اتحاد کو آگ کی نذر نہ ہونے دیں
کیا ہم نہیں جانتے جب آگ لگتی ہے تو سب کچھ جل جاتا ہے۔ آئیں! عہد کریں، اس اتحاد کو آگ کی نذر نہ ہونے دیں۔
لگا کر آگ شہر کو یہ بادشاہ نے کہا
اٹھا ہے دل میں تماشے کا آج شوق بہت
جھکا کے سر کو سبھی شاہ پرست بول اٹھے
حضور شوق سلامت رہے شہر اور بہت
مندرجہ بالا قطعہ کا تعلق تاریخ کے نیرو اور اس کی بانسری سے معلوم ہوتا ہے لیکن کسی دل جلے نے راقم کو یہ قطعہ گزشتہ سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے ایس ایم ایس کردیا ہے۔ اس قطعے کا تعلق ملکی صورت حال سے ہو یا نہ ہو البتہ یہ بات ضرور ہم سب جانتے ہیں کہ آگ کسی ایک شہر میں نہیں پورے ہی ملک میں لگی ہوئی ہے فرق صرف وقفے کا ہے، کبھی کوئی شہر تو کبھی کوئی شہر جلتا ہے۔کہتے ہیں کہ کسی شہر میں ایک امیر نے اپنے محل کے قریب واقع ایک جھونپڑی کو سازش کرکے نذرآتش کردیا کہ جھونپڑی جل کر ختم ہوجائے تو اس کے محل کی رونق مزید بڑھ جائے، مگر جھونپڑی کو لگی آگ سے اک چنگاری محل کی جانب اٹھی اور سارا محل بھی جل کر خاکستر ہوگیا۔ کسی کو نہیں معلوم کہ یہ آگ جو لگی ہے کل کس کس کو جلاکر بھسم کرسکتی ہے۔ بڑے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کو اگر اس حقیقت کا اندازہ ہوجائے تو یقیناً ان مسائل سے نجات مل سکتی ہے۔
ابھی تک پاکستانی قوم نے اپنے شعور کا بہتر مظاہرہ کرتے ہوئے ان سانحات کے باوجود فرقہ وارانہ جنگ سے گریز کیا ہے کیونکہ انھیں احساس ہے کہ یہ سب کچھ ملکی سطح کی نہیں بلکہ عالمی سطح پر کی گئی کوئی منصوبہ بندی ہے جس کا مقصد اس ملک و قوم کو مزید منتشر و تباہ کرنا ہے۔ عالمی حالات و واقعات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام دشمن قوتیں یہ خواہش رکھتی ہیں کہ کسی طرح مسلم ممالک میں فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دے کر حالات کو قابو سے باہر کردیا جائے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عالم اسلام کو متحد و مضبوط ہونے سے روکنے کے لیے عالمی سطح پر ایک طویل عرصے سے کوششیں جاری ہیں۔
اس سلسلے میں ذوالفقار علی بھٹو اور شاہ فیصل سمیت ماضی کے دیگر مسلم سربراہوں کی متحد ہونے کی کوششوں کی مثالیں بھی دی جاتی ہیں۔ معاشی سطح پر بھی مسلم ممالک مسلم قوم کو بین الاقوامی سطح پر ہر طریقے سے نقصان پہنچانے کی کوششیں کی گئیں۔ ان کوششوں کے واضح ثبوت بھی سامنے آئے اور حالات نے بھی گواہی دی کہ ایسا ہی ہے۔ ایسی ہی ایک گواہی کے طور پر ہمارے ایک دیرینہ ساتھی نے ہمیں حال ہی میں ایک کتاب ''اقتصادی غارت گری'' لاکر دی جوکہ جان کنز کی تحریر کردہ کتاب کا ترجمہ ہے۔ ناشر اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی کے تحت مترجم صفوت علی قدوائی نے جنوری 2008 میں شایع کی۔ مصنف نے اس کتاب میں EHM (یعنی اکنامک ہٹ مین) کا ذکر کیا ہے۔
جان کنز جو خود اس کا ایک کردار ہے اور اپنے عمل سے تائب ہوکر اس نے اپنی مذکورہ کتاب میں EHM کے کردار کو نہ صرف تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ تفصیل سے ذکر کیا کہ کن کن ممالک میں وہ اور اس کے ساتھی معاشی تباہی میں شریک تھے۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ EHM خطیر معاوضے پر خدمات انجام دینے والے وہ پیشہ ور افراد ہیں جن کاکام دنیا بھر میں ملکوں کو دھوکا دے کر کھربوں ڈالر سے محروم کرنا ہے۔ یہ لوگ عالمی بینک ، امریکا کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے یو ایس ایڈ اور دیگر غیرملکی ''امدادی'' اداروں سے ملنے والی رقوم بڑی بڑی کارپوریشنوں کے خزانے اور قدرتی وسائل پر قابض چند دولت مند خاندانوں کی جیبوں میں منتقل کردیتے ہیں۔ جعلی مالیاتی رپورٹوں کی تیاری، انتخابی دھاندلیاں، رشوت، استحصال، جنسی ترغیب اور قتل ان کے اصل ہتھیار ہیں۔
وہ مزید یہ بھی لکھتا ہے کہ گلوبل ایمپائر کے مقاصد کو فروغ دینے کی خاطر کارپوریشنیں، بینکس اور حکومتیں اپنے مالی وسائل اور سیاسی طاقت اس امر کو یقینی بنانے کے لیے بروئے کار لاتی ہیں کہ ہمارے اسکول، کاروباری ادارے اور ذرایع ابلاغ ہمارے اس پرفریب نظریے اور اس کے منطقی نتیجے کی حمایت کریں۔جان کنز نے اپنی اس کتاب میں یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ ایکواڈور کے صدر جیمی رولڈوس اور پناما کے صدر عمر طوری کی موت حادثاتی نہیں بلکہ قتل تھا کیونکہ وہ ان کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ اسی طرح مصنف نے سعودی عرب میں بھی کارروائیوں اور اپنے منصوبے کی تفصیل کتاب میں بیان کی ہے۔مذکورہ بالاحقائق کا یہاں تذکرہ کرنے کا مقصد اس جانب اشارہ کرنا تھا کہ جب معاشی لحاظ سے مختلف ممالک اور قوموں کی تقدیر سے یوں کھلا جارہا ہے اور ان کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے نت نئے طریقے اپنائے جارہے ہیں تو بھلا اسلامی ممالک کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں سازشیں جاری ہوں گی اور یہ سازشیں مسلک اور فرقہ وارانہ سطح پر عوام کو تقسیم کرکے بخوبی کامیابی سے ہمکنار کی جاسکتی ہیں۔
یہ بات صرف عوام کو نہیں، ایوانوں میں بیٹھے اور باہر موجود ہر شخص کو سمجھنی چاہیے کہ بیرونی قوتیں ہر قیمت پر مسلکی اور فرقہ وارانہ فساد چاہتی ہیں کیونکہ انھیں یقین ہے کہ اس تقسیم سے صرف پاکستان ہی نہیں، مشرق وسطیٰ تک مذموم عزائم کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم سب یہ بات سمجھتے ہیں تو پھر سوچنا چاہیے کہ اس آگ کو ہوا دے کر ہم ملک و اسلام دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔ چنانچہ اگر اپنے دشمنوں کو شکست دینا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں وہ عمل کرنا چاہیے کہ جس میں دشمن کے عزائم ناکام ہوں اور ملک میں مذہبی ہم آہنگی کی فضا قائم اور مضبوط ہو۔
کچھ عرصہ قبل ایک اسپورٹس ٹی وی چینل کے صحافی و میزبان نے جامعہ کراچی میں طلباء سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کرکٹ واحد چیز ہے جس سے پورے ملک کے عوام متحد ہوجاتے ہیں اور بعض قومیں کرکٹ کو تباہ کرنا چاہتی ہیں تاکہ اس ملک کے عوام کا اتحاد ٹوٹ جائے، سوال یہ ہے کہ جب ایک اسپورٹس چینل کا صحافی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ مخالفین عوام کے اتحاد کو توڑنا چاہتے ہیں تو ہمارے ذمے داران جو اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے ہیں وہ بھلا کیوں نہیں سمجھتے؟ وہ عوام کے اس اتحاد کو آگ میں جلتا کیوں دیکھنا چاہتے ہیں؟ کیا ہم نہیں جانتے جب آگ لگتی ہے تو سب کچھ جل جاتا ہے۔ آئیں! عہد کریں، اس اتحاد کو آگ کی نذر نہ ہونے دیں، میں آپ اور ہم سب۔