اُردو کی حفاظت کا صحیح طریقہ
اُردو کا شمار دنیا کی پہلی چار سب سے زیادہ بولی جانیوالی زبانوں میں ہوتا ہے چنانچہ بول چال کی زبان کے۔۔۔
ISLAMABAD:
کوئی تیس برس قبل بھارت، پہلی مرتبہ جانا ہوا تو وہاں اُردو زبان کی حالت زار اور صورتحال کو دیکھ کر پے در پے اس قدر جھٹکے لگے کہ تاریخ اور کتابوں کے بنائے ہوئے ''قلعۂ معلیٰ'' کے سارے در و دیوار ایک ایک کر کے گرتے چلے گئے۔ واہگہ کی سرحد سے دہلی تک کے تقریباً چار سو کلو میٹر کے سفر میں کہیں بھی اُردو رسم الخط میں لکھا ہوا کوئی لفظ یا جملہ نظر نہیں آیا۔ تفتیش پر معلوم ہوا کہ چونکہ (مقبوضہ کشمیر کے سوا) بھارت کے کسی بھی صوبے کی سرکاری اور عام استعمال ہونے والی زبان اُردو نہیں ہے اور وہاں کے نظام تعلیم کے حوالے سے اس کا رشتہ روٹی، روزی، ورثے کے بجائے مسلمانوں کی زبان سمجھا جاتا ہے، اس لیے کسی طرح کی بامعنی سرکاری سرپرستی بھی حاصل نہیں ہے۔ اس لیے اب سوائے اسلامی مدرسوں اور اُردو کے استادوں یا پروفیسروں کے یہ کسی کا مسئلہ نہیں رہی اور انتہا یہ ہے کہ اب وہاں اُردو کے بڑے بڑے لکھاریوں کے بچے بھی اپنے والدین کی کتابیں نہیں پڑھ سکتے۔
اس کے بعد سے اب تک مجھے تقریباً دس بار بھارت جانے کا موقع ملا ہے اور میں نے محسوس کیا ہے کہ بوجوہ اب وہاں مسلمانوں اور اُردو کے حالات آہستہ آہستہ بہتر ہو رہے ہیں جب کہ اسی عرصے میں وطن عزیز میں اُردو قومی اور سرکاری زبان کہلانے کے باوجود بتدریج ہمہ جہت زوال کے عمل میں مبتلا ہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ ہمارے کم از کم 20 فیصد سکولوں میں (اور واضح رہے کہ انھی 20 انگلش میڈیم سکولوں کے تعلیم یافتہ بچوں کے لیے ملک میں موجود تقریباً تمام کے تمام ترقی کے دروازے کھلتے ہیں) زیر تعلیم بچے ٹھیک سے اُردو پڑھ بھی نہیں سکتے اور کچھ تو اپنا نام تک اس میں نہیں لکھ سکتے یعنی اب بھارت اور پاکستان دونوں میں اُردو کا منظرنامہ کچھ کچھ اقبال کے اس مصرعے کی تصویر پیش کر رہا ہے کہ ''تری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے''
اتفاق سے گزشتہ دنوں مجھے ایک بھارتی دانشور قیصر شمیم صاحب کا مضمون بعنوان ''ہندی، اُردو اور ہندوستانی'... مجھے کہنا کچھ اپنی زباں میں'' دیکھنے کا موقع ملا۔ اس میں اگرچہ بات بھارت کے لسانی مسائل کے حوالے سے کی گئی ہے مگر اس کا ایک بہت واضح اور گہرا تعلق وطن عزیز میں اُردو کے مستقبل سے بھی بنتا ہے اس لیے اس کا مطالعہ یقینا ان سب لوگوں کے لیے اہم ہے جو اُردو سے محبت رکھتے ہیں اور اس کی ترویج و ترقی کے لیے دلوں میں نرم گوشے رکھتے ہیں۔ قیصر شمیم نے اپنے مضمون کی تمہید کچھ اس طرح سے باندھی ہے۔
''ہندی، اُردو اور ہندوستانی پر گفتگو اس لسانی بوقلمونی (lingvistic Diversity) سے ہماری توجہ ہٹاتی ہے جو حیاتیاتی بوقلمونی (Bio-Diversity) کی طرح سرزمین ہندوستان بلکہ پورے جنوبی ایشیاء کا ایک بہت بڑا وصف ہے، سوائے پاپوا نیوگنی کے، اتنی لسانی بوقلمونی کہیں اور دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس کو لاحق خطرہ بھی ''حیاتیاتی بوقلمونی'' کو لاحق خطرے کی طرح سنگین نتائج کا حامل ہے۔
ہم نے زبان اور ثقافت کے مسئلے کو اپنے طور پر دستور ساز اسمبلی میں حل کر لیا اور قانع ہو گئے لیکن زبان اور ثقافت کا مسئلہ محض قانون کے ذریعے حل نہیں ہوتا، دیگر سماجی اور سیاسی محرکات بھی اپنا کام کرتے ہیں۔ آزاد اور جمہوری سماج نے جو موقع ہمیں گزشتہ آدھی صدی میں فراہم کیا تھا اس میں ہم نے ثقافتی پالیسی کی طرف خاطرخواہ توجہ نہیں کی ہے لہٰذا اب کھلی معیشت، آزاد منڈی اور اطلاعات کے آزادانہ بہاؤ سے ابھرنے والے خطرات کے سامنے بے بس نظر آ رہے ہیں۔
ترکی کے ناول نگار اورہان پامک کے ناول (Snow) میں اس کا ا یک کردار رستم و سہراب کی کہانی سناتا ہے اور پھر کہتا ہے۔ میں نے یہ کہانی تمہیں اس لیے نہیں سنائی کہ میری زندگی میں اس کی کیا اہمیت ہے یا میری زندگی سے اس کا کیا تعلق ہے بلکہ یہ بتانے کے لیے سنائی کہ اب اسے بھلا دیا گیا ہے۔ ہزار سال پرانی یہ کہانی فردوسی کے شاہنامہ کی ہے۔ ایک وقت تھا جب تبریز سے استنبول تک اور بوسنیا سے ترب زون تک لاکھوں لوگوں کو یہ کہانی یاد تھی۔ وہ جب بھی اسے دہراتے، اسے اپنی زندگی میں بامعنی پاتے۔ یہ کہانی ان کے لیے ویسی ہی اہم تھی جیسی پوری مغربی دنیا کے لیے اوڈی پس کے ذریعے باپ کا قتل یا میکبتھ کو اقتدار اور موت کا خوف مگر اب چونکہ یہ مغرب کے طلسم میں گرفتار ہیں، ہم اپنی ان کہانیوں کو بھول گئے ہیں۔
ہماری نصابی کتابوں سے ایسی تمام پرانی کہانیاں ہٹا دی گئی ہیں۔ ان دنوں استنبول میں ایک بھی کتب فروش ایسا نہیں جس کے پاس شاہنامہ موجود ہو۔ یہ وہ آئینہ ہے جس میں ہم اپنی تصویر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ پرانی داستانوں کا ہماری زندگیوں سے کیا تعلق ہے اس پر گزشتہ دنوں کراچی لٹریچر فیسٹیول میں انتظار حسین صاحب نے بھی بڑی خیال انگیز باتیں کی تھیں مگر اب مسئلہ مزید گھمبیر ہوتا جا رہا ہے کہ ایک عالمی سروے کے مطابق آئندہ پچاس برس میں اس وقت بولی اور لکھی جانیوالی دنیا کی بیشتر زبانیں صفحۂ ہستی سے معدوم ہو جائیں گی اور اس فہرست میں اُردو کا نام بھی شامل ہے۔ یہ انکشاف کتنا بھی تکلیف دہ اور ناقابل یقین کیوں نہ ہو، امرِ واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ صرف ایک صدی میں ہماری آنکھوں کے سامنے بہت سی زبانیں یا تو ختم ہو چکی ہیں اور ان میں سے بعض تو ایسی ہیں کہ جن کو جاننے اور بولنے والا اب ایک بھی فرد روئے زمین پر موجود نہیں لیکن دیکھا جائے تو یہ سب کی سب زبانیں کسی محدود اور مخصوص علاقے، قوم، قبیلے یا انسانی گروہ میں مستعمل تھیں۔
اُردو کا شمار دنیا کی پہلی چار سب سے زیادہ بولی جانیوالی زبانوں میں ہوتا ہے چنانچہ بول چال کی زبان کے اعتبار سے تو اس کا مستقبل بہت حد تک محفوظ نظر آتا ہے البتہ اس کا اسکرپٹ یقینا شدید خطرات کی زد میں ہے لیکن ابھی وقت ہمارے ہاتھوں سے نکلا نہیں، اگر ہم اپنے نظام تعلیم میں اس کا جائز مقام دے سکیں تو اس کا رسم الخط بھی بچ سکتا ہے اور اس میں موجود عظیم تہذیبی ورثے کی حفاظت بھی کی جا سکتی ہے۔ اُردو چونکہ دنیا کی بیشتر بڑی زبانوں کے مقابلے میں کسی مخصوص قوم یا جغرافیے کی بنیادی خصوصیات سے محروم ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس کے فروغ کے لیے بھی الگ سے کوئی فارمولا وضع اور استعمال کیا جائے۔ آغاز میں میں نے 30 سال قبل بھارت کے ان علاقوں میں اُردو کی حالت زار کا ذکر کیا تھا جو اس کے روایتی تہذیبی مراکز کہلاتے ہیں اور جہاں اب خود اُردو کے اہل زبان بھی اپنی اگلی نسلوں کو انگریزی پڑھا رہے ہیں۔
30 برس بعد اب پاکستانی معاشرہ بھی کم و بیش اسی راہ پر گامزن ہے لیکن یہاں اُردو کو ایک اور مسئلے کا بھی سامنا ہے اور وہ یہ کہ ہمارے یہاں ایک مخصوص گروہ اسے قومی کے بجائے ایک ذاتی اور طبقاتی جائیداد کے طور پر دیکھتا ہے اور یوں اس کی جڑیں پاکستان کی زمین کے بجائے ایک مخصوص علاقے کی ہوا میں محدود ہو کر اس تخلیقی توانائی سے محروم ہوتی جا رہی ہیں جن میں اس کی بقا کا راز پوشیدہ ہے یعنی اگر ''اُردو معلیٰ'' کو ''اُردو محلہ'' نہیں بنایا جائے گا اور اس کے ذخیرہ الفاظ میں تمام پاکستانی زبانوں کو شامل نہیں کیا جائے گا تو عین ممکن ہے کہ خدانخواستہ متذکرہ بالا عالمی لسانی سروے کی رپورٹ حقیقت کا روپ اختیار کر لے۔ میں اپنی اس بات کو جواہر لال نہرو کے اس بیان پر ختم کرنا چاہتا ہوں جو انھوں نے مستقبل کے بھارت میں ہندی کے حوالے سے دیا تھا لیکن جو وطن عزیز میں اُردو کے مستقبل پر بھی بہت حد تک صادق آتا ہے۔
''مجھے یقین ہے اگر ہم ہندی کے معاملہ میں دانش مندی سے کام لیں گے، اسے اخراجی Exclusive کے بجائے جاذب Inclusive زبان بنا کر اور اس میں ہندوستان کی زبان کے تمام عناصر کو سمو کر آگے بڑھیں گے تو مجھے کوئی شک نہیں کہ یہ ترقی کرے گی اور ایک عظیم زبان بن جائے گی۔''