انقلابی قدم اٹھانے کی ضرورت

اب وقت کا تقاضا ہے کہ آیندہ عام انتخابات کی تیاری کے ساتھ احتساب کا نظام بہت مضبوط ہو


Syed Mohsin Kazmi November 06, 2017
[email protected]

LONDON: پاکستان میں پہلی دفعہ مارشل لاء اکتوبر 1958 میں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے لگایا، پھر 1962 میں بنیادی جمہوریت کی بنیاد پر صدارتی انتخاب ہوا۔ 1970 میں سازش اگرتلہ نے رنگ دکھلایا اور ہندوستان کی مدد سے مشرقی پاکستان بنگلادیش بن گیا۔ اگر مشرقی پاکستان کے مسئلے کو جو وہاں کے مقبول رہنما شیخ مجیب الرحمن کی پارٹی کے چھ نکات نے سیاسی خلیح پیدا کردی اور مشرقی پاکستان لسانیت کی بنیاد پر مغربی پاکستان سے دور ہوتا چلا گیا، اگر اس وقت غیر جمہوری حکومت نہ ہوتی تو یقیناً مشرقی پاکستان کا مسئلہ کچھ دو اور کچھ لو کی بنیاد پر سیاسی طور پر حل ہوسکتا تھا۔

ایسے مسائل غیر جمہوری حکومت کبھی حل نہیں کرسکتی، اس بات کو آج تک کوئی سمجھا نہیں۔ جب بھی پاکستان میں مارشل لاء لگا، جو 1958 میں اور 1977 میں، پھر 1999 میں لگا، ان سب کی بنیاد سول نظام حکومت میں بدانتظامی، بدعنوانی شامل ہے۔ صرف ذوالفقار علی بھٹو ایک ایسے رہنما تھے جو پیدائشی سیاست داں تھے، ان کی پارٹی کی اکثریت بہترین قانون دانوں پر مشتمل تھی۔ انھوں نے اس ملک کو سیاسی آزادی دلائی اور اپنے بہت مختصر عرصہ میں پاکستان کو 1973 کا آئین دیا، شملہ معاہدہ کیا، 1971کی جنگ کے مقبوضہ علاقے ہندوستان سے واپس لیے اور ملک میں بہت ترقی یافتہ کام کیے۔ لیکن صنعتوں کا قومیانہ ایک بہت غلط قدم تھا کیونکہ پاکستان کپیٹل ازم میں معاشی طور پر بہت مضبوط ہورہا تھا۔ اسی شہر کراچی میں صنعت و حرفت کا جال بچھا تھا۔ ہماری بندرگاہ ہزاروں لوگوں کو روزگار دے رہی تھی۔

کراچی پاکستان کا سب سے صاف ستھرا اور ترقی یافتہ شہر تھا۔ اسی طرح پورے ملک میں نہ بجلی کا بحران تھا، نہ گیس، نہ پانی کا، مگر ان کی سپلائی کی کمی ضرور تھی۔ پورا پاکستان ایک پرامن وطن تھا، جہاں نہ لسانیت، فرقہ واریت تھی، نہ مذہبی فرقہ واریت۔ اگر ضیاالحق 5 جولائی 1977 کو مارشل لاء نہ لگاتے تو شاید پاکستان آج کوریا، ملائیشیا سے زیادہ خوشحال ہوتا۔ اس کے بعد 1999 میں مارشل لاء لگا۔

یہ واحد مارشل لاء تھا جو حکومت کے ان غلط فیصلوں کی وجہ سے لگا جو اس نے جنرل پرویز مشرف کی تبدیلی کے لیے کیے، جب کہ وہ وطن سے باہر تھے، ورنہ اس مارشل لاء کا جواز نہیں بنتا تھا۔ اس طرح پاکستان کے 70 سال میں 35 سال آمریت رہی اور 35 سال ٹوٹی پھوٹی جمہوریت رہی۔

پاکستان میں جمہوری ادارے ضرور وجود میں آئے۔ پارلیمنٹ بنی، سینیٹ بنی، صوبائی اسمبلیاں بنیں، مگر پورے پاکستان میں ایک بھی سیاسی جماعت ایسی نہیں جس کی بنیاد وفاق پرستی پر ہو اور اس جماعت کا اندرونی نظام جمہوری ہو۔ صرف پی پی پی ایک ایسی جماعت تھی جسے کچھ حد تک جمہوری بھی اور کافی حد تک وفاق پرست بھی کہا جاسکتا تھا، وہ بھی جب تک قیادت بے نظیر بھٹو کے ہاتھ رہی، اس کے بعد پارٹی کا سیاسی گراف گرگیا اور نتیجے میں پی پی پی کا پنجاب میں صفایا ہوگیا۔ حالانکہ 2007 میں عام انتخابات میں بے نظیر بھٹو کے قتل سے وہاں ہمدردی کا ووٹ ملنا چاہیے تھا، وہ شاید اس لیے نہ ملا کہ اس وقت کی قیادت نے کوئی سیاسی دانشمندی کا مظاہرہ نہیں کیا اور اب دوبارہ پنجاب میں پی پی پی کی بحالی کے امکانات کم ہوگئے۔

حالیہ ضمنی انتخاب میں پی پی پی کو شرمناک حد تک کم ووٹ ملے، یہ اس کا ثبوت ہے۔ اس سے پہلے پی پی پی نے کشمیر میں بہت بری شکست حاصل کی، ان سب کا ایک ہی سبب ہے کہ پی پی پی کی سندھ کی حکومت میں شہروں میں تو کوئی ترقی نہ کی بلکہ شہروں میں خستہ حالی پر بھی توجہ نہ کی۔ سندھ کے شہروں میں مسائل زیادہ ہیں، بجلی، پانی، گیس، تعلیم، صحت، روزگار، ان میں سے کسی معاملے میں کوئی ترقی تو دور کی بات ہے، ہر محکمہ میں بدعنوانی، بدحالی اور مسائل میں اضافہ ہوا۔ حیرت یہ ہے کہ اتنے بڑے بڑے میگا پروجیکٹ اور اتنے بجٹ کا سرمایہ اس کی مخصوص کی ہوئی رقم کہاں صرف ہوئی، کہیں نظر نہیں آتی ہے۔

ہمارے وطن میں زیادہ تر حکمراں چاہے وہ وزیراعظم ہوں یا وزیراعلیٰ، وہ اداروں پر مسلط ہوجاتے ہیں۔ ان اداروں کے سربراہ کو میرٹ کے بجائے پسند اور ناپسند پر رکھتے ہیں، خاص طور پر پولیس کے محکمے کو اپنی اجارہ داری میں لے لیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں یہ سیاستداں مالی طور پر بہت مستحکم ہوجاتے ہیں اور ان کی پارٹی کا فنڈ بھی بہت بڑھ جاتا ہے۔ لیکن پورے ملک میں وفاقی طور پر اور صوبائی طور پر بدانتظامی، اقربا پروری، مالی کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی وجہ سے عوام کی بھلائی، ان کے سکون کے لیے کچھ نہیں ملتا۔

شاید پی پی پی کے لیڈرز کو یہ احساس نہیں کہ جب تک وہ شہروں میں ترقی پر توجہ نہیں دیں گے انھیں پورے پاکستان میں ووٹر کی حمایت کہیں نہیں ملے گی۔ پنجاب میں کم وبیش یہی صورت حال ہے مگر وہاں کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے تھوڑا بہت کام کرکے اور کچھ اچھا انتظامی ماحول پیدا کرکے خود کو اور پارٹی کو سیاسی طور پر زندہ رکھا ہوا ہے۔ رہا سوال کے پی کے کا، وہاں پی ٹی آئی نے کسی حد تک پولیس کے محکمے کو میرٹ پر چلایا اور انتظامی معاملات میں بہتری آئی، مگر وہاں بھی کوئی میگا پروجیکٹ نہ بن سکا۔ بلوچستان کا حال یہ ہے کہ ابھی تک وہاں بیرونی مداخلت نے غیر یقینی صورتحال پیدا کر رکھی ہے، پھر بھی حالات کچھ بہتری کی طرف ہیں۔

اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کرسکتا کہ گزشتہ 15 سے 20 سال میں پاکستان میں دہشت گردی اتنے عروج پر تھی کہ ریاست کمزور ہوچکی تھی۔ ان سب دہشت گردوں کے شاخسانے افغانستان سے وابستہ ہیں، ان کے پیچھے ہندوستان کی کارستانیاں بھی ہیں جو پاکستان کو سازش کے ذریعے توڑنا چاہتا ہے، لیکن شکر ہے اﷲ کا، پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف نے دہشت گردوں کے خلاف ڈٹ کر آپریشن ضرب عضب کرکے کافی حد تک دہشت گردوں کا صفایا کیا اور موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل جاوید باجوہ بھی ملک اور قوم کی خاطر امن کو قائم کرنے میں قابل قدر کام انجام دے رہے ہیں۔

اب وقت کا تقاضا ہے کہ آیندہ عام انتخابات کی تیاری کے ساتھ احتساب کا نظام بہت مضبوط ہو، اس وقت پاکستان عدالت عظمیٰ اور ہائی کورٹس بہت جانفشانی، غیر جانبداری سے مقدمات کا فریضہ انجام دے رہی ہے۔ اب پوری قوم منتظر ہے کہ کسی صورت سے پاکستان میں دہشت گردی کے انسداد کے ساتھ ان لوگوں کا بھی احتساب ہو، جنھوں نے سیاست ملک اور قوم کی خدمت کے لیے نہیں بلکہ مال وزر و شہرت کے لیے کی۔ اگر ان سیاسی پارٹی کے سربراہوں اور وزراء، مشیران اور بیوروکریٹس کا احتساب غیر جانبداری سے ہوگیا، ساتھ ہی ان پارٹی سینیٹیرین کا بھی جنھوں نے ناجائز دولت کمائی تو آنے والے انتخابات میں صاف شفاف امیدوار آئیں گے۔

اچھے امیدوار لانا الیکشن کمیشن کا کام ہوتا ہے، دوہری شہریت یا اقامہ رکھنے والے کسی حال میں امیدوار کے اہل نہ ہوں۔ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ ملکی معیشت کو بہتر کرنے اور قرضوں کا حجم کم کرنے کے لیے کوئی انقلابی قدم اٹھایا جائے، مثلاً یہ کہ ایک ایسی حکومت وقتی طور پر لائی جائے جو بہترین منصوبہ بندی کرے، انرجی کا بحران ختم کرے، عوام کو ریلیف دے، اداروں کے سربراہوں کو میرٹ پر لائے، ان کو بااختیار رکھے، پولیس ہو یا ایف آئی اے یا ترقیاتی ادارے، ان سب میں سیاسی بھرتی والوں کو نکالا جائے۔ کیونکہ ہمارے یہاں یہ وطیرہ ہے، ان اداروں کے سربراہوں کے ذریعے ہی مالی بدعنوانی کے تانے بانے سیاسی شخصیتوں تک آتے ہیں۔ خدا کرے کوئی ہستی ایسا انقلابی قدم اٹھائے جس میں سادگی سے حکومت کرنے والے ماہرین معیشت، ماہرین تعلیم، ماہرین منصوبہ بندی آئیں اور ایمانداری سے ملک اور قوم کی خدمت کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |