اچھی خواہشات
اسپتالوں میں ڈاکٹرآجائیں تو ادویات نہیں ہوتیں، سرکاری نوکریاں پیسوں پر بک جاتی ہیں
کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا کہ ہزاروں خواہشیں ایسی ہر خواہش پر دم نکلے، بہت نکلے میرے ارماں مگر پھر بھی کم نکلے۔ میری بھی ایک خواہش تھی کہ میں غریب، نادار، مفلس، بیمار اور پسماندہ لوگوں کی خدمت کروں اور یہ جذبہ مجھ میں شدت اختیار جب کرنے لگا جس وقت میں نے بھٹو کو لوگوں کی خدمت کرتے دیکھا۔ ویسے تو میٹرک کے بعد میں ایک غیر سنجیدہ لڑکا تھا جسے فلمیں دیکھنے اور شہر گھومنے کا بڑا شوق تھا اور 1973 میں نوکری ملنے کے بعد بھی میں اس شوق سے دستبردار نہیں ہوا۔ میری زندگی میں اچانک ایک تبدیلی اس وقت رونما ہوئی جب بھٹو کو شہید کیا گیا۔
میری زندگی کا رخ اب پڑھائی، علم و ادب، صحافت اور سوشل کاموں کی طرف مڑ گیا۔ میں جس خواہش کو کئی برسوں سے اپنے دل میں پالتا آیا کہ اب وقت ہے میں اپنے لوگوں کی بھلائی اور خوشحالی کے لیے اپنا کردار ادا کروں، مگر میں یہ نہیں جانتا تھا کہ سیاست یا پھر سماجی کام ہمارے جیسے افراد کے لیے نہیں ہے، یہ سب امیروں کے لیے مخصوص ہیں۔ کسی زمانے میں پڑھتے تھے کہ ''بغیر دولت اور آدمیوں کی فوج کے بادشاہ بننا مشکل ہے''۔ یہ اس وقت ثابت ہوا جب میں کسی پارٹی میں سیاست میں شامل ہونا چاہوں، کسی سوشل این جی اوز میں جانا چاہوں، کسی سے ملنے جانا ہو، سب یہی کہتے تھے بھائی! تمہاری بات کو کون سنے گا، تمہارے پاس کیا ہے جو لوگوں تک پہنچے گا۔ اور پھر یہ سودا سچائی کا نہیں حرفت اور سبز باغ دکھانے کا ہے اور وہ فن بھی تمہارے پاس نہیں ہے۔ اگر لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کو کہتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ اس میں ہمیں کیا فائدہ ہوگا اور کتنی جلدی ہوگا۔
علمی، ادبی اور صحافتی خدمات انجام دینے کے لیے کچھ لکھ ڈالا، جسے کتابی شکل دینے کے لیے دوست اصرار کرنے لگے، مگر اس کے لیے جہاں بھی اشاعتی اداروں کے پاس گئے انھوں نے کہا کہ بھائی رقم لے آؤ پھر چھاپیں گے۔ سرکاری ادارے والوں نے کہا کہ ہم لوگ صرف بھٹائی، شیخ ایاز اور دوسری بڑی بڑی شخصیات پر کتابیں چھاپتے ہیں۔ میں نے انھیں جب کہا کہ سندھ کے اندر صرف یہ دو موضوع ہیں اور باقی کچھ بھی نہیں ہے۔ اب ہم کچھ کہنے سے قاصر ہیں اس لیے کہ ہماری بات اس کہاوت کی طرح ہے کہ ''نقار خانے میں طوطے کی آواز'' یا پھر انگریزی میں کہتے ہیں کہ "A Cry in the wilderness"
بچپن میں کئی شاگرد یہ کہتے تھے کہ وہ ڈاکٹر بنیں گے اور مفت غریب لوگوں کی خدمت کریں گے۔ ان میں سے کئی ڈاکٹر بنے، ان کی خواہش پوری ہوگئی مگر وہ اپنے وعدے سے پھر گئے۔ وہ کمیشن پاس کرنے کے بعد سب کے سب چاہتے ہیں کہ انھیں بڑے شہروں میں پوسٹنگ ملے تاکہ وہ وہاں پر اپنا ذاتی کلینک کھولیں اور پیسے کمائیں، کیونکہ گاؤں میں تو کوئی بڑا آدمی ہے ہی نہیں جہاں سے انھیں کمائی ہو۔ میں نے کئی ایسے بچوں کو دیکھا جو بڑی غربت میں وقت گزارتے تھے اور جب بڑے ہوئے تو انھوں نے کہا کہ وہ مختیار کار، ڈی سی، ایس ایس پی بنیں گے اور پھر عام آدمی سے ہونے والی زیادتیاں ختم کریں گے۔ ان کی خواہش پوری ہوئی اور وہ ان مرتبوں پر فائز ہوگئے، مگر انھوں نے جو کچھ کہا وہ نہیں کرسکے اور کرپشن اور رشوت کے سحر میں گم ہوگئے، جس میں ان کے وعدے کھو گئے اور دولت کمانے میں مصروف ہوگئے، جس کی وجہ سے وہی ناانصافی اور زیادتی اپنی رفتار سے بھی زیادہ چلتی رہی۔
میری خواہش تھی اور ہے کہ میں کچھ کرسکوں، جس سے سندھ اور اس میں رہنے والوں کے مسائل حل ہوسکیں، جس کے لیے اقتدار ہو، جو ہم جیسے لوگوں سے لاکھوں میل دور ہے، کیونکہ ایک تو ہماری سچائی، ایمانداری اور غریب عوام سے محبت سب سے بڑی دیوار ہے، ان لوگوں کے لیے جو اقتدار پر قابض ہیں۔ اقتدار ان لوگوں کے لیے ہے جن کے پاس دولت کی ریل پیل ہو، بڑی اوطاقیں ہوں، پجیرو جیسی گاڑی ہو، کلاشن کے ساتھ گارڈز ہوں، روزانہ خرچ کرنے کے لیے لاکھوں روپے ہوں، جو بڑی بڑی دعوتیں کرسکتا ہو۔ ایم این اے، ایم پی اے اور سینیٹر وہ بنتے ہیں جو سیاسی پارٹی سے منسلک ہوں اور ٹکٹ لینے کے لیے لاکھوں روپے پارٹی فنڈ میں دے سکتے ہوں۔
اس وقت بھی آپ دیکھیں نواز شریف کہاں سے کہاں پہنچے، صرف جنرل ضیا الحق کے پروگرام میں فنڈ دینے سے۔ عمران خان کے پاس اگر اتنی دولت نہیں ہوتی تو وہ اتنے بڑے بڑے جلسے، دھرنے اور جلوس کہاں سے نکالتا۔ یہ سب کھیل پیسے کا ہے، جذبے اور محبت کا نہیں۔ کبھی کسی نے یہ سوچا ہے کہ اربوں روپے جلسوں، جلوسوں اور دھرنوں پر خرچ ہوتے ہیں جو ضایع ہوتے ہیں، کیا یہ رقم ان غریبوں کے لیے خرچ نہیں ہوسکتی تھی جنھیں تین وقت کا کھانا نہیں ملتا، جن کے بچے تعلیم سے محروم ہیں، جو علاج و معالجے کے لیے اسپتالوں کے دھکے کھاتے ہیں، جن غریبوں کے بچے دودھ کا ایک گلاس نہیں پی سکتے، پاؤں میں چپل نہیں ہے اور تپتی دھوپ میں ان کے پاؤں میں چھالے پڑ جاتے ہیں۔ بچوں کو اگر قمیض ہے تو شلوار نہیں ہے۔ اگر مر جاتے ہیں تو قبرستان میں انھیں جگہ نہیں ملتی، قبرستانوں میں بڑے لوگوں نے پہلے سے ہی اپنے بڑے مزار بنا رکھے ہیں۔ کفن کے لیے کپڑا مہنگا ہے، قبر کے لیے پیسے دیے جاتے ہیں، بیمار ہونے کی صورت میں بچے اپنے والدین کو اسپتالوں کے باہر پھینک آتے ہیں۔
اگر اور کچھ نہیں ہوتا تو انھیں ایدھی مرکز میں جمع کردیتے ہیں اور مرنے پر بھی ان کی لاش نہیں لاتے کیونکہ ان کے پاس کفن دفن کے لیے رقم نہیں ہوتی۔ سرکاری اسکول اتنے نہیں ہیں جہاں غریب کے بچے مفت تعلیم حاصل کرسکیں۔ اسپتالوں سے ڈاکٹر غائب ہوتے ہیں، اگر وہ آجائیں تو ادویات نہیں ہوتیں، سرکاری نوکریاں پیسوں پر بک جاتی ہیں، غریبوں کے بچے قرض لے کر ڈگریاں ہاتھوں میں لیے منتخب نمایندوں کے پیچھے پاگلوں کی طرح بھاگتے بھاگتے نوکری کی عمر کی حد پار کرجاتے ہیں اور پھر گھر والوں کے طعنے سن کر مجرم یا پھر نشے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ ہر سال بجٹ پاس ہوتا ہے کہ عوام کو تعلیم، صحت، صاف پینے کا پانی، ٹرانسپورٹ کی سہولت، نوکریاں ملیں گی، لیکن یہ امیدیں کبھی پوری نہیں ہوتیں۔
صبح روزانہ جب میں گھر سے نکل کر اپنے کام کی طرف جاتا ہوں تو مجھے کوئی بھی ایسی جگہ نظر نہیں آتی جسے دیکھ کر میرا دل خوش ہو۔ ٹریفک کا نظام خراب ہے، راستے میں گندا پانی، کچرا پڑا ہوا ہے، جسے جہاں دل کرتا ہے راستہ بند کرکے کھڑا ہوجاتا ہے۔ سندھ میں کئی ایسی کمیٹیاں ہیں جو صوبہ اور اس کے لوگوں کی بھلائی اور ترقی میں اہم رول ادا کرسکتی ہیں، ان میں باشعور پڑھے لکھے اور خدمت کا جذبہ رکھنے والوں کو لائیں۔ میری اب یہ خواہش ہے کہ سندھ میں جو مسائل ہیں ان کا حل نکل سکے اور کوئی ایک مرد مجاہد نکل آئے اور کئی سال سے منجمد کاموں کو تحرک میں لائے جس سے ناصرف سندھ بلکہ ہمارا پورا ملک خوشحال اور ترقی کی راہ پر مزید بڑھے گا، کیونکہ سندھ پاکستان کا اہم صوبہ ہے جس میں اللہ نے سمندر سمیت کئی خزانے بخشے ہیں جنھیں ہمیں بچانا ہے اور اس میں موجود خزانے کو صحیح استعمال کرکے ملک اور صوبے سے غربت، بھوک، افلاس، بیماری اور مایوسی کو ختم کرنا ہے۔