علم کی اہمیت اور فضیلت

قرآن و حدیث میں علم کو فلاح اور کام یابی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے اور اہل علم کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔


قرآن و حدیث میں علم کو فلاح اور کام یابی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے اور اہل علم کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ فوٹو : فائل

علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔

قرآن و حدیث میں علم کو فلاح اور کام یابی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے اور اہل علم کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ علم انسان کو پستی سے بلندی کی طرف لے جاتاہے۔ یہ ادنیٰ کو اعلیٰ بناتا ہے۔ غیر تہذیب یافتہ اقوام کو تہذیب کی دولت سے مالا مال کر تا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں اہل علم افراد کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ علم کی اہمیت کے حوالے سے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ذکر آیا ہے۔ چناں چہ حضرت ابراہم ؑ نے جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے کعبے کی تعمیر مکمل کی اور وہاں چند لوگ آباد ہو گئے تو دعا فرمائی '' اے ہمارے رب! ان میں انہیں میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے، یقیناً تو غلبے والا اور حکمت والا ہے۔''
( سورۃ البقرہ: 129)

اسلام کی سب سے پہلی تعلیم اور قرآن پاک کی پہلی آیت جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ؐ پر نازل فرمائی وہ علم ہی سے متعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: '' پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا، تو پڑھتا رہ، تیرا رب بڑا کرم والا ہے جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا۔ جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔'' ( سورہ علق: 1-5)

علم دین کی ضرورت و اہمیت کے باب میں نبی اکرم ؐ کا یہی فرمان کافی ہے کہ جس ذات کے اندر اللہ تبارک وتعالیٰ نے کائنات کی تمام خوبیاں یکجا کر دیں، اُس ذات نے خود کو معلم کے طور پر پیش کیا اور فرمایا '' بے شک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔''

نبی اکرمؐ نے احادیث مبارکہ میں متعدد مقامات پر علم حاصل کرنے پر زور دیا ہے۔ چناںچہ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا ''علم کا طلب کرنا ہر مسلمان (مرد، عورت) پر فرض ہے۔'' (رواہ البیہقی فی شعب الایمان)

مندر جہ بالا حدیث مبارکہ، جس میں علم کی فرضیت فقط مردوں تک ہی محدود نہیں رکھی گئی بلکہ عورتوں کے لیے بھی علم کا حصول ضروری قرار دیا گیا ہے، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ نبی اکرمؐ کے واضح فرمان کے باوجود، ہمارے ہاں آج بھی بعض لوگ خواتین کو تعلیم دلانے میں ہچکچاہٹ محسوس کر تے ہیں۔ یاد رہے کہ ایک عورت کو تعلیم دلانا پورے خاندان کو تعلیم دلانے کے مترادف ہے۔ کیوں کہ یہی خاتون، جس نے ایک دن ماں بننا ہے، اور اپنی اولاد کی پرورش کی ذمہ داری ادا کرنی ہے، اگر وہ تعلیم یافتہ ہوگی تو اپنے بچے کی ایک غیر تعلیم یافتہ خاتون کی نسبت کئی گنا بہتر تربیت کر پائے گی۔ ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔ اگر اس درس گاہ سے بچے کو اچھی بنیاد میسر آگئی تو یہ آگے چل کر اُس کے لیے مفید ثابت ہو گی۔



علم کی فضیلت، بالخصوص دین کا علم حاصل کرنے کے حوالے سے ایک حدیث مبارکہ جسے حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے روایت کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ''رسول اکرمؐ کا گزر دو مجلسوں سے ہوا، جو آپؐ کی مسجد میں ہو رہی تھیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ ''دونوں مجلسیں خیر اور نیکی کی مجلسیں ہیں۔ (ایک مجلس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ) یہ لوگ اللہ سے دعا اور مناجات میں مشغول ہیں، اللہ چاہے تو عطا فرما دے اور چاہے تو عطا نہ فرمائے اور (دوسری مجلس کے بارے میں فرمایا کہ) یہ لوگ علمِ دین حاصل کرنے میں اور نہ جاننے والوں کو سکھانے میں مصروف ہیں، لہٰذا ان کا درجہ بالاتر ہے اور میں تو معلم ہی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ پھر آپ اُنہی میں بیٹھ گئے۔'' (مسنددارمی)

مندرجہ بالا حدیث مبارکہ میں علم سیکھنے اور سکھانے والوں کی فضیلت کا علم ہوتا ہے اور ایسی جماعت پر نہ صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کی خاص رحمتیں نازل ہوتی ہیں بلکہ فرشتے اور دیگر مخلوقات بھی اُن کے لیے دعاگو رہتے ہیں۔

حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ ''اللہ تعالیٰ رحمت نازل فرماتا ہے اور اس کے فرشتے اور آسمان و زمین میں رہنے والی ساری مخلوقات، یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے سوراخوں میں اور مچھلیاں (پانی میں) اس بندے کے لیے دعائے خیر کرتی ہیں جو لوگوں کو بھلائی کی اور دین کی تعلیم دیتا ہے۔'' (جامع تر مذی)

دکھاوے کا علم اور اس کا انجام
علم حاصل کرنے والوں کو یہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ جس طرح علم حاصل کرنے اور اسے دوسروں تک پہچانے کی فضیلت بیان کی گئی ہے اسی طرح اس کی ناقدری اور اسے دکھاوے کے طور پر پیش کرنے کی بھی سخت مذمت کی گئی ہے۔ نبی اکرمؐ کی متعدد احادیث مبارکہ میں ایسے لوگوں کے لیے سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ چناں چہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا ''جس علم کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رضا تلاش کی جاتی ہے، ایسے علم کو اگر کسی نے دنیاوی فائدے کے لیے حاصل کیا تو وہ شخص جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا۔'' (رواہ احمد و ابوداؤد)

علم کے بغیر فتویٰ دینا اور علم کے ہوتے ہوئے اسے چھپانا بھی درست نہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا ''جس سے علم کی کوئی بات پوچھی گئی، جس کا اُسے علم ہے، پھر اس نے اس کو چھپایا (یعنی سائل کو نہ بتایا) تو قیامت کے روز اس کے منہ میں آگ کی لگام ڈالی جائے گی۔'' (رواہ احمد و ابوداؤد)

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ ''جس کو بغیر علم کے فتویٰ دیا گیا (اور اس نے اس پر عمل کرکے غلط کام کر لیا) تو اس کا گناہ اس پر ہوگا جس نے فتویٰ دیا اور جس نے کسی کام کے سلسلے میں اپنے بھائی کو ایسا مشورہ دیا جس کے متعلق وہ جانتا ہے کہ بہتری دوسرے مشورے میں ہے، تو اس نے اپنے بھائی کے ساتھ خیانت کی۔'' (رواہ ابوداؤد)

علم دین اور صدقۂ جاریہ
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدسؐ نے ارشاد فرمایا '' بے شک ان چیزوں میں سے جو مومن کو موت کے بعد پہنچتی ہیں، یعنی اس کے عمل اور اس کی نیکیاں، ان میں ایک تو علم ہے، جسے اس نے حاصل کیا اور پھیلایا، اور وہ اولاد صالح، جسے چھوڑ گیا یا قرآن ورثے میں چھوڑ گیا یا مسافر خانہ تعمیر کر گیا یا نہر جاری کر گیا یا اپنے مال سے زندگی میں اور تندرستی میں ایسا صدقہ نکال گیا جو مرنے کے بعد اس کو پہنچتا ہے۔'' (رواہ ابن ماجہ)

طالب علمی میں موت
حضرت حسن بصریؒ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا کہ ''جس کو اس حال میں موت آگئی کہ اسلام کے زندہ کرنے کے لیے علم حاصل کر رہا تھا تو اس کے اور نبیوں کے درمیان جنت میں ایک درجے کا فرق ہوگا۔'' (رواہ الدارمی)

علم دین حاصل کرنے کے لیے عمر کی اور نہ ہی وقت کی کوئی قید ہے۔ آج دنیا میں علم حاصل کرنے کے متعدد وسائل موجود ہیں: مثلاً کتاب، کیسٹ، اسلامک سنٹرز، ٹیلی فون اور انٹرنیٹ وغیرہ۔ بہت سے لوگ بڑی عمر کے باعث علم دین حاصل کرنے سے کتراتے ہیں۔ یہ بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے۔ حضرت مجاہدؒ نے فرمایا کہ '' شرمیلا اور متکبر شخص علم حاصل نہیں کرسکتا۔'' امام ابن حزمؒ نے بزرگی میں علم دین حاصل کرنا شروع کیا اور ایک بہت بڑے امام بن گئے۔ کتنے ایسے صحابہ کرام ہیں جنہوں نے بڑی عمر میں اسلام قبول کیا اور دین کا علم حاصل کیا ۔ آج لوگوں کو روزانہ اپنے معمولات کے لیے تو وقت مل جاتا ہے لیکن قرآن و حدیث پڑھنے کے لیے ان کے پاس فرصت نہیں ہوتی۔ دس دس گھنٹے، سخت ڈیوٹی کرنے کے بعد بھی اپنے دوست و احباب کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ کرنے کے لیے تو ان کے پاس وقت ہے لیکن ایسے ہی مل بیٹھ کر اللہ اور اس کے رسول کی باتیں کرنے اور علم دین سیکھنے کے لیے اُن کے پاس وقت نہیں۔ کام یاب ہیں وہ لوگ جو علم سیکھتے اور سکھاتے ہیں۔ علمی محافل میں بیٹھ کر دل کو حقیقی راحت میسر آتی ہے۔ اسلام سے محبت کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ اہلِ علم کی قدر کریں اور دین کا علم خود بھی سیکھیں اور دوسروں کو بھی سکھائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں