ڈنمارک مالکان گھوڑوں کے نہ مرنے کی دعائیں کرنے لگے
چڑیا گھر کی انتظامیہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ مُردہ گھوڑے عطیہ کرنے کے خواہش مند چھ ماہ کے بعد آئیں
ڈنمارک میں گھوڑے روایتی طور پر بڑے شوق سے پالے جاتے ہیں۔ ملک بھر میں گھوڑوں کے فارم قائم ہیں۔ ایک فارم میں دس پندرہ گھوڑوں کی موجودگی عام سی بات ہے۔ یوں ایک اندازے کے مطابق کراچی سے ایک تہائی آبادی رکھنے والے ملک میں گھوڑوں کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اس جانور سے سواری اور باربرداری کا کام لیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ شوقیہ طور پر بھی گھوڑے پالتے ہیں۔ اپنی زندگی میں جانور مالکان کے بہت کام آتا ہے مگر مرنے کے بعد اب یہ ان کے لیے پریشانی کا باعث بننے لگا ہے۔
پاکستان میں تو مُردہ جانوروں کو جہاں مرضی پھینک دیا جاتا ہے مگر ڈنمارک میں انھیں ٹھکانے لگانے کے لیے باقاعدہ نجی کمپنیاں موجود ہیں۔ گھوڑے کی موت واقع ہوجانے کے بعد مالک کمپنی کو مطلع کرتا ہے جس کے بعد عملہ دیے گئے پتے پر پہنچ کر جانور کی نعش اٹھاکر لے جاتا ہے۔
اس خدمت کے عوض کمپنی چار ہزار کرونا تک وصول کرتی ہے، حالاں کہ وہ مُردہ گھوڑے کو کہیں لے جاکر دفناتے نہیں ہیں بلکہ اس سے بایوڈیزل اور دوسری کئی مصنوعات بنائی جاتی ہیں۔ چار ہزار کرونا ایک بڑی رقم ہے مگر قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں عائد ہونے والا جُرمانہ اس سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے مالکان مُردہ گھوڑے ازخود ٹھکانے لگانے کے بجائے کمپنیوں کے حوالے کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
دوسری صورت یہ ہے کہ مُردہ گھوڑا چڑیا گھروں کو عطیہ کردیا جائے، جہاں انھیں شیر، چیتے اور اسی نوع کے دوسرے گوشت خور درندوں کی خوراک بنایا جاتا ہے۔ نعش عطیہ کرنے پر مالکان سے کوئی فیس نہیں لی جاتی، مگر مشکل یہ ہے کہ چڑیا گھروں کو اتنی زیادہ تعداد میں مُردہ گھوڑے عطیہ کیے جارہے ہیں کہ اب ان کے پاس اتنا گوشت جمع ہوگیا ہے جو درندوں کے لیے کئی ماہ تک کافی ہوگا۔ دارالحکومت کوپن ہیگن کے مرکزی چڑیا گھر کی انتظامیہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ مُردہ گھوڑے عطیہ کرنے کے خواہش مند چھ ماہ کے بعد آئیں، کیوںکہ ان کے پاس شیر اور چیتے کی خوراک کا چھے ماہ کا ذخیرہ موجود ہے۔ اس صورت حال میں مالکان یقیناً گھوڑوں کے نہ مرنے کی دعائیں کرنے لگے ہوں گے!