اسلام اور سائنس

اسلام نے سائنس ایجاد کی۔ اہل یونان یا اہل روم نے جدید سائنس کا آغاز نہیں کیا۔


[email protected]

کتابِ خداوندی ہر چیزکی جامع ہے، کوئی علم اور مسئلہ ایسا نہیں جس کی اصل واساس قرآن عظیم میں موجود نہ ہو، قرآن میں عجائب المخلوقات، آسمان و زمین کی سلطنت اور عالم علوی و سفلی سے متعلق ہر شے کی تفصیلات موجود ہیں، جن کی شرح و تفصیل کے لیے کئی جلدیں درکار ہیں ۔

دنیا کے تمام مذاہب میں دین اسلام ہی وہ پہلا اورآخری مذہب اور آسمانی صحائف میں قرآن ہی وہ واحد صحیفہ رشد و ہدایت ہے جو انسان کوکائنات اور نظام کائنات میں غوروفکر، عبرت وبصیرت اور تفکروتدبرکی دعوت دیتا ہے اور اپنے پیش کردہ عقائدوتعلیمات کی حقانیت کے اثبات کے لیے کائنات اوراس کے نظام کو بطور دلیل پیش کرتا ہے۔

(1) اسلام کے بنیادی مقاصد اور اس کے اساسی معتقدات یعنی توحید، رسالت اور یوم آخرت کا اثبات اور ان کی صداقت و حقانیت کے لیے نظام کائنات سے دلائل پیش کرنا اور منکرین حق پر اتمام حجت کرنا جیساکہ ایک دوسرے موقعے پر اس کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے:''اور روئے زمین میں یقین کرنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں موجود ہیں اور خود تمہاری اپنی ہستیوں میں بھی، کیا تم کو نظر نہیں آتا؟''(2)اہل اسلام کو خصوصیت کے ساتھ تسخیر موجودات کی طرف راغب کرنا، یعنی موجودات عالم میں جو طبیعی اور حیاتیاتی فوائد، قوانین فطرت کے روپ میں موجود ہیں ان سے استفادہ کرکے انسانی زندگی کو بہتر بنانے اور دین برحق کے غلبے کے لیے فوجی و عسکری حیثیت سے قوت و شوکت حاصل کرنے کی ترغیب دلانا، تاکہ اس کے ذریعے خلافت ارضی کے دیگر مقاصد پورے ہوں اور اقوام عالم کی اصلاح کا فریضہ بھی انجام پائے۔

بائبل قرآن اور سائنس کا مصنف ڈاکٹر موریس بوکایئے سائنس کے حوالے سے بائبل اور قرآن کا تقابلی مطالعہ کرنے کے بعد اعتراف حقیقت کے طور پر لکھتا ہے:''قرآن کریم میں مقدس بائبل سے کہیں زیادہ سائنسی دلچسپی کے مضامین زیر بحث آئے ہیں۔ بائبل میں یہ بیانات محدود تعداد میں ہیں لیکن سائنس سے متباین ہیں۔ اس کے برخلاف قرآن میں بکثرت مضامین سائنسی نوعیت کے ہیں۔ اس لیے دونوں میں کوئی مقابلہ نہیں۔ موخر الذکر (قرآن) میں کوئی بیان بھی ایسا نہیں جو سائنسی نقطۂ نظر سے متصادم ہوتا ہو۔ یہ وہ بنیادی حقیقت ہے جو ہمارے جائزہ لینے سے ابھر کر سامنے آتی ہے۔''

موریس بوکایئے ''عہد نامہ قدیم اور سائنس'' کے عنوان کے تحت اس تاریخی اور ابدی حقیقت کو مزید صراحت کے ساتھ اس طرح بیان کرتا ہے''ان مضامین سے جو عہد نامہ قدیم اور اسی طرح اناجیل میں بیان ہوئے ہیں کوئی بھی ایسا نہیں جو جدید معلومات کی روشنی میں فراہم کردہ واقعات سے مطابقت رکھتا ہو۔''موصوف کتاب کے اختتامیہ پر اس حقیقت کا اعتراف مزید صراحت کے ساتھ کرتے ہوئے لکھا ہے:''قرآن کریم ان دونوں مقدس صحیفوں(تورات و انجیل) سے جو ان سے قبل نازل ہوئے تھے بڑھ چڑھ کر اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے اور اپنے بیانات کے لحاظ سے تضادات و تناقضات سے پاک ہے، جب کہ اناجیل میں انسان کی کارگزاریوں کی علامت پائی جاتی ہے۔

قرآن کی ان لوگوں کے لیے جو معروضی طور پر سائنسی اعتبار سے اس کا جائزہ لیتے ہیں، ایک الگ خوبی ہے وہ خوبی جدید سائنسی معلومات سے اس کی کلی طور پر مطابقت ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر جو بات ہے وہ یہ ہے کہ اس میں ایسے بیانات ہیں جو سائنس سے مربوط ہیں۔ اس صورت میں یہ بات ناقابل تصور ہے کہ حضرت محمدﷺ کے زمانہ کا کوئی فرد اس کا مصنف ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید سائنسی معلومات ہی نے ہمیں قرآن کریم کی بعض آیات کو سمجھنے کا موقع دیا ہے جس کی توضیح کرنا اس زمانہ میں ممکن نہ تھا، بائبل اور قرآن کے ایک ہی مضمون کے کئی بیانات کے موازنہ کرنے سے وہ بنیادی اختلافات ظاہر ہوتے ہیں جو اول الذکر کے بیانات کے جو جدید معلومات سے ہم آہنگی رکھتے ہیں درمیان دکھائی دیتے ہیں۔

٭...معروف مستشرق مارگولیوتھ (D.S. Margoliouth) راڈول J.M.Rodwell کے ترجمہ قرآن کے دیباچہ میں لکھتا ہے:''دنیا کے عظیم مذہبی صحیفوں میں قرآن ایک اہم مقام رکھتا ہے، باجود یہ کہ اس قسم کی تاریخ ساز کتب میں اس کی عمر سب سے اہم ہے مگر انسان پر حیرت انگیز اثر ڈالنے میں وہ کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ اس نے ایک نئی انسانی فکر پیدا کی اور ایک نئے اخلاق کی بنیاد ڈالی۔''

اسلام نے سائنس ایجاد کی۔ اہل یونان یا اہل روم نے جدید سائنس کا آغاز نہیں کیا۔ اسلام نے وہ کچھ حاصل کیا جو کوئی دوسری قوم حاصل نہ کرسکی تھی۔ نہ وہ حاصل کرنے کے لائق تھی۔ مسلمان فضلا تہذیب کے مشعل بردار تھے۔ سائنس اور آرٹس میں ان کی تحقیقی سرگرمیاں دوسری اقوام سے بڑھ کر تھیں لہٰذا عیسائی مغرب اپنے دماغوں کو روشن کرنے کے لیے روشنی کے اس واحد دستیاب ذریعے سے استفادہ کرنے پر مجبور تھی جو عرب مصنفین اور مسلم دنیا کے کاموں کی شکل میں موجود تھی۔رابرٹ بریفالٹ (Robert Briffault )اپنی کتاب "The Making of Humanity" میں لکھتا ہے:

''یورپ کی ترقی کا کوئی ایسا پہلو نہیں جس پر اسلامی تمدن کا احسان اور اس کے نمایاں آثار کی گہری چھاپ نہ ہو۔''وہ آگے مزید لکھتا ہے:

''صرف طبعی علوم ہی (جن میں عربوں کا احسان مسلم ہے) یورپ میں زندگی پیدا کرنے کے ذمے دار نہیں ہیں، بلکہ اسلامی تمدن نے یورپ کی زندگی پر بہت عظیم الشان اور مختلف النوع اثرات ڈالے ہیں اور اس کی ابتدا اسی وقت سے ہوجاتی ہے جب اسلامی تہذیب و تمدن کی پہلی کرنیں یورپ پر پڑنی شروع ہوئیں۔''اب ہمیں اس امر کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ مسلمانوں کے عروج کے اس طویل دور میں یورپ کی جو آج علم اور ترقی کا گہوارہ ہے کیا کیفیت تھی؟

یورپ اس زمانے میں جہالت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا اور جہالت کا یہ دور چند برسوں کا نہیں بلکہ آٹھ سو برسوں کا تھا جس میں ہر قسم کی علمی و تمدنی ترقی بڑی حد تک رکی ہوئی تھی۔ یہ زمانہ 486ء سے تقریباً 1496ء تک شمار ہوتا ہے۔

مشہور انگریز مصنف H.G. Wells اس عہد کی تصویر کشی کرتے ہوئے لکھتا ہے:

''سائنس اور سیاست دانوں ان برسر پیکار اور زوال پذیر حکومتوں میں موت کی نیند سوچکے تھے ایتھنس Athens کے متاخرین فلسفیوں نے اپنی تباہی تک (جواس پر مسلط کردی گئی تھی) عہد قدیم کے ادبی سرمایہ کو اگرچہ بغیر سوچے سمجھے مگر بے انتہا عقیدت کے ساتھ محفوظ رکھا تھا لیکن اب دنیا میں انسانوں کا کوئی طبقہ ایسا باقی نہیں رہا تھا جو عہد قدیم کے شرفا کی طرح جری اور آزاد خیالی کا حامی ہوتا اور قدیمی تحریروں کی طرح تلاش و تحقیق یا جرأت مندانہ اظہار خیال کا داعی ہوتا۔اس طبقے کے ختم ہونے کی خاص وجہ سیاسی وسماجی افرا تفری تھی لیکن ایک وجہ اور بھی تھی جس کے باعث اس عہد میں ذہین انسانی کند اور بنجر ہوچکا تھا ایران اور بازنطینیہ دونوں ملکوں میں عدم رواداری کا دور دورہ تھا، دونوں حکومتیں ایک نئے انداز کی مذہبی حکومتیں تھیں جن میں آزادانہ اظہار خیال پر کڑے پہرے بٹھادیے گئے تھے''

اسلامی تمدن نے یورپ کی زندگی پر انتہائی گہرے اور ہمہ جہت اثرات ڈالے ہیں اور اس کی ابتدا اسی وقت ہوئی جب اسلامی تہذیب و تمدن کی پہلی کرنیں یورپ پر پڑنی شروع ہوئیں۔اس حوالے سے پروفیسر ہٹی (P.K.Hitti) کی رائے تاریخی حقیقت کی حیثیت رکھتی ہے۔ چنانچہ موصوف کا بیان ہے:''مسلم اسپین قرون وسطیٰ میں یورپ کی ذہنی اور فکری ارتقا کی تاریخ میں ایک روشن باب کی حیثیت رکھتا ہے، آٹھویں اور تیرہویں صدی کے درمیان عربی داں(مسلمان) ہی پوری دنیا میں تہذیب و تمدن کے مشعل بردار رہے ہیں مزید برآن وہی قدیم سائنس اور فلسفہ کی بازیافت کا بھی واسطہ بنے۔ پھر ان میں اضافہ کرکے انھوں نے اسے اس طور پر منتقل کیا کہ (انھی کی بدولت) مغربی یورپ کی نشاۃ ثانیہ ممکن ہوسکی۔ اس پورے عمل میں عربی اسپین کا بہت نمایاں حصہ ہے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں