کراچی لٹریچر فیسٹیول

ہر پروگرام اپنے مقررہ وقت پر شروع اور ختم ہوا جس کا کریڈٹ بلا شبہ منتظمین کے ہوم ورک اور تنظیمی صلاحیت کو جاتا ہے


Amjad Islam Amjad February 21, 2013
[email protected]

ISLAMABAD: آکسفورڈ یونیورسٹی پریس (OUP) کے زیر انتظام ہونے والے چوتھے کراچی لٹریچر فیسٹیول میں شرکت کے بعد میں آج ہی لاہور واپس پہنچا ہوں، واپسی کے سفر کی روداد اگرچہ اپنی جگہ پر ایک الگ داستان ہے مگر اس کا ذکر (انشاء اللہ) اگلے کالم میں ہوگا کہ فی الوقت میں آپ کو اس خوشگوار اور حوصلہ افزا تجربے میں شامل کرنا چاہتا ہوں جن سے میں گزشتہ تین دنوں میں گزرا ہوں۔ ہوٹل بیچ لگژری میں (جو غالباً کراچی کا قدیم ترین ستاروں والا ہوٹل ہے) سجنے والا یہ میلہ گزشتہ تینوں میلوں سے ہر اعتبار سے بازی لے گیا کہ صبح دس بجے سے رات آٹھ بجے تک چھ مختلف جگہوں پر بیک وقت مختلف پروگرام چلتے رہے اورجگہ کی وسعت کے باوجود ہجوم کا یہ عالم تھا کہ اکثر پروگراموں کے دوران'' نغمگی کے قد بالا پر قبائے ساز تنگ'' والی صورت حال رہی کہ بے شمار لوگوں کو بیٹھنے کے لیے سیٹ نہ مل سکی۔ کراچی کے امن و امان کی مخدوش صورتحال کے پس منظر میں ادب اور کتاب کے لیے عوام کا یہ جوش و خروش دیدنی بھی تھا، حیران کن بھی اور قابل تعریف بھی۔

تقریباً ہر پروگرام اپنے مقررہ وقت پر شروع اور ختم ہوا جس کا کریڈٹ بلا شبہ منتظمین کے ہوم ورک اور تنظیمی صلاحیت کو جاتا ہے کہ اتنے بہت سے مندوبین کوسنبھالنا، ہر طرح کی مطلوبہ سہولت مہیا کرنا اوراس قدر ہجوم کے باوجودکسی قسم کی بدنظمی کو پیدا نہ ہونے دینا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ چھپے ہوئے پروگرام میں چند بھارتی شرکاء خصوصاً گلزار صاحب کی غیر حاضری کی وجہ سے کچھ تبدیلیاں کرنا پڑیں لیکن عمومی طور پر فوری متبادل انتظامات کی وجہ سے اس کمی کو بہت کم محسوس ہونے دیا گیا۔ گلزار صاحب کل ملا کر تقریباً چار پروگراموں میں کسی نہ کسی حوالے سے شامل تھے جن میں افتتاحی تقریب کا بنیادی مقالہ یعنی Key Note Address بھی شامل تھا اس کمی کو انتظار حسین صاحب کی بھاری بھرکم شخصیت کے حوالے سے پر کیا گیا جو بہت صائب فیصلہ تھا کہ شائد کوئی دوسرا ادیب اس خلا کو اس حد تک پر نہ کرسکتا۔ اس اجلاس میں برطانیہ، اٹلی، فرانس اور روس کے سفارتی نمایندوں نے بھی خطاب کیا جب کہ منتظمین کی طرف سے امینہ سید اور آصف فرخی نے فیسٹیول کی غائت اورتاریخ کے حوالے سے بنیادی معلومات فراہم کیں۔

انتظار صاحب نے داستانوں بالخصوص الف لیلیٰ کے مرکزی کردار ''شہر زاد'' کے حوالے سے انسانی زندگی کے ارتقا' اور گونا گونی میں عورت کے کردار کا بہت دلچسپ اور خیال افروز تجزیہ پیش کیا جس پر انھیں خوب داد ملی۔جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ صبح سے شام تک بہت سے پروگرام مسلسل چل رہے تھے اور ایک ہی وقت میں (بچوں کے پروگراموں سے قطع نظر کے بعد بھی) آپ پانچ مختلف موضوعات پر مشتمل سیشنز میں سے کسی ایک، دو یا بعض صورتوں میں تین کا انتخاب کرسکتے تھے یعنی کچھ کچھ پرندوں کی طرح جگہ جگہ سے دانا دنکا چننے والی صورت حال تھی۔ اس مجبوری کی وجہ سے میں بھی بہت سے پسندیدہ پروگراموں میں خواہش کے باوجود شامل نہیں ہوسکا اس کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ تینوں دن یعنی 15 سے 17 فروری تک خود مجھے چار مختلف پروگراموں میں حاضری دینا تھی۔

احباب اور ''مداحین'' (یہ منیر نیازی مرحوم کا مخصوص لفظ تھا پتہ نہیں کیوں اس وقت بہت یاد آرہا ہے) سے سلام دعا اور تصویروں اور آٹو گرافس کا طویل سلسلہ ان سب پر مستزاد تھا۔اس فیسٹیول کی جس بات نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ اس کے شرکاء کا تنوع تھا کہ اس میں آٹھ سال کے بچوں سے لے کر اسّی سال کے بوڑھوں تک ہر عمر اور مزاج کے لوگ شامل تھے بالخصوص ہائی اسکول اور کالجوں کے طلبہ و طالبات کی کثیر تعداد میں پرجوش شمولیت بے حد حوصلہ افزا تھی کہ فی الوقت اردو کی نئی اور پرانی ہر طرح کی بستیوں میں نئی نسل کی شمولیت تقریباً ختم ہوتی جارہی ہے ادب، کتاب، شاعری، فکشن اور لکھے ہوئے لفظ کو پڑھنے کی عادت کے لیے یا یوں کہیے کہ اس کا بیج بونے کے لیے میرے نزدیک دس سے پندرہ سال کے درمیان کی عمر بہترین زمانہ ٹھہرتی ہے اور اگر ہم اپنے انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کو اس عمر میں اردو زبان اور شعر و ادب سے روشناس کراسکیں تو توقع کی جاسکتی ہے کہ سب نہ سہی لیکن ایک بڑی تعداد میں یہ بچے آگے چل کر زندگی بھر اس رشتے کو استوار رکھیں گے۔

بصورت دیگر آیندہ چند برسوں میں اردو زبان بھی کئی اور زبانوں کی طرح صرف ایک بولی اور سنی جانے والی زبان بن کر رہ جائے گی۔ اس کا اسکرپٹ بھی (خدانخواستہ) ختم ہوجائے گا اور ادب بھی ایک یادگار رفتہ بنتا چلا جائے گا۔ یوں تو اس فیسٹیول کے مندوبین میں سے کچھ لوگ اپنی اپنی جگہ پر ایک مکمل کہکشاں تھے مگر باقی بھی کچھ کم نہیں تھے۔ پوری فہرست بہت طویل ہے اس لیے میں چند ایسے افراد کے ناموں پر ہی اکتفا کروں گا جن سے بالمشافہ ملاقات کا موقع مل سکا یا جن کی باتوں نے غیر معمولی طور پر متاثر کیا، ان میں بھارت سے آئے ہوئے جدید داستان گو دانش حسین اور دارین کے علاوہ ڈاکٹر پروفیسر شمیم حنفی اور مہر افشاں فاروقی (جو برادر محترم شمس الرحمن فاروقی کی صاحبزادی ہیں) کا نام سرفہرست ہے پاکستانی مندوبین میں سے انتظار حسین، عارفہ سیدہ، عبداللہ حسین، زہرہ نگاہ، محمد حنیف، محسن حامد، ناصرہ جاوید اقبال، ندیم اسلم، نجم سیٹھی، مستنصر حسین تارڑ، افتخار عارف، احمد شاہ، کشور ناہید، عرفان جاوید، انور مسعود، عطاء الحق قاسمی، حسینہ معین، سحر انصاری، نورالہدیٰ شاہ، زاہدہ حنا، امداد حسینی، شکیل عادل زادہ، ضیا محی الدین،کاملہ شمسی سمیت کئی اور نام بھی لیے جاسکتے ہیں جب کہ امریکا اور یورپ سے آنے والے پاکستانیوں میں ڈاکٹر کامران امجد اور قیصرہ شیراز کے نام ذہن میں رہ گئے ہیں۔

ایک اور اہم اورخوش کن بات اس لٹریچر فیسٹیول کی یہ رہی کہ اس بار اردو اور پاکستان کی دیگر قومی زبانوں کو پہلے تین میلوں کی نسبت زیادہ زیادہ جگہ دی گئی، اسپورٹس، میوزک اور رقص کے حوالے سے بھی کئی پروگرام رکھے گئے، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس اور جہانگیر، ویلکم اور لبرٹی بکس سمیت بہت سے اشاعتی اداروں نے اپنی مطبوعات کے اسٹال بھی لگائے جن کی مقبولیت اور اچھے بزنس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اس اتنے بڑے ہجوم میں بیشتر لوگوں کے ہاتھ میں کتابوں سے بھرے ہوئے تھیلے نظر آئے۔

جو کتاب سے دوری کے اس بے فیض دور میں یقینا ایک بہت ہی خوش آیند منظر تھا، تقریباً بارہ مصنفین کے ساتھ ایک ایک گھنٹے کی خصوصی نشستوں کا اہتمام بھی تھا جن میں انھوں نے اپنی تحریریں پڑھنے کے ساتھ ساتھ سامعین سے براہ راست مکالمہ بھی کیا اس سلسلے میں جو نشست میرے ساتھ رکھی گئی تھی اس میں کراچی آرٹس کونسل کے صدر اور کراچی کے نامور ادب دوست احمد شاہ نے میزبانی کے فرائض انجام دیے اور اپنے مخصوص انداز میں مجھ سمیت پوری محفل کو گرمائے رکھا۔مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ لٹریچر فیسٹیول ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح تھا اور اگر اسے وطن عزیز کی عمومی اور کراچی کی مخصوص صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے تو اسے اس چراغ سے بھی تشبیہ دی جاسکتی ہے جس کی صرف موجودگی ہی تیرگی کے سمندر میں روشنی کے ایک مینار کی سی اہمیت رکھتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں