سیاسی جماعتوں میں جمہوری کلچر
الیکشن کمیشن کے اس اعلان کے بعد ملک میں ایک مرتبہ پھر اس موضوع پر بحث و مباحثے کا آغاز ہو گیا ہے
گزشتہ دنوں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعلان کے مطابق ملک کی کئی قومی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے جماعتی منشور اور قواعد و ضوابط پر عمل درآمد نہ کرتے ہوئے ابھی تک اپنی جماعتوں میں انتخابات نہیں کرائے ہیں لہٰذا فیصلے کے مطابق ایسی تمام سیاسی جماعتیں جنھوں نے اپنی جماعت میں انتخابات نہیں کروائے ہیں انھیں ان قومی انتخابات میں حصہ نہیں لینے دیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن کے اس اعلان کا سب سے زیادہ خیر مقدم ان عناصر نے کیا ہے جو خود غیر جمہوری طرز عمل کے حامی ہیں۔ لیکن سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کے نفاذ کا ہمیشہ مطالبہ کرتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہوتا ہے کہ جو سیاسی جماعت اپنے اندر جمہوریت قائم نہیں کر سکتی وہ ملک میں کس طرح جمہوریت قائم کر سکے گی؟
الیکشن کمیشن کے اس اعلان کے بعد ملک میں ایک مرتبہ پھر اس موضوع پر بحث و مباحثے کا آغاز ہو گیا ہے کہ آخر سیاسی جماعتوں کے انتخابات کا ملک میں جمہوریت، پارلیمانی نظام اور خود سیاسی جماعتوں کے مستقبل سے کیا تعلق ہے؟ مزید یہ کہ وہ کیا وجوہ تھیں جن کے باعث پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے اندر سیاسی کلچر فروغ نہیں پا سکا ؟
یہاں اس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سیاسی جماعتیں قوم کو یکجا و متحد رکھ کر ان میں پیدا ہونے والے ہر قسم کے احساس محرومی کا ازالہ کرتی ہیں اور کسی بھی کثیر النسلی و کثیر المسلکی معاشرے میں تضادات کے خاتمے اور ہم آہنگی کے قیام کا باعث بنتی ہیں۔ آج کی جدید اور ترقی یافتہ دنیا میں سیاسی جماعتیں ہی ملک کے منتشر عوام کو ایک قوم میں تبدیل کرنے کا اہم فریضہ سر انجام دیتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے متحرک اور فعال کارکنان دراصل ملک کا اہم اور قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں جن کی جدوجہد کی بدولت ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہوتا ہے اور وہ معاشی و صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ دفاعی اعتبار سے ناقابل تسخیر ہو جاتا ہے۔ جن معاشروں میں مستحکم سیاسی جماعتیں موجود نہیں ہوتیں وہاں پیدا ہونے والا کسی بھی نوعیت کا بحران ریاست کی تقسیم پر منتج ہوتا ہے، جیسا کہ سرد جنگ کے بعد سوویت یونین میں ہوا کہ جہاں پیدا ہونے والے سیاسی اور معاشی بحران کی وجہ سے سوویت ریاست بھی 15 آزاد ریاستوں میں تقسیم ہو گئی۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنی جماعت کے کارکنان کی سیاسی تربیت کن حالات میں اور کیونکر کر سکتے تھے کیونکہ ملک میں تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد یا تو مارشل لاء لگا دیا جاتا تھا یا پھر ملک میں نافذ پورے جمہوری نظام کو نااہل، کرپٹ اور ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے کر لپیٹ دیا جاتا تھا۔ اس عمل کے ذریعے صرف آئین اور جمہوریت کو ہی قتل نہیں کیا جاتا تھا بلکہ سیاسی جماعتوں کا بھی قتل عام کیا جاتا تھا۔ ملک کے آئین کو منسوخ یا معطل کیے جانے والے شرمناک عمل پر ہمیشہ فخریہ انداز اختیار کرتے ہوئے اپنے غیر آئینی اقدام کو ملک کی خدمت، بقا اور سلامتی جیسے جذباتی لیکن گمراہ کن نعروں کے ذریعے عوام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش بھی کی جاتی تھی۔
ان حالات میں آخر پاکستان میں سیاسی جماعتیں ترقی یافتہ جمہوری ممالک کی سیاسی جماعتوں کی طرح کیسے ہو سکتی تھیں اور یہ کہ ہماری سیاسی جماعتوں کے اندر سیاسی کلچر کس طرح فروغ پاتا؟ اس کے حوالے سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد، ملک کی واحد سیاسی جماعت پر ہی نہیں بلکہ ریاست پر بھی مضبوط اور طاقتور غیر جمہوری طبقات نے مکمل کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ اس وقت سے اب تک سیاسی قائدین نے پوری دیانتداری کے ساتھ ہمیشہ پہلے مرحلے پر ملک پر قابض غیر جمہوری قوتوں کو شکست دی اور اس کے بعد جمہوری نظام کے تسلسل کے لیے جدوجہد کی جس میں وہ جزوی طور پر کامیاب ہوئے لیکن بدقسمتی سے ان سیاسی طاقتوں کو کلی کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔
یہی وجہ ہے کہ سیاسی قائدین، ملک کے تمام اداروں پر آئین کے مطابق بالادستی قائم کرنے کے بعد اپنی جماعتوں کے کارکنان کی تربیت نہیں کر سکے۔ جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کے درمیان یہ کھیل 2008ء تک بہت واضح انداز میں جاری رہا۔ لیکن کیا یہ کم کامیابی ہے کہ اس دوران سیاسی جماعتیں عالمی طاقتوں کی حمایت کے ساتھ اقتدار پر قابض غیر جمہوری قوتوں سے ہی نبرد آزما نہیں رہیں بلکہ اس کے ساتھ آئینی اداروں کو بحال کر کے انھیں مکمل آزادی و خود مختاری دلوانے کی جدوجہد میں بھی مصروف رہیں۔ جمہوری جدوجہد کے اس عمل میں پھانسیاں، کوڑے، جیلیں، جلا وطنی اور مختلف سختیاں سیاسی جماعتوں اور سیاسی کارکنان کے حوصلوں کو پست نہیں کر سکیں۔ یہ جدوجہد کامیابی کے حصول تک جاری رکھنے کے عزم کے ساتھ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔
معاشرے میں جمہوریت کے قیام، استحکام اور اس میں جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کے رویوں سے جو حقیقت کشید کی جا سکتی ہے وہ یہی ہے کہ اگر پاکستان میں بھی اس کے قیام کے ساتھ ہی سیاسی اور جمہوری عمل کا تسلسل برقرار رہتا اور بار بار فوجی مداخلت نہ ہوتی تو سیاسی جماعتوں کے اندر مستحکم جمہوری کلچر نہ جانے کب کا فروغ پا چکا ہوتا۔ یہ حقیقت درست ہے کہ غیر جمہوری مہم جوئی کے نتیجے میں سیاسی جماعتیں مستحکم نہیں ہو سکیں، وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ منظم اور فعال جمہوری کلچر کے ذریعے ہی غیر جمہوری قوتوں کو غیر مستحکم کیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں سیاسی قائدین کی اب تک کی کارکردگی اگر بہت حوصلہ افزا نہیں تو مایوس کن بھی نہیں رہی ہے کیونکہ سیاسی جماعتوں نے ماضی میں تنہا چومکھی لڑائی لڑی اور ہر بار کسی نہ کسی سطح کی کامیابی بھی ضرور حاصل کی۔
آج بھی سیاسی جماعتیں کامیاب و کامران رہی ہیں یہی و جہ ہے کہ تمام تر سازشوں کے باوجود ایک جمہوری حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کر لی ہے۔ آئین کے مطابق الیکشن اور پھر نتائج کے مطابق انتقال اقتدار کا مرحلہ طے ہو جانے اور اندرونی و عالمی سطح پر جمہوری نظام کی حمایت کے بعد یہ امید کی جا سکتی ہے کہ سیاسی جماعتوں کی توجہ جمہوری نظام کے استحکام اور ملک کی معاشی و صنعتی ترقی پر ہی مرکوز نہیں رہے گی بلکہ اب وہ اپنی اپنی جماعتوں کے کارکنان کی سیاسی تربیت اور جماعتوں کے اندر جمہوری کلچر کے فروغ کو پہلی ترجیح دیں گی۔ ملک میں جمہوری نظام کے پائیدار قیام، استحکام اور فروغ کے لیے سیاسی جماعتوں کے اندر خود جمہوری کلچر کا ہونا بھی انتہائی ناگزیر ہے۔ تاہم، یہ عمل غیر جمہوری قوتوں کی مکمل اور فیصلہ کن ناکامی کے بعد یقینا تیز سے تیز تر ہوتا جائے گا۔ لہٰذا سیاسی جماعتوں کے اندر مکمل اور جمہوریت کے نفاذ کے حوالے سے غیر معمولی آئیڈیلزم کی بجائے حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔