ویلڈن سلمان فاروقی
وفاقی محتسب کےادارے سے عام آدمی کو سستا انصاف مہیّا ہوتا ہے لیکن اِس کے طریقہ کار میں خامیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔
صدرِ پاکستان کے سیکریٹری جنرل اور ممتاز بیوروکریٹ سلمان فاروقی صاحب نے بطور قائم مقام وفاقی محتسب 75000 شکایات میں سے 30000 سے زائد شکایات مختصر ترین مدت میں نمٹا کر اپنے کیریر میں انجام دیے گئے کارناموں میں ایک اور شاندار اور تابناک باب رقم کر دیا ہے ۔ یہ 75000 شکایات کئی برسوں سے وفاقی محتسب کا عہدہ خالی ہونے کے باعث زیرِ التو پڑی تھیں ۔ وفاقی محتسب کا ادارہ سابق صدر جنرل ضیا ء الحق کے دور میں قائم کیا گیا تھا ۔ اِس کا سربراہ عموماً سپریم کورٹ کا کوئی حاضر سروس یا ریٹائرڈ جج ہوتا ہے ۔
اِس ادارے کا مقصد یہ تھا کہ وفاقی حکومت کے کسی بھی ادارے سے اگر کسی بھی شخص کو کوئی شکایت ہو تو وہ اُس ادارے کے خلاف درخواست دے کر انصاف طلب کرسکتا ہے ۔ عموماً وفاقی اداروں کے ملازمین کی اکثریت ہی اِن متاثرین میں شامل ہوا کرتی ہے جنھیں وفاقی محتسب کے توسط سے فوری اور مفت انصاف مل جاتا ہے ۔ اِس ادارے سے انصاف حاصل کرنے کے لیے کسی وکیل کی ضرورت نہیں ہوتی ہے ۔ سادہ کاغذ پر درخواست لکھ کر وفاقی محتسب کے سیکریٹریٹ میں جمع کروائی جاسکتی ہے ۔ ہر شہر میں اِس کے دفاتر موجود ہیں ۔ کسی بھی ادارے کی شکایت پر ڈائریکٹرز یا ایڈوائزر ، اُس وفاقی ادارے کو نوٹس جاری کرتے ہیں اور شکایت کنندہ کو ادارے کے کم سے کم گریڈ اٹھارہ کے افسر کے سامنے بٹھا کر مقدمے کی سماعت کرتے ہیں ۔
ادارے کے افسر اور شکایت کنندہ دونوں کا موقف سُنتے ہیں ۔دونوں فریقوں کو آپس میں ایک دوسرے پر جرح کرنے کی بھی اجازت دی جاتی ہے ۔گویا بغیرکسی وکیل کے متاثرہ فرد اپنا کیس خود لڑ سکتا ہے ۔ دو یا تین سماعت میں عموماً فیصلہ ہوجاتا ہے ۔ فیصلے کے بعد اِس پر وفاقی محتسب کے دستخط اور مہر مثبت ہونے کے بعد قانوناً یہ فیصلہ نافذ ہوجاتا ہے ۔ اور وہ وفاقی ادارہ جس کے خلاف شکائت کی گئی ہو اِس فیصلے پر عمل درآمد کرنے کا اِسی طرح پابندہوتا ہے ، جیسے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمدکرنے کا پابند ہوتا ہے ۔ اِس ادارے سے سائل کو انصاف حاصل کرنے کے لیے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کرنا پڑتا ہے ۔ یہ غریبوں کو انصاف مہیّا کرنے کا ایک بہترین فورم تھا ۔ جو بدقسمتی سے وفاقی محتسب کا تقرر نہ ہونے کے باعث کئی برسوں سے غیر فعال تھا ۔
جس کی وجہ سے شکایات کے ڈھیر لگ چکے تھے ۔ لیکن موجودہ حکومت کو غریبوں کی اِس تکلیف کا خیال ہی نہ آیا ۔ وہ صرف اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے معاملات میں اُلجھی رہی اور سائیلن انصاف کے حصول کے لیے دھکے کھاتے رہے ۔ کیونکہ وفاقی محتسب کے دستخط اور مُہر کے بغیر کسی بھی فیصلے کو قانونی حیثیت حاصل نہیں ہوسکتی تھی ۔ غالباً چار برسوں سے وفاقی محتسب کی کُرسی خالی پڑی تھی ۔ لیکن دیر عائد دُرست عائد ۔ اب سلمان فاروقی صاحب کو صدر صاحب نے قائم مقام وفاقی محتسب کی اضافی ذمے داری تفویض کر کے ایک ایسا کام کیا ہے ، جس کی تحسین نہ کرنا صدر صاحب کے ساتھ یقیناً زیادتی ہوگی ۔ صدر زرداری کے اِس اقدام سے ہزاروں غریبوں کو اب ریلیف ملنے کا امکان پیدا ہوگیا ہے ۔
صدر صاحب کو یہ کام گو کہ بہت پہلے ہی کرلینا چاہیے تھا ، لیکن اب فاروقی صاحب کا بطور قائم مقام وفاقی محتسب کے طور پر تقرر کر کے اُنہوں نے اپنی پچھلی کوتاہی کا کافی حد تک ازالہ کردیا ہے ۔کیونکہ فاروقی صاحب کی کام کرنے کی اسپرٹ اور رفتارضرب المثل ہے ۔ مجھے اُمید ہے کہ وہ زیرِالتوا کیسز کو جلد سے جلد نمٹا کر غریب شکایت کنندہ گان کو فوری انصاف دلوائیں گے ۔ اِن کے کام کی رفتار کا اندازہ اِسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 75000 شکایات میں سے 30000 سے زائد شکایات اُنہوں نے مختصر ترین عرصے میں نمٹا دی ہیں ۔ اور اِس ادارے میں اصلاحات کرنے کا بیڑا بھی اُنہوں نے بڑی خوش اسلوبی سے اُٹھایا ہے ۔ اب اُن کا کہنا ہے کہ شکایت کنندہ کو سیکریٹریٹ میں آکر دھکے کھانے کی ضرورت نہیں ہے ، بلکہ یہ شکایات آئن لائن یعنی گھر بیٹھے بھی درج کروائی جاسکتی ہیں ۔
وفاقی محتسب کے ادارے سے عام آدمی کو اگرچہ سستا انصاف مہیّا ہوجاتا ہے ۔ لیکن اِس کے طریقہ کار میں کچھ ایسا خامیاں بھی موجود ہیں جن پر توجہ دیکر اُنہیں دور کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ اِس سلسلے میں قانون سازی بھی کرنا پڑے اِس ادارے کو قانون سازی کر کے یا قانون میں ترمیم کر کے مکمل بااختیار بنا دیا جائے تو اِس عمل سے جہاں متاثرین کو فائدہ حاصل ہوگا ، وہاں لیبر کورٹس سروس ٹریبونل اور اعلیٰ عدالتوں پر مقدموں کا بوجھ بھی کافی حد تک کم ہوسکتا ہے ۔ مثلاً وفاقی محتسب ، جب اپنا فیصلہ دے دیتا ہے تو جس فریق کے خلاف فیصلہ ہو ، اُسے 30 دن کی مُدت میں صدرِ پاکستان سے اپیل کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے ۔ اب ہوتا یہ ہے کہ وفاقی محتسب جس وفاقی ادارے کے خلاف فیصلہ دیتا ہے، وہ ادارہ اپنے لاء آفس کے ذریعے 30 دِن کے اندر اندر ، صدر پاکستان کے پاس اِس فیصلے کے خلاف اپیل داخل کردیتا ہے ۔ اِس اپیل کے فیصلے کی کوئی مدّت مقرر نہیں ہے ۔ ایوانِ صدر میں یہ اپیل برسوں پڑی رہتی ہے اور صدر کے پاس اِن اپیلوں کو دیکھنے کی عموماً فرصت ہی نہیں ہوتی ہے ۔
لہذا غریب سائل فیصلہ اپنے حق میں ہونے کے باوجود انصاف سے محروم ہی رہ جاتا ہے اور ایوانِ صدر تک اُسکی رسائی ناممکن ہوتی ہے ۔ سوائے صدرِ پاکستان کے وفاقی محتسب کے فیصلوں کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ اِسی طرح شکایت کنندہ کے خلاف فیصلہ آنے کی صورت میں ، شکایت کنندہ بھی اپیل کے لیے ایوانِ صدر کا رخ کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور منتظر رہتا ہے کہ کب ایوانِ صدر کا عملہ اُس کے کیس کی فائل سے گرد جھاڑتا ہے ؟ فاروقی صاحب سے گذارش ہے کہ اداروں کے خلاف فیصلہ آنے کی صورت میں وفاقی محتسب کا فیصلہ حتمی قرار دیا جائے اور اِس پر ادارے کو فوری عمل درآمد کرنے کا پابند بنایا جائے ۔ یا پھر صدر سے اپیل کرنے کی صورت میں ایک ماہ کی مدّت مقرر کردی جائے ۔ ایک ماہ کے اندر، اگر ایوانِ صدر سے اپیل کی منظوری یا نا منظوری موصول نہ ہو تو یہ فیصلہ خود بخود حتمی تصور کیا جائے ۔ دوسرا سقم یہ ہے کہ متعلقہ ادارے کے خلاف فیصلہ آنے کی صورت میں ادارے کے افسران بجائے اِس فیصلے پر عمل درآمد کرنے کے اِسے ردّی کی ٹوکری کی نذر کردیتے ہیں اور سائل بدستور دھکے کھاتا پھرتا ہے ۔
پھر سائل کو وفاقی محتسب کے پاس ایک دوسری درخواست دائر کرنا پڑتی ہے کہ آپکے فیصلے پر وفاقی ادارہ عمل درآمد نہیں کر رہاہے ۔ فاروقی صاحب اِس سلسلے میں ادارے کا ریکارڈ دیکھ سکتے ہیں اِس کے لیے ضروری ہے کہ وفاقی محتسب کو اِس سلسلے میں وہی اختیارات دیے جائیں جو کہ اعلیٰ عدالتوں کے ججز کو حاصل ہوتے ہیں ۔ جو ادارہ بھی وفاقی محتسب کے فیصلے پر فوری عمل درآمد نہ کرے ، اُس ادارے کے سربراہ پر توہینِ عدالت کے قانون کے تحت کارروائی کی جائے اور توہینِ عدالت کا نوٹس دیکر ادارے کے سربراہ کو وفاقی محتسب اپنے سیکریٹریٹ میں طلب کرسکے اور مطمئن نہ ہونے کی صورت میں اُسے سزا بھی دے سکے ۔ اگر فاروقی صاحب نے یہ دو کام کردیے تو اُنہیں غریب سائلین کی اتنی دُعائیں ملیں گی کہ شاید وہی اُن کے لیے آخرت میں سب سے بڑا اثاثہ ثابت ہوں ۔