غلطیوں کو تسلیم کرنا مفید ثابت ہوتا ہے
ہم خود کو دنیا میں ایک ذمے دار اور قابل بھروسہ ملک کے طور پر نہیں منوا سکتے
حد سے زیادہ قوم پرست سیاستدانوں اور میڈیا کے پنڈتوں کی طرف سے پاناما لیکس کیس کے شور میں اصل معاملے سے توجہ ہٹائی جا رہی ہے۔ میرے نزدیک اصل بات یہ ہے کہ پہلی بارکسی منتخب حکومت نے یہ کہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم یہ معلوم کرنے کے لیے اپنا جائزہ لیں کہ طویل عرصے سے چلی آنے والی ہماری خارجہ اور قومی سلامتی کی پالیسی میں کیا خرابی ہے۔ سادہ سی بات یہ ہے کہ اگر ہماری پالیسی میں کوئی گر بڑ نہیں ہے، جیسا کہ طفیلیے ہمیں باورکرانا چاہتے ہیں، تو پھر ہمارے ہاں خون خرابہ کیوں ہو رہا ہے۔ اب یہ بحث سب کے لیے کھل گئی ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے نیو یارک میں ایشیا سوسائٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بڑی صاف گوئی سے کام لیا۔ میڈیا کے ایک حلقے اور حزب اختلاف کے بعض رہنماؤں کی طرف سے اُن پر اس وجہ سے تنقید کی گئی کہ انھوں نے اس بارے میں اظہار خیال کیا کہ خارجہ پالیسی کے معاملے میں ہمارے ساتھ کیا خرابی ہے۔ انھوں نے بجا طور پر کہا کہ حقانی اور حافظ سعید جیسے لوگ پاکستان پر بوجھ ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حساب کتاب کے کھاتے میں یہ تصحیح طویل عرصے سے واجب الادا چلی آ رہی ہے۔ ہماری سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے ہمیں ہمیشہ یہ نا معقول دلیل دی کہ حقانی، لشکر طیبہ،جیش محمد اور حزب المجاہدین ہمارے اثاثے ہیں جو افغانستان اور بھارت میں ہمارے مفادات آگے بڑھانے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔کھاتوں میں اس غلطی کی تصحیح کے بغیر ہم خود کو دنیا میں ایک ذمے دار اور قابل بھروسہ ملک کے طور پر نہیں منوا سکتے۔
خواجہ آصف نے یہ تسلیم کر کے حوصلہ مندی کا مظاہرہ کیا کہ80ء کی دہائی میں افغانستان میں پاکستان کی مداخلت سنگین غلطی تھی۔ میڈیا کے نام نہاد تجزیہ کار ہمیں یہ یاد دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ نواز شریف اور خواجہ آصف کے والد خواجہ صفدر، ضیا حکومت میں شامل تھے، یہ سچ ہے۔ توگویا اب انھیں جنرل ضیا پر یہ الزام لگانے کا حق حاصل نہیں کہ انھوں نے امریکا کے تعاون سے افغانستان میں شورش کی سرپرستی کر کے غلطی کی تھی۔ پاکستان اسلامی جہاد کے نام پر دنیا بھر سے دہشتگردوں کو یہاں لایا تھا۔
یہ تجزیہ کار اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ لوگ اپنی سوچ تبدیل کرتے ہیں۔ سیاست دانوں پر بھی یہ بات صادق آتی ہے جو ایک ہی سوچ پر نہیں رکے رہتے بلکہ ماضی کی غلطیوں کا احساس کرتے ہوئے تبدیلی کے مرحلے سے گزرتے ہیں۔ میرے جو دوست شام کو ٹاک شوز میں جلوہ افروز ہوتے ہیں ان کو میرا مشورہ ہے کہ وہ قومی اہمیت کے مسائل پر سیاستدانوں کے موقف میں تبدیلیوں کو سمجھنے کے لیے جمہوری ارتقاء کی تاریخ کا مطالعہ کریں، اگر وہ بالغ ہو رہے ہیںتو یہ خوشی کی بات ہے، اگر وہ نہیں سیکھتے، خود کو تبدیل نہیں کرتے اور ان کی افزائش جامد ہو کر رہ گئی ہے تو پھر یہ لمحہ فکریہ ہے۔ خواجہ آصف کے نقاد اُن پر مودی اور اشرف غنی کی زبان بولنے کا الزام لگاتے ہیں۔اس کے برعکس، 80ء کی دہائی میں پاکستان کی اصل غلطی کو قبول کر کے انھوں نے جنوبی ایشیا میں دہشتگردی کے پورے معاملے کو درست تناظر میں پیش کیا۔ چنانچہ جب انھوں نے پاکستان کے بارے میں سخت پالیسیاں اختیار کرنے پر امریکا کو تنقید کا نشانہ بنایا تو وہ ایشیا سوسائٹی کے حاضرین اور وسیع معنوں میں پوری دنیا کو بہتر انداز میں اپنی بات سمجھا سکے۔
اور پھر وہ امریکی انتظامیہ کو واضح طور پر یہ بتا رہے ہیں کہ جہاں تک دہشتگردی کی لعنت کا تعلق ہے تو پاکستان کی موجودہ حکومت کم و بیش اسی صفحے پر ہے جس پر امریکی انتظامیہ ہے۔ شاید اس پیغام نے انھیں پاکستان میں حکومت کے استحکام کے سوال پر امریکی حمایت حاصل کرنے میں مدد دی۔ خواجہ آصف نے کھلے عام یہ موقف اختیار کر کے اپنی حکومت کے لیے اچھی لابی کی اور اب انھیں کسی لابنگ فرم کی ضرورت نہیں، جیسا کہ نواز شریف کے خلاف سوشل میڈیا کی مہم میں الزام لگایا جاتا رہا ہے۔
نواز شریف کی ٹیم کی پالیسیوں میں یہ تبدیلی ہی ایک متنازع فیصلے کے ذریعے انھیں حکومت سے نکال باہر کرنے کی اصل وجہ نظر آتی ہے۔ تاہم اچھی بات یہ ہے کہ نواز شریف اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلے سے اپنے اختلاف کے باوجود وزارت عظمیٰ کے عہدے سے الگ ہو گئے۔ اس طرح انھوں نے پارلیمنٹ کو بچا لیا اور جمہوری نظام کے تسلسل کو یقینی بنا دیا۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاناما لیکس کے مقدمات مسلسل ان پر دباؤ ڈالتے رہیں گے، اس لیے کہ ان مقدمات میں مالی لین دین کے ایسے معاملات ہیں جو بادی النظر میں قانونی حیثیت نہیں رکھتے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ جب بھی سویلین رہنماؤں نے خارجہ پالیسی کو، جو اب تک اسٹیبلشمنٹ کا مقدس اختیار چلا آ رہا ہے، تبدیل کرنے کی کوشش کی،انھیں نکال دیا گیا۔
بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ان کی تمام کوششوں کو سبوتاژکیا گیا۔90ء کی دہائی پر ایک نظر ڈالیے۔
راجیو گاندھی کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے بینظیر بھٹو کی کوششوں، خصوصاً پاکستان کی طرف سے خالصتان تحریک کی حمایت سے ان کے اختلاف رائے کو برداشت نہیں کیا گیا۔
اس کے بعد نواز شریف نے بھارت میں بی جے پی کے وزیر اعظم واجپائی کو دورہ پاکستان کی دعوت دے کر پل تعمیر کرنے کی کوشش کی۔واجپائی نے علی الاعلان کہا کہ بھارت پاکستان کے ساتھ اچھے پڑوسیوں کے تعلقات چاہتا ہے اور وہ برصغیر کی تقسیم کو قبول کر چکا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے اس کوشش کو نقصان پہنچانے کے لیے کارگل کی مہم شروع کر دی۔جب ہم اس جنگ کو ہارنے لگے تو نواز شریف بھاگے بھاگے امریکا گئے اور ان سے مداخلت کرنے اور قیام امن میں مدد کے لیے کہا۔
جب کارگل مہم کے اسی معمار، صدر مشرف نے بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے اور مسئلہ کشمیر کا غیر روایتی طریقے سے حل تلاش کرنے کی کوشش کی تو ان کے اپنے ہی ساتھیوں نے ان کے خلاف سازش شروع کر دی۔
جب صدر زرداری نے افغان صدر حامد کرزئی کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں شامل ہونے کی دعوت دی اور بعض بیانات میں اپنی اس سوچ کا اظہار کیا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کس طرح معمول پر آ سکتے ہیں تو ان کے خلاف کرپشن کے گڑھے مردے باہر نکال لیے گئے اور لشکر طیبہ نے ممبئی میں حملہ کر دیا۔ زرداری حالات کو سمجھتے ہوئے، منتخب حکومت کی مدت پوری کرنے کے مقصد کی خاطر خارجہ پالیسی کے فیصلے کرنے سے پیچھے ہٹ گئے۔
آخر میںوزیر اعظم مودی کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے نوازا شریف کی کوشش کو پٹھان کوٹ اور اُڑی میں دہشتگرد حملوں کے باعث ناکام بنا دیا گیا۔جب سویلین حکومت نے دہشتگرد گروپوں کی سرپرستی پر اپنی نا پسندید گی ظاہرکی اور ڈان لیکس کے ذریعے اسے عام کر دیا تو وہ سیکیورٹی رسک قرار دے دیے گئے اور انھیں سبق سکھانا پڑا۔
جب بھی بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی بات ہوتی ہے یہی سانپ اور سیڑھی کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ان تمام رہنماؤں کو جنھوں نے امن کی خاطر اس سیڑھی پر چڑھنے کی کوشش کی ا نھیں ہمیشہ سانپ نے کاٹ کر نیچے گرا دیا۔
(کالم نگار '' پاکستان خرابی اور اس
کے اثرات'' کا مصنف ہے)