بین المذاہب عالمی اتحاد یگانگت و ہم آہنگی

یہ تاریخی حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے کہ اسلام امن و سلامتی کا داعی، اتحاد و یگانگت اور احترام انسانیت کا درس دیا۔


[email protected]

آپ ﷺ کی ذات بابرکت پر بے شمار درود وسلام ہوں، آپ ﷺ نے اپنے حلم، بردباری اور بے پایاں شفقت و برداشت سے دنیا کو امن کا خطہ بنا دیا۔ آپ ﷺ کی تعلیمات عالیہ اور لائے ہوئے نظام میں دنیا کی فلاح و بہبود پوشیدہ ہے۔ لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوۃ حسنۃ دور جدید میں امن عالم مفقود ہے۔ اخوت، بے مثال ربط و ضبط، ایثار، قربانی اور برداشت و حلم کے جذبے مجروح ہو رہے ہیں، داغ ہائے غم اور چراغ سینہ کتنے ہیں۔

یہ انسان ہی ہے جس کو خلعت وجود بخشنے کے بعد اس کے خالق نے فرمایا کہ ''آپ ﷺ کو قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے نمونہ بنایا گیا۔'' اس قدرت و طاقت والے نے عرش و فرش، کائنات کی لا متناہی پنہائیوں کو لفظ کن سے پیدا کیا لیکن آدم خاکی کی آفرینش کا ذکر کیا تو فرمایا خلقۃ بیدی میں نے اسے اپنی قدرت کے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا ہے۔ علم اور عمل فکر اور تخلیق، تدبیر اور تعمیر کی جو بے پناہ صلاحیتیں اس پیکر خاکی میں ودیعت فرمائیں ان کا تذکرہ نفخت فیہ من روحی کے معنی خیز الفاظ سے کیا۔ یہی چیزیں نتیجہ ہیں، سیرت پاک کے مطالعے کا اور چیزیں ہیں جو سیرت پاک کے مطالعے کی دعوت دیتی ہیں۔

آپ ﷺ جو دین لے کر آئے اس دین میں بنیادی عقائد وتعلیمات وہی تھیں جو اس سے قبل انبیا لے کر آئے تھے، جیسا کہ قرآن نے واضح کیا ہے، یہی وجہ ہے بہت سے احکامات جو اسلام میں ہیں پہلے بھی تھے، مثلاً عقیدۂ توحید،آخرت، انصاف،احترام انسانیت، خدمت خلق کی تعلیم، قیدیوں سے حسن سلوک کی تعلیم، منشیات، شراب وغیرہ کی حرمت، زنا، چوری کی سزائیں، سود کی حرمت وغیرہ۔

آپ ﷺ نے اعلان نبوت کے بعد اپنے سفرا کے ذریعے 225 خطوط غیر مسلموں کو تحریر کرکے آنے والے وفود سے مکالمہ کرکے فکری آہنگی اور اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی جب کہ مذہبی اتحاد کے اثرات نظر نہ آئے تو معاشرتی اتحاد کے لیے کوشش کرتے رہے لیکن یہود مسلسل دھوکہ دیتے اور سازشیں کرتے رہے۔

عالمی اتحاد کی بنیاد:

''کہہ دو کہ اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں (تسلیم کی گئی) ہے اس کی طرف آؤ، وہ یہ کہ خدا کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیزکو شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے سوا اپنا کارساز نہ سمجھے۔

یہ مشترکہ نکتہ جیساکہ امام ابو بکر جصاصؒ احکام القرآن میں فرماتے ہیں، ہمارے اور تمہارے درمیان ''عدل و انصاف'' کا نکتہ ہے، ہم سب اس میں برابر ہیں، اس مشترکہ بات کی صحت اور درستگی پر انسانی عقل بھی گواہ ہے، کیونکہ تمام انسان اﷲ کے بندے ہیں، کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسرے سے اپنی بندگی کروائے، کسی پر یہ لازم نہیں ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی اطاعت کرے، سوائے اس کے کہ کسی اور کا حکم بھی اﷲ ہی کی اطاعت کے لیے ہو۔

یہ بات دور حاضر کی زبان میں اس طرح کہی جاسکتی ہے کہ ایک اﷲ کی حاکمیت، غلامی اور بندگی میں آجانے کے بعد انسان اس ظلم سے نجات حاصل کرسکتا ہے جس کی غلامی کی زنجیر میں بڑی طاقتوں نے چھوٹے ممالک کو غاصب اقوام نے مظلوم قوموں کو اپنے ہی وطن اور ملک میں جکڑا ہوا ہے اور آمروں نے اپنی رعایاکو غلام بنایا ہوا ہے۔ یہ حقیقی آزادی اس وقت تک نہیں مل سکتی جب تک افراد اور قوموں کے درمیان تعلقات عادلانہ اور منصفانہ بنیادوں پر استوار نہیں ہوتے، قانونی نظام اور قانونی طریقے خواہ کتنے ہی کیوں نہ بدل جائیں، عدل و انصاف کا معیار اور کسوٹی ہمیشہ ایک ہی رہے گی۔ اس کسوٹی اور معیار پر ہر دور میں حسن نظم اور قوانین کو پرکھاجاتا رہے گا۔شریعت اسلامیہ، جان، مال اور عزت و آبروکی حرمت سے تعلق رکھنے والے قانون سازی کے ارفع اصولوں میں دیگر تمام آسمانی شریعتوں سے گہرا تعلق رکھتی ہے۔

مذاہب دنیا میں لوگوں کو جوڑتے اور ملاتے آئے ان میں تفریق پیدا کرنا نہیں، یہی وجہ ہے جب تفریق ہوئی فوراً اﷲ کی جانب سے کوئی نبی مبعوث ہوگیا، تمام انبیا کے اوصاف یکساں تھے، تعلیمات یکساں تھیں بلکہ ہر نبی پچھلی تعلیمات کی تکمیل اور بگڑی ہوئی تعلیمات کی اصلاح کے لیے آیا یہاں تک کہ نبوت کا سلسلہ آپ ﷺ پر ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا اس لیے کہ آپؐ پر جامع تعلیمات مکمل ہوگئیں۔

دور جدید میں بین المذاہب عالمی اتحاد، یگانگت و ہم آہنگی انتہائی ضروری ہے اور بڑی اہمیت کی حامل ہے اور یہ عین اسلامی تعلیمات اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کے مطابق ہے۔

یہ تاریخی حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے کہ اسلام امن و سلامتی کا داعی، اتحاد و یگانگت اور احترام انسانیت کا درس دیا۔ اس نے پر امن بقائے باہمی کے لیے بلا تفریق مذہب و ملت، لکم دینکم ولی دین۔ کا نظریہ عطا کرکے غیر جانبداری، بین المذاہب، عالمی اتحاد و یگانگت و ہم آہنگی کا فلسفہ عطا کیا، اس لیے ہمیں آج دنیا کی ہر حکومت، ہر ملک اور ان کے باشندوں کے ساتھ احترام اور جذبہ ترجم کے ساتھ ملنا ہے، علامہ شبلی نعمانی کیا خوب لکھتے ہیں: ''انسان کے ذخیرہ اخلاق میں سب سے زیادہ کم یاب، نادر الوجود شئے دشمنوں پر رحم اور ان سے عفو و درگزر ہے، لیکن حامل وحی نبوت کی ذات اقدس میں یہ جنس فراواں آپؐ نے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔ آپؐ نے صلح حدیبیہ اور میثاق مدینہ کے ذریعے اپنے غیر مذہبوں کے ساتھ اتحاد، یگانگت و ہم آہنگی کرکے عملی طور پر دکھایا اور قرآن مجید کی رہنمائی کے ذریعے آپ کو ہر قسم کے مذہبی تعصب سے منہ موڑنے کی ہدایت عظمیٰ بھی اس موقف کی ٹھوس دلیلیں ہیں۔ اسی طرح سورۂ آل عمران میں بھی ہمیں یہ سبق ملتا ہے۔ یہی سبق ہمیں سورۃ النسا میں بھی دیاگیا۔

دنیا کے تمام انسان ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں، ان کاخالق بھی ایک ہی ہے، اس کے نسلی یا مسلکی اختلافات کی کوئی حیثیت نہیں، تمام انسان بحیثیت انسان برابر ہیں، ہمیں سب کے ساتھ اتحاد، رواداری اور ہم آہنگی پیدا کرنی ہے، رنگ و نسل و زبان کا فرق باہمی تعارف کے لیے ہے، قرآن خصوصیت کے ساتھ مسلمانوں اور اہل کتاب کو قریب آنے کی دعوت دیتا ہے۔ ان کے ساتھ اتحاد و ہم آہنگی قائم کرنے کا حکم دیتا ہے اور تمام آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے، انھیں برحق بتاتا ہے اور تمام انبیا اور کتب پر ایمان لانا تکمیل ایمان کے لیے ضروری قرار دیتا ہے، اگر کفار صلح کی طرف جھکیں تو قرآن کریم ہمیں ان سے صلح و اتحاد قائم کرنے کا حکم دیتا ہے اورکہتا ہے کہ صلح رکھو اور اﷲ پر بھروسہ رکھو۔ مغرب کو یہ باور کرایا جائے کہ اگر مسلمان مذہبی ہوںگے تو اتحاد و ہم آہنگی برقرار رکھنے میں آسانی ہوگی۔

بقول علامہ قرضاوی ''مغرب کے لیے بہتر یہی ہے کہ مسلمان مذہبی ہوں ، اپنے مذہب سے مخلص ہوں اور اچھے اخلاق والے بننے کی کوشش کریں۔ وحدت انسانی کے تصور کو بین المذاہب اور عالمی سطح پر اجاگر کیا جائے اور اس سلسلے میں اسلامی تعلیمات عام کرنے کی ضرورت ہے۔ آپؐ کا فرمان ہے ''اے اﷲ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ'' تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور اﷲ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔

ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم بین الاقوامی تقاضوں اور ضرورتوں کو محسوس کریں، ہم کو اپنے رویے سے دوسروں کو اپنے سے محبت کرنے والا بنانا ہے، اپنا اتحادی بنانا ہے، ہم آہنگی پیدا کرنی ہے، اپنے نوجوانوں کو اعلیٰ انسانی قدریں اور تکریم انسانیت سکھانی ہے، و لقد کرمنا بنی آدم ''تحقیق ہم نے اولادِ آدم کو عزت بخشی'' دوسروں کے نقطہ نظر کو ہم نے سمجھنا ہے اور یہ دیکھنا ہے کہ اقوام عالم ہمیں کس زاویے سے دیکھتی ہے، اپنے معاشرے کے بارے میں اقوام عالم کی سوچ میں مثبت تبدیلی لاکر ان کو اپنا ہمنوا اور معاون بنانا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر و عدم اعتماد کی فضا ہے اسے ختم کرنا ہے اور عالمی سطح پر جو پروپیگنڈا مہم ہے اور ایک بے یقینی اور عدم اعتماد کی فضا قائم ہے سیرۃ طیبہ کی روشنی میں اس کو ختم کرنا ہے اسی میں ہماری فلاح و نجات مضمر ہے۔

مانا کہ اس زمین کو نہ گلزار کرسکے

کچھ خار کم تو کر گئے گزرے جدھر سے ہم

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں