جمہوریت

عوام کے خون پسینے کی کمائی سے کاٹا گیا ٹیکس ’’وفاقی‘‘ اور صوبائی عیاشیوں کی نذر ہو رہا ہے۔



دنیا میں جمہوریت کی کچھ بھی تعریف رائج ہوں، سوشل سائنس دانوں یعنی عالموں، مفکروں نے اس کی جو بھی تعریف مقررکی ہو وطن عزیز جو عزیز معمرکا سا ہوگیا ہے اس میں جمہوریت کی تعریف اپنی پیدا کردہ ہے۔ مثلاً سندھ کا گورنر کسی بل پر اعتراض کرکے اسمبلی کو واپس کرے تو اسمبلی گورنرکا اعتراض مسترد کرکے بل کو منظور کرلے۔ کمال کی جمہوریت ہے۔ بل گورنرکو بھیجا ہی کیوں؟

ایک نشریاتی اسٹیشن کی نشریات دوگھنٹے ہوجائیں تو اخبار کی خبر بنتی ہے اور جو اب بھی خبر ہے کہ جنریٹر خراب ہونے کی وجہ سے ایسا ہوا۔ دوسرے نشریاتی اسٹیشن میں گھنٹوں بجلی نہ ہونے پر نشریات بند رہتی ہیں۔ محض لوگوں کی حاضری کی وجہ سے نام لوگ ہوتے ہیں، ادائیگی ہوتی ہے۔

جنریٹر چلتا ہے تو خاص پروگراموں کے لیے یہاں لسانی معاملات آجائیںگے لہٰذا اس ذکر کو ادھورا چھوڑ دیتے ہیں، کہنے والے کی بات کوئی نہیں سنتا نیت پر شبہ پہلے کیا جاتا ہے تو بات ہم کررہے تھے پاناماکو ایک سیاستدان نے پاجامہ کہا تھا۔ معاملہ کورٹ میں تھا تو شاید وہ کچھ رہ گئے ورنہ اس قافیے سے ملتا جلتا اگلا قافیہ کافی خطرناک ثابت ہوسکتا تھا۔

تو اب جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوںگے پاناما کا کام یا ختم ہوچکا ہوگا یا آگے کھیل چوتھی اننگ کا جاری ہوگا۔ پاکستانی جمہوریت شخصی ہے، ایک آدمی کے لیے ساری قوم لگ جاتی ہے، چڑھانے یا اتارنے پر ترکی برادر ملک ہے پر اس کے حالات بظاہر اچھے ہیں۔ پاکستان ترکی نہیں ہے یہاں ہر چیز کا فقدان ہے۔

یہاں ایک چیز پہلے سے موجود تھی اور ہے جس پر برادر ترکی نے بعد میں عمل کیا وہ ہے ''پکڑ دھکڑ'' لیاقت علی خان کے بعد اس کا عام رواج ہوا غیر منقسم برصغیر میں یہ کام بدیسی حکمران کردیتے تھے یہاں ہم نے خود شروع کیا۔ فیض کی اسیری اور بہت سے لوگوں کی قید و بند تاریخ کا حصہ ہے۔

اگر ہمارے تحریک پاکستان کے قائدین زندہ ہوتے تو انھیں بھی امریکا کے کہنے پر ''دھرلیا جاتا'' جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ حالات کی حقیقت ہے۔

تحریک پاکستان کے مرکزی قائدین بھی کہیں نظر بند ہوتے اگر ایوب خان کے دور میں ہوتے، بے حس حکمرانوں نے محترمہ کے ساتھ کیا کیا، یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ ہم جمہوریت کی تعریف بتائیںگے مگر ابھی بات باقی ہے۔

پاکستان میں ایک حکومت جھوم کر آتی ہے۔ چار پانچ صوبائی اور علاقائی حکومت چار کے علاوہ یوں کہا ہے کہ کچھ علاقوں میں ''کچھ اور طرح کی جمہوریت'' ہے تو ان حکومتوں کے وزیر اور ان کے تحت محکمہ جات عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ پاتے ہیں اور راگ لیڈروں کا الاپتے ہیں جیسے تنخواہیں ان کے گھروں سے آرہی ہیں۔ سیاسی نابالغ ''افتتاح'' کررہے ہیں قد بڑھانے کے لیے عوام کے پیسے سے ہی اخراجات کیے جارہے ہیں۔ ابا نے تو دھیلہ خرچ نہ کیا کبھی۔

بلکہ جیسا کہا جاتا ہے کہ عوام کی رقم سوئٹزر لینڈ لے جاکر اپنے اکاؤنٹ میں جمع کرادی، محل خرید لیے اب تک عوام کا پیسہ واپس کرنے کا سوچا اور ''الحمدﷲ ہمارے ہیں'' نے سارا کام الٹ دیا۔

تو حکومت کوئی ہو کوئی سی بھی ہو، آمریت عرصہ دراز سے چل ہی رہی ہے یا چل رہی تھی ۔

پاکستان کے کسی علاقے کے عوام کو نہ یہ اسٹیٹس حاصل ہے نہ وہ اس کے حق دار ہیں کیونکہ کہیں اور ''جاتی امرا'' نہیں ہے۔ یہ معاملہ یہی نہیں رکتا، کہیں اور لاڑکانہ نہیں ہے، کہیں اور پشاور نہیں ہے، کہیں اور کوئٹہ نہیں ہے۔

اگر ملک کو ایک وسیع جنگل سمجھ لیا جائے تو یہ علاقے شکاریوں کی جنت ہیں، ان میں فطری شکاری الگ ہیں، پتا نہیں اب انھیں ''تلور'' ملے گا یا نہیں، شہزادے نے بے وفائی کردی ہے تو پاکستان کی حکومت یا صوبائی حکومتیں ''شخصی آمریت'' کا شاہ کار ہیں۔

عوام کے خون پسینے کی کمائی سے کاٹا گیا ٹیکس ''وفاقی'' اور صوبائی عیاشیوں کی نذر ہو رہا ہے۔ پاناما نے باہر جانے سے روک دیا تو مری کی شامت آئی قوم کے ساتھ ساتھ پیسہ قوم کا خرچ ہو رہا ہے اور مصیبت مریوں کو پڑگئی ہے۔ مریوں سے مراد مری کے رہنے والے اور عام آنے والے جو اس علاقے میں نہیں جاسکیں گے جو حکمرانوں نے بند کیے ہوںگے۔

کس قدر خوف زدہ حکمران ہیں، عوام کا لیڈر کہتے ہیں خود کو اور عوام سے ڈرتے ہیں۔ روشنی سے ڈرتے ہو۔ کہیں عوام کا ہاتھ نہ لگ جائے لباس پر۔ آخر میں عوام کے ہاتھ لگتے ہیں اور یہ لوگ عوام کے ہاتھ لگتے ہیں قانون قدرت ہے اب تک یہی ہوا ہے دنیا بھر میں۔

امریکا نے در پردہ اسلام کے خلاف مہم چلارکھی ہے، یعنی دنیا میں سب سے بد ترین لوگ مسلمان اور بد ترین ملک مسلم ممالک ہیں اور ایسے لوگ جن کا ہم نے تذکرہ کیا یہ لیڈر کسی قوم کے ہوں ایجنٹ ان کے ہیں اور نہ صرف ان کے بلکہ ان کے حکم کردہ، پسندیدہ ملکوں کے بھی جن کے ایجنٹ جاسوس آرام کرتے ہیں ان ملکوں میں۔ ان کی جمہوریت کی تعریف ہے۔ ''جمہوریت'' واضح رہے کہ دوران ملازمت میں فاؤنڈری کے مالکان سے زیادہ سالانہ ٹیکس دیا کرتا تھا۔ ہوجائے ٹیکس ریٹرن کا مقابلہ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں