انکار… انکار… انکار

اسٹیج سیکریٹری کے فرائض محکمے کی ایک باوردی خاتون انسپکٹر نے بہت عمدگی سے ادا کیے۔


Amjad Islam Amjad October 22, 2017
[email protected]

MINGORA: ایک بہت بڑے اور کھلے میدان میں مخصوص جگہ پر ان تمام منشیات کو مختلف طرح کے چھوٹے بڑے پیکٹوں کی شکل میں ڈھیر کرکے رکھا گیا تھا جو محکمہ انسداد منشیات، پاکستان پولیس، رینجرز اور دیگر متعلقہ اداروں نے گزشتہ برس کے دوران مختلف کارروائیوں اور چھاپوں کے ذریعے پکڑی تھیں اور جن کے مجرم نہ صرف مختلف عدالتوں سے سزائیں پاچکے تھے بلکہ یہ رگوں میں اندھیرا پھیلانے والی تقریباً 60 ٹن وزن کی حامل طرح طرح کی منشیات بھی اب سرعام نذر آتش کی جارہی تھیں اور یہ سارا میلہ اسی تقریب کے لیے سجایا گیا تھا۔

ANF یعنی اینٹی نارکوٹکس فورس پنجاب کے ڈائریکٹر بریگیڈیئر خالد محمود سے گزشتہ برس اسی تقریب کے حوالے سے اسی جگہ پر ملاقات ہوئی تو انھوں نے اس مسئلے اور اپنے محکمے کی کارروائیوں اور طریق کار سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس عزم کا اعادہ بھی کیا تھا کہ وہ اپنے نعرے یعنی Say No to Drugs کو تمام متعلقہ اور متاثرہ افراد تک پہنچانے کے لیے اس آگاہی مہم کا دائرہ تعلیمی اداروں تک پھیلانا چاہتے ہیں کہ ان کی اطلاعات اور تحقیق کے مطابق مہنگے تعلیمی اداروں میں مختلف شکلوں میں یہ زہر نہ صرف مہیا کیا جارہا ہے بلکہ نوجوان نسل میں منشیات کا استعمال ایک فیشن اور معمول کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے جو ایک انتہائی خطرناک صورتحال ہے اور اس ضمن میں انھیں والدین اور اساتذہ کے ساتھ ساتھ میڈیا اور اہل دانش کی مدد کی بھی ضرورت ہے کہ اس تصویر کا یہ رخ اس کے موجودہ اور مروجہ نقصانات سے بھی کہیں زیادہ تشویش ناک ہے۔

میں نے اس وقت بھی عرض کیا تھا کہ اس ضمن میں فوری اور سخت کارروائی کی ضرورت ہے اور اس کے لیے قانون سازی اور سپلائی کی روک تھام کے ساتھ ساتھ سب سے پہلے ہر طرح کے اسٹیک ہولڈرز کوایک پلیٹ فارم پر لانے کی ضرورت ہے تا کہ سب مل کر اپنی اپنی ذمے داری کا تعین اور احساس کریں اور یوں اپنی نئی نسل کو اس گڑھے میں گرنے سے بچائیں جو ہر آنے والے دن کے ساتھ مزید گہرا اور چوڑا ہوتا جا رہا ہے۔

یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ پی ٹی وی کے اچھے دنوں میں تین چار دہائیوں کے دوران بہت سے ایسے سیریل، سیریز اور انفرادی ڈرامے پیش کیے گئے ہیں جن میں منشیات سے پیدا شدہ مسائل اور ان کے حل کو بہت عمدہ، مؤثر، دلچسپ اور قابل عمل انداز میں سامنے لایا گیا ہے جس کی نمایاں ترین مثالیں ''دھواں، رگوں میں اندھیرا، اندھیرا اُجالا اور انکار'' ہیں۔ ان میں ترتیب کے اعتبار سے آخری ''انکار'' سیریل ہے جو 2000ء میں پیش کی گئی تھی جس میں میں نے کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر منشیات کے استعمال کو موضوع بنایا تھا مگر اب تو یہ زہر اسکولوں کے بچوں تک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ سو ان ڈراموں کو بار بار دکھاتے رہیئے۔

اے این ایف والوں کی گاڑی نے عین وقت پر مجھے تقریب کے لیے خاص طور پر بنائے گئے پنڈال میں پہنچا دیا جہاں عملے کے افسران مہمانوں کے استقبال کے لیے چوکس اور مستعد کھڑے تھے۔ محکمے کے متعلقہ صوبائی وزیر مہمان خاص تھے۔ معلوم ہوا کہ اصل کارروائی یعنی پکڑی گئی منشیات کو نذر آتش کرنے کے عمل سے پہلے تقریباً ایک گھنٹے کا پروگرام ہے جس میں قومی گیت، منشیات سے متعلق گیت اور ایک تمثیلی خاکے کے علاوہ تین مختصر تقاریر شامل ہیں جب کہ آخر میں انعامی سندوں کی تقسیم اور وزیر صاحب کا خطاب ہوگا۔ اسٹیج سیکریٹری کے فرائض محکمے کی ایک باوردی خاتون انسپکٹر نے بہت عمدگی سے ادا کیے۔

ایک صاحب نے انرجی ڈرنکس کے بڑھتے ہوئے استعمال کی شکل میں اسکول کے بچوں میں پھیلنے والے مضر اثرات کے بارے میں نہ صرف بروشرز تقسیم کیے بلکہ اس طرف بھی توجہ دلائی کہ کس طرح یہ ''رویہ'' نوجوان نسل کو منشیات کی طرف راغب کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ شاعرہ اور کالم نگار محترمہ بشریٰ اعجاز نے بھی اپنی گفتگو میں اس کا ذکر کیا اور ان تمام لوگوں کی کوششوں کو کھل کر سراہا جو افغانستان کی پہاڑیوں سے لے کر اسکولوں کی کینٹینوں تک منشیات کی ترسیل اور فروغ کو ہر سطح پر روکنے کے لیے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

نوجوان مذہبی مفکر اور دانش ور بلال قطب نے معاشرے کے بگاڑ کے اسباب پر بات کرتے ہوئے زیادہ زور والدین اور بچوں کے درمیان کمزور پڑتے ہوئے انسانی اور اخلاقی رشتوں پر دیا اور بہت مؤثر اور برمحل انداز میں یہ بتایا کہ ماڈرن ہونے کے لیے بے حیا ہونا قطعاً ضروری نہیں ہوتا اور یہ کہ جو حدود باہمی تعلقات کے حوالے سے قائم کی گئی ہیں ان کا احترام سب پر واجب اور لازمی ہے کیونکہ یہی وہ تربیت کا عنصر ہے جو بطور انسان ہمارے بچوں کو وہ شعور اور ہمت عطا کرتا ہے کہ وہ DRUGS سمیت ہر غلط بات کے جواب میں NO کہہ سکیں۔

میں نے بھی اپنی گفتگو کے دوران انھی دونوں کی بات کو آگے بڑھایا اور ایک حکایت کے ذریعے اس بات کی وضاحت کی کہ دنیا کو جوڑنے کے لیے سب سے پہلے انسان کو جوڑنا ضروری ہے اور جب انسان مل کر کسی غلط بات نظریے یا تحریص کے جواب میں NO کہتے ہیں تو کسی بھی برائی کو آگے بڑھنے کے لیے رستہ نہیں مل پاتا۔

بریگیڈیئر خالد محمود نے نذر آتش کی جانے والی منشیات کی نوعیت اور مقدار پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ اگر یہ منشیات تلف نہ کی جاتیں تو ان سے کتنے انسانوں کو کس کسی طرح کا نقصان پہنچ سکتا تھا۔ شراب کی ہزاروں بوتلوں کو ایک بلڈوزر نے حاضرین کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان میں موجود شراب کو مٹی میں ملا دیا جس پر طرح طرح کے دلچسپ تبصرے بھی سننے میں آئے۔ مثلاً ایک صاحب سیلفیاں بنانے کے دوران مسلسل جگر مراد آبادی کا ایک شعر بڑے مزاحیہ انداز میں گنگناتے جا رہے تھے۔

اے محتسب نہ پھینک، مرے محتسب نہ پھینک
ظالم شراب ہے، ارے ظالم، شراب ہے

یہ تو طے ہے کہ نشہ کسی بھی چیز کا ہو جب یہ سر کو چڑھ جاتا ہے تو اس کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور یہ تباہی ایسی ہمہ گیر ہوتی ہے کہ فرد سے لے کر گھر اور کسی معاشرے سے لے کر پورے عالم انسانی تک اس کی بازگشت پھیلتی ہی چلی جاتی ہے۔ غالبؔ نے کہا تھا؎

مے سے غرض نشاط ہے کس رُوسیاہ کو
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے

اور پرانے وقتوں میں شاید ان نشوں کا دائرہ بھی فرد کی ذات سے کم کم ہی باہر نکلتا تھا۔ مگر جدید دور کے عاقل، بالغ اور ہوش مند انسان نے اسے ایک انڈسٹری کا درجہ دے دیا ہے۔ سو وہ اپنے معاشرتی فریضے کو صرف اس وارننگ کی حد تک محدود رکھتا ہے کہ یہ نشہ آپ کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے اور اس کے بعد اس منافع کو گننے میں مشغول ہوجاتا ہے جو اس کا کاروبار کی معرفت اس تک پہنچ رہا ہوتا ہے۔ سو ضرورت اس امر کی ہے کہ ''انکار'' صرف کسی نشہ آور چیز ہی کو نہ کیا جائے بلکہ اس سوچ کے راستے میں بھی نو انٹری کا بورڈ لگایا جائے جو اس کی پیدائش اور استعمال کے راستے کھولتی اور بناتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔