کہانی

ہر عمل کی طرح ہر کہانی کے پیچھے بھی نیّت ہوتی ہے۔


لاکھوں کروڑوں کہانیوں کے بیچ ایسے فن کاروں اور اُن کی کہانیوں تک پہنچنا کچھ آسان نہیں۔ فوٹو : فائل

کہتے ہیں، کہانی اپنے لِکھنے والے کو ڈھونڈتی ہے۔ یہ بھی کہتے ہیں، کردار، قلم کار سے اپنے ڈائیلاگ خود ادا کرواتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے، جِس کہانی جِس کردار میں جان ہوتی ہے، وہ بیان ہونے کے بعد لوگوں کو یاد رہ جاتی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے، کوئی کہانی نئی نہیں ہوتی۔ نام، چہرے، مقام بدل جاتے ہیں۔ کہانی وہی رہتی ہے۔

کہنے والے یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ کِسی بھی کہانی کا نہ کوئی آغاز ہوتا ہے نہ کوئی انجام۔ ہر کہانی درمیان سے شروع ہوکر درمیان میں ہی رہ جاتی ہے۔ کبھی کردار اِدھر اُدھر ہوجاتے ہیں۔ کبھی کہانی کہنے والا اپنی کہانی میں گُم ہوجاتا ہے۔ کبھی کہانی روح سے خالی بدن کی طرح ہاتھوں میں جھول جاتی ہے۔ تو کبھی کہانی سُننے کہانی پڑھنے والے کِسی اور کہانی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ اور کبھی کہانی لکھنے والے کہانیاں لِکھتے لِکھتے زماں بیتیاں اور جگ بیتیاں بیان کرنے لگ جاتے ہیں۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کہانی، اپنے کہنے والے کے انتظار میں تمام عُمر گزار دیتی ہے اور اُسے بیان کرنے والا اُس پر نظر ڈالے بِنا برابر سے گزر جاتا ہے اور وہ بِن کہے مُرجھا جاتی ہے۔ مرجاتی ہے۔

کہانی کی کہانی بڑی ہی پُرانی ہے۔ لیکن ہر کہانی نہ کبھی کہی جاسکی اور نہ کبھی کہی جاسکتی ہے۔ کون، کب، کیسے اور کہاں کہانی کی زد میں آتا ہے۔ کِسی کو نہیں پتا۔ کب کِس کی زندگی کہانی میں ڈھلتی ہے۔ کوئی نہیں جانتا۔ کون سی کہانی الف لیلہ اور طلسم ہوش رُبا کی کہانیوں کی طرح ہزاروں سال بعد فِکشن سے Reality میں بدلتی ہے، کوئی نہیں بتاسکتا۔ چنگیز خان اور ہٹلر کے حقیقی کِردار کب حقیقت سے فِکشن کے روپ میں سامنے آتے ہیں، کِسی کے عِلم میں نہیں۔

حقیقت، کہانی کی شکل اختیار کرے یا کہانی، حقیقت کا روپ دھارلے، ہر دوصورتوں میں حقیقت یا کہانی کا Extra Ordinary ہونا ضروری ہوتا ہے۔ حقیقت ہو یا کہانی، جب تک اُس میں کچھ ہٹ کر نہیں ہوگا، کچھ الگ، کچھ منفرد نہیں ہو گا، کچھ ایسا نہیں ہوگا جو عام طور پر ہوتا نہیں۔ اُس وقت تک وہ حقیقت وہ کہانی دِل کے تاروں کو نہیں چھیڑ پائے گی اور حقیقت جو کہانی، دِل کے سوزوساز کو نہیں چھیڑتی، دِل میں گداز نہیں پیدا کرتی۔ وہ دِلوں میں گھر نہیں کرپاتی اور جو بات، جو حقیقت، جو کہانی دِلوں میں گھر نہ کر پائے وہ بہت کم عُمر رکھتی ہے۔

بہت جلدی بُھلادی جاتی ہے۔ بہت ہی کم باتیں ہوتی ہیں۔ بہت ہی کم ایسی حقیقتیں ایسی کہانیاں ہوتی ہیں جو صدیوں تک ذہنوں اور دِلوں کو اپنے سحَر میں گرفتار رکھتی ہیں۔ کہانیاں سچّی ہوں یا فرضی، Facts پر مبنی ہوں یا مکمل Fiction, ۔ انسانوں اور کِرداروں پر مشتمل ہوں یا مُلکوں، قوموں، قبیلوں کے احوال پر۔ وہی کہانی ہمیں یاد رہ پاتی ہے جو ہمیں یا تو کچھ اور دکھا دیتی ہو یا جو ہمارے احساسات، جذبات اور خیالات کو Reflect کرتی ہے اور یا پھر اُس میں وہ سب کچھ ہو جو ہم چا ہتے ہوں، خود کرنا چاہتے ہوں، خود حاصل کرنا چاہتے ہوں یا جو ہم خود نہیں کرسکتے یا جو ہماری سوچ ہمارے خوابوں سے بھی بالاتر ہو۔ کہانی، انہونی اور انوکھی اور نِرالی ہو تو اُس کے یادداشت میں رہ جانے کے امکان بڑھ جاتے ہیں۔ کہانی، روایتی اور ماحولیاتی اور معمولی ہو تو اُسے سن کر، پڑھ کر، دیکھ کر وقتی ردّعمل تو ضرور ہوتا ہے، لیکن کچھ عرصے بعد وہ یادداشت سے فراموش ہوجاتی ہے۔

ہم اگر اپنی زندگی کی کہانی پر نگاہ ڈالیں اور بچپن سے لے کر اب تک کے تمام واقعات کو Recall کرنے کو کوشش کریں تو دس بیس تیس سال کی کہانی دس بیس تیس مِنٹ میں بہ آسانی Sum up ہوجائے گی، لیکن اگر ہماری زندگی میں کچھ اچھوتی، کچھ انوکھی، کچھ اوکھی بات پیش آئی ہوگی تو اُس کی کہانی دوچار گھنٹوں پر محیط ہوگی اور ہمیں اُس اچھوتے، انوکھے واقعے کی جزئیات بھی یاد ہوں گی۔ خواہ وہ بات وہ واقعہ خوش گوار رہا ہو یا دُکھ کا باعث بنا ہو۔

جو بات جتنی عجیب اور مافوق الفطرت ہوتی ہے وہ ذہن کے آنکڑوں میں اٹک جاتی ہے۔ خواہ اُس کا تعلق حقیقی زندگی سے ہو یا اُس کا ذکر کِسی قصّے کہانی میں ہو۔ عجیب و مافوق الفطرت باتیں، حقیقی زندگی میں تو شاذونادر ہی کِسی کِسی کے ساتھ پیش آتی ہیں۔ کہانی کہنے والے، فرضی کہانیوں میں ایسی ایسی باتیں بیان کرجاتے ہیں جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کِسی کہانی میں پڑھی یا سُنی کوئی انوکھی چیز اچانک، خودبخود جیتی جاگتی شکل میں حقیقی زندگی کے کِسی لمحَے پیش آجاتی ہے۔

اُس انوکھی بات کے ہونے کے بعد زندگی کا دھارا پورے کا پورا بدل جاتا ہے۔ مگر چوںکہ انوکھی باتیں، انوکھے لوگوں کے ساتھ ہی پیش آتی ہیں اور انوکھے لوگ کم کم ہوتے ہیں۔ اِس لیے بہت ہی کم ایسا ہوتا ہے کہ زندگی کا دھارا بدلا ہوا دِکھائی دے۔ 99.99 فی صد لوگوں کی زندگی اِسی لیے ایک ہی ڈگر پر گزرتی رہتی ہے۔

کہانی کہنے، کہانی لِکھنے والے اپنے تخیّل کی اڑان سے اپنی فرضی کہانیوں میں جیتے جاگتے کِرداروں کو جب ماورائی اور مافوق الفطرت بنا کر پیش کرتے ہیں تو کہانی سننے، کہانی پڑھنے، کہانی دیکھنے والے اُن کرداروں کے ساتھ خود کو مربوط و منسلک کرڈالتے ہیں اور لاشعوری طور پر اِن کرداروں کے کاموں، کارناموں اور باتوں کو اپنی حقیقی زندگی میں Adopt اور Apply کرنے کی لاحاصل تگ و دو میں لگ جاتے ہیں۔ اعشاریہ 99 فی صد باتیں کِسی نہ کِسی شکل میں عمل میں ڈھل جاتی ہیں۔ باقی کی کسک دِل میں رہ جاتی ہے۔

لیکن فرضی و تخیّلاتی کہانیوں سے Inspire ہوکر اعشاریہ 99 فی صد لوگ اپنی حقیقی زندگی میں ایسے قدم اٹھا بیٹھتے ہیں کہ پھر اُن کی زندگی اُلٹ پُلٹ ہوجاتی ہے جو قسمت کے دھنی ہوتے ہیں اُن کی زندگی U-Turn لے کر منفی سے مثبت Track پر آجاتی ہے اور پھر وہ بِنا رُکے آگے اور آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن ایسے ایڈوینچرز لوگوں کی زیادہ تعداد اپنے تخیّل کو تخلیق میں نہیں ڈھال پاتی۔ اپنے خوابوں کو Materialize نہیں کرپاتی اور اُن کا خوابی قدم اُنہیں زندگی کے Down Hill Course پر ڈال دیتا ہے۔

کہانی پڑھتے، کہانی دیکھتے، کہانی سنتے وقت ہمیں نہیں پتا ہوتا کہ کہانی کی کون سی بات ہمارے ذہن کے کِس خانے میں جاکر بیٹھ جائے گی اور وقت کے ساتھ کِس طرح، کب اور کہاں مکڑی کے جالے کی طرح پھیلتی جائے گی اور ہماری روزمرّہ کی عملی زندگی کے کون کون سے پہلوؤں کو اپنے شکنجے میں کستی جائے گی۔ نہ ہی کہانی کہنے اور کہانی لِکھنے والے کے عِلم میں ہوتا ہے کہ اُس کی کون سی کہانی، اُس کی کون سی بات سے کِس کِس کی زندگی کے دھارے بدلے۔ کون کون آگے اور اوپر کی طرف نکلا۔ اور کون کون سے لوگ اپنی اچھی بھلی زندگی کے دائروں سے نِکل کر نشیب کی طرف گرِتے گئے۔

کہانی کا سفر اوپر کی طرف ہو یا کہانی کا جھکاؤ نیچے کی جانب، کہانی کہنے، کہانی لِکھنے، کہانی سُنانے والے پر بھاری ذمّہ داری ہوتی ہے کہ اُس کی داستان کا بہاؤ قارئین، ناظرین اور سامعین کو کِس طرف لے جائے گا۔ ہر کہانی خیال اور لفظوں کے تانے بانے سے جنم لیتی ہے۔ مثبت، مربوط اور مضبوط خیال کو اگر خوب صورت، بامعنی اور پُراثر لفظوں کا ساتھ مِلتا ہے تو نیم مُردہ کہانی کے سوتے جاگتے کِردار بھی ہمارے لاشعور میں گھر کر جاتے ہیں۔ اور ہر ایسی کہانی کا اثر ہماری زندگی کے سفر کو تھوڑا اور اوپر کردیتا ہے۔ اِس کے برعکس اگر خیال کی بنیاد ہی منفی ہو یا زندگی کے منفی پہلوؤں پر رکھی گئی ہو تو بہترین سے بہترین لفظوں کا چناؤ بھی کہانی کے نشیبی پھیلاؤ کو روک نہیں پاتا۔ اور ایسی کہانی پڑھنے، دیکھنے اور سُننے والے نہ چاہتے ہوئے بھی رفتہ رفتہ نیچے اُترتے چلے جاتے ہیں۔

ہر عمل کی طرح ہر کہانی کے پیچھے بھی نیّت ہوتی ہے۔ خیال سے پہلے ارادہ ہوتا ہے پھر حقیقت سے تخّیل یا تخّیل سے حقیقت تک کے سفر کی کہانی پیدا ہوتی ہے۔ جِس کہانی کی بنیاد میں سچ اور صحیح پیغام ہوتا ہے اور نیّت میں فلاح، اصلاح اور فروغ عِلم و تربیت شخصیت کے عناصر ہوتے ہیں، اُس کہانی میں پڑی جان، بڑی طاقت ہوتی ہے۔ اور جِس کہانی میں بڑی جان، بڑی طاقت ہو، وہ خواہ حقیقی ہو، خواہ فرضی ہو، وہ بڑے زمانے تک زندہ رہتی ہے۔ اور بڑے بڑے لوگوں کو زندگی کی طرف لاتی ہے۔ لوگوں کی زندگیوں کو نیچے سے اوپر کرڈالتی ہے۔ زندگی کے دھاروں کا رُخ منفی سے مثبت سمتوں کی جانب موڑڈالتی ہے۔ بڑی جان، بڑی طاقت والی کہانیاں لِکھنے، کہنے اور سُنانے والوں کی زندگی اور شخصیت میں ایک قدر مشترک ہوتی ہے۔ ایسے تخلیق کار اپنے ساتھ اپنے زمانے کے لوگوں سے ذرا زیادہ بڑے دل والے ہوتے ہیں۔ ذرا زیادہ دیکھنے، ذرا زیادہ سُننے، ذرا زیادہ پڑھنے والے ہوتے ہیں۔ ذرا زیادہ محسوس کرنے والے، ذرا زیادہ سوچنے والے، ذرا زیادہ جاگنے والے ہوتے ہیں۔

اپنے زمانے کے لوگوں سے ذرا زیادہ دینے والے ہوتے ہیں۔ ذرا زیادہ برداشت کرنے والے ہوتے ہیں۔ ذرا زیادہ خون جلانے والے ہوتے ہیں۔ ذرا زیادہ خواب دیکھنے والے ہوتے ہیں۔ ذرا زیادہ خوابوں میں رنگ بھر کے زمانے کے سُپرد کرنے والے ہوتے ہیں۔ اپنے اپنے طریقوں سے ذرا زیادہ محبت اور خدمت کرنے والے ہوتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کو ایسے ایسے خیال، ایسے ایسے کردار، ایسے ایسے لفظ مِلتے چلے جاتے ہیں جو اُن کی کہانیوں میں بڑی جان اور بڑی طاقت پیدا کرتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ اور اُن کی تحریریں اور اُن کے فن پارے کئی زمانوں اور کئی کئی نسلوں کے دِلوں اور ذہنوں کو طاقت اور توانائی دیتے رہتے ہیں۔ راستے دِکھاتے رہتے ہیں۔ راستوں کی رکاوٹوں کی دور کرتے رہتے ہیں۔

لاکھوں کروڑوں کہانیوں کے بیچ ایسے فن کاروں اور اُن کی کہانیوں تک پہنچنا کچھ آسان نہیں۔ بڑا خون جلانا پڑتا ہے۔ بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ بڑی تگ ودو، بڑی چھان پھٹک کرنی پڑتی ہے۔ پھر کہیں جاکر نقل میں سے اصل نکلتا ہے۔ جھوٹ میں سے سچ برآمد ہوتا ہے۔ اندھیروں میں چاند چمکتا ہے۔ دِل دمکتا ہے۔ اور دِل بڑے دِل والوں کا ہی دمک سکتا ہے۔ ہر کہانی ہر ایک کے لیے نہیں ہوتی۔ ہر چاند ہر آنگن میں نہیں اترتا۔ ہر بات ہر کِسی کی سمجھ میں نہیں آتی۔ ہر پرواز ہر پرندے کا نصیب نہیں ہوتی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |