صاحب سے پہلی ملاقات ساٹھ کی دہائی کے آخری حصے میں ہوئی تھی اور غالباً اس تقریب کا اہتمام اظہر جاوید مرحوم نے کیا تھا۔

اس کے بعد اس کی وفات تک اس خاندان سے دوستی اور محبت کا ایک ایسا مضبوط رشتہ قائم ہو گیا جو ہر دور میں نہ صرف قائم و دائم رہا بلکہ اس کی وسعت اور گہرائی میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔ وہ ہمارے اس گروپ کی بھی مستقل اور فعال ممبر تھی جس نے احمد ندیم قاسمی مرحوم کی سترویں اور پچھترویں سالگرہوں کا اہتمام کیا اور جس کے دو ممبر پروین شاکر اور اختر حسین جعفری اس سے پہلے اس جہان فانی سے کوچ کر چکے ہیں۔ شبنم کے بارے میں کرنے والی بہت سی باتیں ہیں مگر میں سب سے پہلے اس کی ایک غزل کے چند اشعار آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں جو پتہ نہیں کب اور کس لہر میں لکھی گئی تھی مگر جس کا ایک ایک شعرآج بلکہ ابھی کا کہا ہوا لگتا ہے۔

اب مجھ کو رخصت ہونا ہے کچھ میرا ہار سنگھار کرو

کیوں دیر لگاتی ہو سکھیو' جلدی سے مجھے تیار کرو

یہ کیسا انوکھا جوڑا ہے جو آج مجھے پہنایا ہے

میں حوروں جیسی دلہن بنی اب اٹھو اور دیدار کرو

اک ہار ہے سرخ گلابوں کا اک چادر سرخ گلابوں کی

اور کتنا روپ چڑھا مجھ پر' اس بات کا تم اقرار کرو

اک بار یہاں سے جائوں گی میں لوٹ کے پھر کب آئوں گی

تم آہ و زاری لاکھ کرو' تم منت سو سو بار کرو

رو رو کر آنکھیں لال ہوئیں تم کیوں سکھیو بے حال ہوئیں

اب ڈولی اٹھنے والی ہے لو آئو مجھ کو پیار کرو

ہاں یاد آیا اس بستی میں کچھ دیے جلائے تھے میں نے

تم ان کو بجھنے مت دینا بس یہ وعدہ اک بار کرو

میں پہلے بھی کئی تعزیتی کالموں میں اس بات کا اظہار کر چکا ہوں کہ کس طرح کسی شاعر اور ادیب کے اس دنیا سے پردہ کر جانے کے بعد اس کی کچھ تحریروں کے معنی یکسر بدل جاتے ہیں اور ان میں ایک پیش گوئی کی سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ شبنم شادی سے پہلے شبنم عابد علی کہلاتی تھی اس کے والد اردو کے نامور محقق' نقاد اور شاعر سید عابد علی عابد تھے جن کا یہ مشہور شعر بھی اس وقت اسی واقعے کے گرد گھومتاہوا محسوس ہو رہا ہے کہ

وقت رخصت وہ چپ رہے عابد

آنکھ میں پھیلتا گیا' کاجل

شبنم کو قریب سے جاننے والے لوگ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ وہ اپنے ہم عصر لکھنے والوں کی برادری کو کس قدر اہمیت دیتی تھی وہ ہر موقعے پر قریبی رشتہ داروں کی طرح اس برادری کے غموں اور خوشیوں میں شامل ہوتی اور اس تفریق سے بالاتر ہو کر ہر ضرورت مند کی مدد کی کوشش کرتی کہ اس کا تعلق ادب کے کس گروپ سے ہے وہ ایک خوش طبع خاتون تھی اور اپنی نسائیت کے تقاضوں کو قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ جملہ بازی میں بھی کسی سے کم نہیں تھی۔ مجھے اس کے ساتھ دو تین بار بیرون ملک اور بے شمار دفعہ اندرون ملک مشاعروں کے حوالے سے سفر کا موقع ملا ہے۔

اس نے بعض دیگر خواتین کی طرح کبھی اپنے دنیاوی مرتبے کا اظہار نہیں کیا (واضح رہے کہ اس کے شوہر شکیل صاحب ایک سینئر بیورو کریٹ تھے جو بہت اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں) اس نے کبھی اپنے آغا جی (عابد صاحب) کی محبت اور اس معاشی تنگ دستی کو فراموش نہیں کیا جس میں اس کا بچپن گزرا تھا۔ وہ اردو کی پروفیسر تھی لیکن عام اساتذہ کی طرح اس فریضے کو بیگار کے انداز میں ادا کرنے کے سخت خلاف تھی۔ اس کا شمار ادا جعفری اور پروین شاکر کے درمیان کی نسل میں ہوتا ہے جہاں وہ کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض کے ساتھ تیسرے معتبر نام کی حیثیت سے جانی جاتی ہے لیکن اس کی نثری تحریریں بھی کم کم ہونے کے باوجود خصوصی توجہ کے لائق ہیں کہ ایسی رواں اور خیال افروز نثر معاصر ادب میں نسبتاً کم لکھی گئی ہے۔

چند برس پہلے اس کی ''اڑی ہوئی ہوں... بڑی ہوئی ہوں'' والی ردیف اور قافیہ کی حامل غزل بے حد مشہور ہوئی تھی اور میرے نزدیک یہ خواتین کے حقوق اور ان کی آزادی کے ضمن میں ایک ماڈل کا درجہ رکھتی ہے کہ اس میں بولنے والی عورت نہ تو سماج کی باغی ہے اور نہ ہی غلام۔ یہ ایک ایسے توازن کی نمایندہ ہے جو اس کائنات کی اساس ہے۔ شبنم نے اس غزل میں ایک جدید مشرقی عورت کا وہ روپ پیش کیا ہے جو دل اور دماغ دونوں کو چھوتا ہے۔ اب آخر میں اس کی ایک ایسی غزل کے چند اشعار جن میں اس کے عورت پن کے ساتھ ایک فلسفی اور دانشور بھی دکھائی اور سنائی دے رہے ہیں۔

اندیشہ ہائے روز مکافات اور میں

اس دل کے بے شمار سوالات اور میں

خلق خدا پہ خلق خدا کی یہ دار و گیر

حیراں' خدائے ارض و سماوات اور میں

کیا تھی خوشی اور اس کی تھی کیا قیمت خرید

اب رہ گئے ہیں ایسے حسابات اور میں

ہاروں گی میں ہی' مجھ کو یہ وہم و گماں نہ تھا

آپس میں جب حریف تھے' حالات اور میں

ہم راز و ہم سخن تھا مگر اس کے باوجود

ٹکرائے میرے دل کے مفادات اور میں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں