ایک امیدوار کی انتخابی مہم
چوہدری صاحب پارٹی فنڈز جمع کرانے کے قائل ہی نہ تھے۔ اِسی لیے تو پانچ برس تک وزیر بے محکمہ رہے تھے۔
جیسے ہی الیکشن شیڈول کااعلان ہوا،چوہدری صاحب نے دارالحکومت میں اپنے نو تعمیر شدہ وسیع و عریص بنگلے کے گیراج سے اپنی نئی لینڈ کروزر نکلوائی اور اپنی تیسری نئی نویلی بیگم کو رُخصت کی اطلاع دیکر ، اپنے چند مسلح اور چند غیرمسلح مصاحبین کے ہمراہ اپنے آبائی علاقے کی طرف روانہ ہوگئے ۔ اِنکا آبائی علاقہ ، ان کا جدی پشتی حلقہ انتخاب بھی تھا ۔ چوہدری صاحب سے پہلے اِن کے والد اِسی پسماندہ علاقے سے مُسلسل رُکن اسمبلی منتخب ہوتے رہے تھے اور اِن سے پہلے اُن کے والد یعنی چوہدری صاحب کے دادا مرحوم اپنے کاندھوں پر یہ بھاری ذمے داری ہر الیکشن میں رضاکارانہ طور پر اُٹھا لیا کرتے تھے ۔
یہ بھاری ذمے داری نسل در نسل منتقل ہوتی ہوئی اب موجودہ اور نوجوان چوہدری صاحب تک آپہنچی تھی ۔ چوہدری صاحب نے یہ ذمے داری بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ ایسے ہی سنبھا لی تھی جیسے باپ دادا سے ورثے میں ملنے والی جائیداد کو نہ صرف سنبھال کر رکھا تھا بلکہ اِس میں مُسلسل اضافہ بھی کرتے رہے تھے ۔ اور کیوں نہ کرتے ؟ وہ اپنے والد اور دادا کی طرح اَن پڑھ تھوڑی تھے ۔ بلکہ وہ یورپ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل تھے ۔ مغرب میں رہ کر اُنہوں نے بہت قریب سے جمہوریت کو دیکھا تھا ۔ قانون کی حکمرانی کو سمجھا تھا ۔
وہ اچھی طرح سے جانتے تھے کہ ایک رُکن پارلیمنٹ کے اصل فرائض کیا ہیں ؟ اِسی لیے اسمبلی میں اپنی جدّی پُشتی نشست سنبھالتے ہی اُنہوں نے اپنے دادا کے زمانے سے رائج ، اپنے ووٹروں کے استحصال کے وہ تمام فرسودہ طریقے اور ہتھکنڈے تبدیل کر دئیے تھے ، جن پر اُن کے بزرگ ، اُن سے پہلے عمل پیرا تھے ۔ پڑھ لکھ کر وہ بُرے بھلے کی تمیز اچھی طرح سیکھ چکے تھے ۔ لہذا اُنہوں نے اپنے ووٹروں کا پچھلے پانچ برسوں میں اتنے جدید اور سائنٹفک طریقوں سے استحصال کیا تھا کہ اُن کے والد نے حویلی میں اور دادا نے قبر میں مارے حیرت کے اپنی اُنگلیاں ، اپنے ہی دانتوں تلے دبا کر کچل ڈالی تھیں ۔ اور آبائی حلقے کے ووٹرز الگ خوش تھے ۔ اِن کی نشست کو اب اِن کے خاندانی حریف سے کوئی خطرہ نہ تھا کیونکہ اُنہوں نے اپنے حلقے میں ایک پرائمری اسکول آدھا بنوا کر چھوڑ دیا تھا اور مزید فنڈز نہ ملنے کا الزام حکومت کو دیتے رہے تھے۔
اسکول کی تعمیر کا ٹھیکہ اُنہوں نے اپنے قریبی عزیز کے کسی فرنٹ مین کو دلوا دیا تھا ۔ گاؤں کی سڑک پر پچھلے تین برسوں سے پتھر پڑے ہوئے تھے اور وہ ابھی تک زیرِ تعمیر تھی ۔ یہاں کا ٹھیکہ اِن کے دوسرے کزن کے فرنٹ مین کے پاس تھا ۔ ایک ادھورے انڈسٹریل ہوم کے علاوہ ، ایک اسپتال کا سنگِ بنیاد وہ رکھ چکے تھے ۔ سنگِ بنیاد کے اوپر دوسرا پتھر اِس لیے نہ رکھا جاسکتا تھا کہ پارٹی کے ارکان اُن کے خلاف ایک گھناونی سازش کر رہے تھے ، جنھیں اِن کے انتخابی حریف کی بھرپور پشت پناہی حاصل تھی ۔ گزشتہ تین برسوں سے اُنہوں نے اپنے حلقہ انتخاب میں قدم تک نہ رکھا تھا ۔
اُن کے مصاحبین کے مطابق جو گاؤں میں مقیم تھے ، وہ دارالحکومت میں اِن سازشیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے میں مصروف تھے جو اُن کے حلقہ انتخاب میں ترقیاتی کاموں میں رُکاوٹیں کھڑی کرنے پر کمر بستہ تھے ۔ ویسے بھی وہ موجودہ حکمران پارٹی سے خاصے ناراض تھے ، کیونکہ پارٹی نے اُنہیں پچھلے پانچ برسوں سے وزیربے محکمہ رکھا ہوا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ صرف چند ارب کے ہی اثاثے بنا پائے تھے ۔ اُنہیں اپنی اِس پارٹی سے بھی حساب کتاب چکانا تھا ۔ وہ اچھی طرح سے جانتے تھے کہ موجودہ پارٹی اگلا الیکشن کسی بھی صورت میں جیت نہیں سکتی تھی ۔ اِسی لیے لینڈ کروزر کے ٹھنڈے ٹھار ماحول میں وہ آرام دہ نشست پر نیم دراز ہو کر مختلف پارٹیوں کے ٹکٹ کی آفر پر غور کر رہے تھے ۔ اُنکا فون مُسلسل بج رہا تھا ۔ آفرز پر آفرز آرہی تھیں ۔ الیکٹ ایبل جو ٹھہرے ۔
وہ اپنی آبائی حویلی پہنچے تو ووٹروں ، چمچوں ، ملازموں ، مزارعوں اور اُن کے قرض خواہوں کا ایک جمِ غفیر اُن کے استقبال کے لیے موجود تھا ۔ پھولوں کے ہار سے لدے پھندے وہ حویلی میں داخل ہوئے تو اصلی تے وڈی چوہدرانی کا منہ پھولا ہوا پایا ۔ اور کیوں نہ پھولتا ؟ دو الیکشن اور دو عدد سوتن کے حساب سے اب یہ تیسرا الیکشن سر پر تھا ۔ گویا تیسری سوتن چوہدرانی کے سر پر ناچ رہی تھی ۔ حویلی کے منشی ایک بھاری رجسٹر لے کر نمودار ہوئے ۔ اِس رجسٹر میں اُن تمام ووٹرز کی فہرست تھی ۔ جو گزشتہ پانچ برسوں میں وفات پا چکے تھے ۔ اور چوہدری صاحب نے الیکشن کے اعلان تک اِن مرحوم ووٹرز کے اہلِ خانہ سے تعزیت کو معرض التوأ میں ڈالا ہوا تھا ۔ بڑی چوہدرانی کو اُنہوں نے بمشکل تمام منایا ، الیکشن جیتنے کی صورت میں تیسری سوتن نہ لانے کی یقین دہانی کروائی۔ ہر ہفتے آبائی حلقے اور آبائی حویلی کے دورے کا وعدہ کیا۔
وڈی چوہدرانی بھی اُن کے ووٹرز کی طرح اُن کے وعدے سُن کر خوش ہوگئی ۔ یہ مرحلہ طے کر کے چوہدری صاحب اپنے مقامی اور شہری مصاحبین کی فوج ظفر موج کی معیت میں ایک جلوس لے کر منشی جی کی تیار کردہ مرحومین کی فہرست کے ہمراہ ، اُن کے پسماندگان سے تعزیت کرنے کے لیے روانہ ہوگئے ۔ راستے میں اُن کے چند پُر جوش انقلابی ساتھی ، اِس طرح ہوائی فائرنگ کر رہے تھے ، جیسے چوہدری صاحب تعزیت کرنے نہیں بلکہ دشمن پر ہلّہ بولنے کے لیے تشریف لے جا رہے ہیں ۔ دورانِ سفر ساؤنڈ پروف لینڈ کروزر میں وہ مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے آنے والی ٹکٹ کی آفر پر گفتگو فر ماتے رہے ، زیادہ تر اختلاف اُنہیں اِس نکتے پر تھا کہ کسی بھی خرید وفروخت میں ماہر جماعت نے اُنہیں ابھی تک ، اُن کے من پسند قلمدان کی آفر نہیں کی تھی ، اور قلمدان کے مطالبے پراُنہیں جواب ملا تھا کہ یہ تمام قلمدان فلاں فلاں اُمیدوار کو پارٹی میں بھاری فنڈز جمع کرانے کے عوض دیے جا چکے ہیں ۔
چوہدری صاحب پارٹی فنڈز جمع کرانے کے قائل ہی نہ تھے۔ اِسی لیے تو پانچ برس تک وزیر بے محکمہ رہے تھے۔ ہاں اِن کی موجودہ برسرِ اقتدار پارٹی اِنہیں پارٹی ٹکٹ عنایت کرنے کے ساتھ ساتھ ، پوری کابینہ اِن ہی کے مشورے سے بنانے کی یقین دہانی ضرور کروا رہی تھی ۔ لیکن چوہدری صاحب نے بھی کچّی گولیاںنہیں کھیلی تھیں ۔ وہ جانتے تھے کہ پارٹی جیتے گی تو کابینہ بنانے کی نوبت آئے گی ۔ اور اپوزیشن میں بیٹھنا اُنکی خاندانی روایت میں شامل ہی نہیں تھا ۔ جسے وہ ہر صورت قائم رکھنا چاہتے تھے ۔ اِسی ادھیڑبن میں وہ پہلے مرحوم کے گھر جا پہنچے ، گھر کے دروازے پر گاڑی سے ایسے اُترے جیسے دولہا برات کے ساتھ دُلہن کے گھر پہنچتا ہے ۔ پھولوں کے ہار اور نعروں کے شور سے اُن کا سواگت کیا گیا یہ سب کچھ اُن کے منشی کا کیا دھرا تھا ۔ گھر میں داخل ہو کر اُنہوں نے مرحوم کے درجات بلند ہونے کے لیے خصوصی دُعا فرمائی ۔ اور اُنکی موت کا الزام ببانگِ دہل اُنہوں نے اپنے انتخابی حریف پر لگا دیا کہ اگر وہ شہر میں بیٹھ کر اِن کے خلاف سازشیں نہ کرتا تو ، چوہدری صاحب وہ اسپتال مکمل کروا چکے ہوتے جو اُن کے حریف کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے باعث فنڈز نہ ملنے کی وجہ سے مکمل نہ ہو سکا ۔ اور مرحوم بجائے اسپتال کے گھر میں ہی اپنی بوسیدہ چارپائی پر لیٹے لیٹے خدا کو پیارے ہوگئے۔
دوسرے گھر میں ایک پندرہ سالہ بچے کی تعزیت کرتے ہوئے اُسکی موت کا ذمے دار بھی اُنہوں نے اپنے انتخابی حریف کو ہی ٹھہرایا کہ نہ وہ سازش کر کے اسکول کے فنڈز رُکواتا اور نہ ہی اِن کے بچے کو فقط پندرہ سال کی عمر میں کام کرنے کے لیے شہر میں مزدوری کے لیے جانا پڑتا ۔ اور نہ ہی وہ روڈ ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہوتا ۔ بلکہ سکون سے اِن کے تعمیر کردہ اسکول میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کر رہا ہوتا ۔ تعزیتی دورے کو کامیابی سے مکمل کر کے وہ فاتحانہ انداز سے واپس حویلی پہنچے حویلی کے دروازے پر اُنہوں نے چوبیس گھنٹے تندور گرم اور لنگر جاری رکھنے کا حکم دیا ۔ اب اگلا مرحلہ پہلے انتخابی جلسے کے انعقاد کا تھا ۔ جس کا حال احوال کسی اگلی نشست میں بیان کروں گا ۔ کیونکہ ابھی یہ جلسہ ہوا ہی نہیں ہے ۔ ابھی تو ابتدائی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔