جن پہ تکیہ تھا‘ وہی پتے ہوا دینے لگے

دوسرے سانحے کوئٹہ پر بس اتنا ہی لکھوں گا کہ ’’آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے


Saeed Parvez February 26, 2013

کیا کیا رسوائیاں نہیں ہوئیں، کون سا برا کام ہے جو یہاں نہیں ہوا، سرعام عورتوں کو برہنہ کر کے بازاروں میں گھمایا گیا، ماں باپ، شوہر، بھائیوں کے سامنے انسانیت تار تار کی گئی۔ بہنیں قاتلوں کے قدموں میں اپنے دوپٹے ڈالتے ہوئے بھائیوں کی جان کی بھیک مانگ رہی ہیں اور قاتل موبائل فون پر اپنے ''باس'' سے ہدایات لے رہا ہے اور پھر دکھیا ماں اور بہنوں کے سامنے چار بھائیوں کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔

چلو یہ تو ذرا پرانے قصے ہو گئے، ابھی کوئٹہ میں ہزارہ قبیلے کے ساتھ دو مرتبہ جو ہوا ہے ایک ماہ پہلے مرنے والوں کا چہلم تھا اور عین اسی دن ایک ہزار کلو وزنی ''واٹر بم'' شہر بھر میں گھومتا پھرتا اپنے ٹارگٹ علمدار روڈ پہنچ جاتا ہے۔ رینجرز، پولیس اور خفیہ والوں کو پتہ بھی نہ چلا اور پھر قیامت آ گئی۔ عمارتیں روئی کے گالوں کی طرح اڑنے لگیں، زمین ہلنے لگی، یہ لمحوں کی کہانی ہے۔ پھر جو کچھ ہوا، وہ پورے ملک نے دیکھا۔ زندہ درگور اعزاء اپنوں کے لاشے لے کر سڑک پر بیٹھ گئے اور جو بچے کچھے آنسو رہ گئے تھے بہنے لگے، البتہ نعروں کی بلندی میں اضافہ تھا ''لبیک یا حسین'' کی فلک شگاف صدائیں پورے ملک میں گونج رہی تھیں۔

دوسرے سانحے کوئٹہ پر بس اتنا ہی لکھوں گا کہ ''آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے'' تو میں اسلام آبادیوں سے کہوں گا، ارے ذرا اپنے پڑوس کی ہی خبر لے لیتے، صبح صبح اپنے گیارہ سالہ بچے کو اسکول چھوڑنے کے لیے آنکھوں کا ماہر ڈاکٹر نکلا اور کب کے تاک میں بیٹھے قاتلوں نے دونوں باپ بیٹے کو مار دیا۔ یہ لاہور کے علاقے گلبرگ میں ہوا، جہاں بڑے بڑے سیاست دانوں کے محل اور ماڑیاں ہیں، ہر محل کے باہر ذاتی گارڈوں کے جتھے ہوتے ہیں، مگر قاتل تاک میں بیٹھے رہے، کسی نے توجہ نہیں دی، قاتل مار کر چلے گئے اور کہیں سے ان قاتلوں پر ایک گولی بھی نہ چلائی گئی، حتیٰ کہ وہ باحفاظت اپنے ٹھکانے پر پہنچ گئے اور تاحال آزاد ہیں اور حکمرانوں کی بے بسی پر قہقہے لگا رہے ہیں۔ ان کے حوصلے اور بلند ہو رہے ہیں۔ فوج، رینجرز، پولیس، خفیہ ایجنسیاں سب ناکام، اور قاتل کامیاب۔

ادھر اسلام آباد میں انتہا درجہ بے حسی کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے۔ عوام رسوائیوں کی گہرائیوں میں گرے پڑے ہیں اور ایسے میں نثار صاحب، جو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہوتے ہیں، روٹھے ہوئے ہیں۔ ان کو شکایت حکمرانوں سے نہیں ہے، وہ تو اپنے ہی بنائے گئے الیکشن کمیشن سے ناراض ہو گئے ہیں اور حکومتی ممبران کے ہمنواء بن گئے ہیں۔ ہمارے بڑے معزز الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے ممبران اسمبلی کو ایک ہی مضمون پر مبنی خط لکھا کہ وہ اپنی تعلیمی اسناد ہائر ایجوکیشن سے تصدیق کروا کے جلد از جلد الیکشن کمیشن میں جمع کروا دیں، ضد پر اڑ گئے ہیں، کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے خط کی زبان تضحیک آمیز ہے۔ 'جب تک عزت و احترام' والی زبان میں اسناد نہیں مانگی جائیں گی میں اسناد نہیں دوں گا، چاہے الیکشن کمیشن مجھے نااہل قرار دے۔''

''لو! کرلو گل، کرا لو الیکشن'' یہ ہمارے (پتہ نہیں اب ہمارے رہے ہیں یا نہیں) قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف ہیں جن کے سامنے پورے پانچ سال کی وہ تمام ''بے عزتیاں'' ہیں جو عوام کی، کی گئیں اور یہ اپنی بے عزتی کو لے کر بیٹھ گئے ہیں۔

جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

نثار ناراض ہوئے، تو بزرگ، معاملہ فہم، بردبار الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے ''ملکی نازک حالات'' کے پیش نظر نثار کو فون کیا تا کہ ان کی ناراضگی دور ہو جائے۔ الیکشن کمشنر کے فون کرنے پر حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پارلیمنٹیرنز) کے سینیٹر محترم سعید غنی نے احتجاج کرتے ہوئے الیکشن کمشنر کے نثار کو فون کرنے کو ''پری پول ریگنگ'' قرار دیا ہے ''لوؤ ہُن فیر کر لو گل'' یعنی اب پھر کر لو بات!

افسوس صد افسوس کہ ملک کن حالات سے گزر رہا ہے اور عوام کتنے صدمات سہہ چکے ہیں، شاید ابھی بھی محل سراؤں میں رہنے والے حکمران اور حزب اختلاف کے نزدیک، عوام الناس کے صدمات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اور ''ان کے'' آبگینوں کو کہیں ٹھیس نہ لگ جائے، اس کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔

کیسی دردناک گھڑی ہے کہ حکومتی نمایندہ مرکزی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک اور قائد حزب اختلاف نثار الیکشن کمیشن کے بارے میں ایک ہی زبان بول رہے ہیں ''الیکشن کمیشن کو کس نے حق دیا کہ وہ ممبر پارلیمان کی توہین کریں؟''

آئین کے مطابق عین 19 دن بعد اسمبلیاں توڑ دی جائیں گی اور نگران حکومت قائم ہو جائے گی، اب سے تقریباً ڈھائی ماہ بعد الیکشن ہوں گے، میرے منہ میں خاک، پتہ نہیں اس وقت تک عوام اور کیسے کیسے بے عزت ہوں گے، رسوا ہوں گے، نخشب جارجوس کا ایک مصرعہ ذہن میں آ گیا ہے، چوہدری نثار کی نذر کرتا ہوں:

ہمارا کیا ہے' ہم تڑپیں' مگر تم کو قرار آئے

امید ہے ''دو چار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا'' کے مقام پر بزرگوار فخرالدین جی ابراہیم کے فون پر نثار صاحب کو قرار مل گیا ہو گا۔ بہرحال اس گھڑی دل بہت دکھی ہے، چاروں طرف سے غم بڑھے آ رہے ہیں اور میں سوچ رہا ہوں کہ عوام کتنے مضبوط ہیں جو ہر غم، ہر ستم ہنس کے سہہ جاتے ہیں، جالب پر بھی جو گزرتی رہی، اس نے یوں اپنی کہانی بیان کی ہے:

ہوتا اگر پہاڑ تو لاتا نہ تاب غم
جو رنج اس نگر میں یہ دل ہنس کے سہہ گیا
گزرے ہیں اس دیار میں یوں اپنے روز و شب
خورشید بجھ گیا' کبھی مہتاب گنہہ گیا
مجھ سے خفیف ہیں' مر ے ہم عصر اس لیے
میں داستان عہد ستم کھل کے کہہ گیا

عوام 65 سال سے اسی صورت حال سے گزر رہے ہیں اور ابھی اور دور تک چلنا ہے۔ یہ الیکشن تو محض پڑاؤ ہے، ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں، ابھی اس سورج کے رستے میں بہت سی دیواریں حائل ہیں کہ جس سورج کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچے گی۔ ابھی تو راستے میں صداقت کے مخالفین بہت ملیں گے۔ بہت سے چہروں سے نقاب اتارنے ہوں گے۔ بس عوام! تھکنا نہیں! جدوجہد جاری رکھنا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں