نئے احتساب قانون کے تحت کرپشن کا مرتکب رقم واپسی پر رہا نا اہلی برقرار رہے گی

جرم کرنے والاسرکاری ملازمت جاری نہیں رکھ سکے گا،عوامی عہدے کیلیے نااہل، مالی مراعات سے بھی محروم ہونا پڑے گا


رقوم واپسی قبول کرنے کااختیار عدالت کو ہوگا، رقم بمع منافع لے کرایک ماہ میں متعلقہ محکمے،ادارے کوواپس کی جائے گی۔ فوٹو: فائل

نئے مجوزہ قومی احتساب کمیشن ایکٹ 2017 میں قوم یا قومی خزانے سے لوٹی گئی رقم کی رضاکارانہ واپسی کی پیشکش قبول کرنے کا اختیاراحتساب عدالت یا ایپلٹ کورٹ کی اجازت سے مشروط کیا گیا ہے، پہلے یہ اختیار چیئرمین نیب کے پاس تھا۔

ایکسپریس کو دستیاب دستاویزات کے مطابق نیب متعلقہ عدالت کی منظوری سے لوٹی گئی رقم کی رضاکارانہ واپسی کی پیشکش قبول کر سکے گا جبکہ عوامی عہدیدار یا کوئی بھی شخص لوٹی گئی رقم بمعہ منافع جمع کرائے گا جس کے بعد ملزم کیخلاف مقدمہ ختم اور اُسے رہا کردیا جائے گا تاہم کیس ختم ہوجانے کے بعد بھی جرم کرنے والا عوامی عہدیدار، شخص سزا یافتہ ہی کہلائے گا اور عوامی عہدہ رکھنے کیلئے بھی نااہل ہوگا۔

مجوزہ بل کے مندرجات کے مطابق سروس آف پاکستان، خودمختار باڈی، تنظیم ، ادارے،وفاقی و صوبائی حکومت کا جو بھی ملازم بدعنوانی کا مرتکب پایا گیا اسے فوری طور پرملازمت سے ہٹادیا جائے گا اور وہ کسی بھی قسم کی مالی مراعات بھی حاصل نہیں کرسکے گا نہ ہی دوبارہ کوئی عوامی عہدہ رکھنے کا مجاز ہوگا۔نیب وصول کی گئی رقم30دن کے اندر منافع سمیت متعلقہ وفاقی، صوبائی حکومت یا متعلقہ ادارے یا تنظیم ،کمپنی یا متعلقہ شخص کو منتقل کرنے کا پابند ہوگا۔

یاد رہے کہ لوٹی گئی رقم کی رضاکارانہ واپسی کے حوالے سے پہلے سے موجود احتساب قانون کی شق25(a) کیخلاف سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کیس بھی زیر التواہے ۔ نئے مجوزہ ایکٹ میں شق20 لوٹی گئی رقوم کی رضاکارانہ واپسی سے متعلق ہے۔

اٹارنی جنرل کے مطابق حکومت نیب آرڈیننس میں ترمیم لارہی ہے اوروہ ذاتی طور پر پلی بارگین کے قانون کے حق میں ہیں۔ ملک بھر میں تقریباً 1500 پلی بار گین کے کیسز ہیں ،ان کا کہنا تھا کہ چاروں صوبوں میں رضاکارانہ واپسی کے قانون سے فائدہ اٹھانے والوںکی تعداد 1884ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔