روہنگیا مسلمان کا المیہ
برما میں روہنگیا مسلمانوں کی مشکلات میں حقیقی اضافہ 1962ء میں فوجی حکومت قائم ہونے کے بعد ہوا
مہاتما بدھ کے گیروا رنگ میں رنگے برما (میانمار) میں کبھی اس طرح خون کی ندیاں بہیں گی، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اور وہ جن کو یہ تعلیم دی گئی تھی کہ زمین پر رینگتے حقیرکیڑے مکوڑے کومارنا بھی پاپ ہے،کبھی اس طرح انسانی نعشوں کے انبار لگا دیں گے، کسی کے وہم وگمان بھی نہ تھا۔ مگر آج برما میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور ایک ایسے عہد میں ہو رہا ہے، جب برما کی باگ ڈور ایک ایسی خاتون حکمران کے ہاتھ میں ہے، جو نہ صرف یہ کہ جمہوری طور پر منتخب وزیراعظم ہے، بلکہ نوبل ایوارڈ یافتہ بھی ہے۔
یہ مہاتما بدھ کے ایک سو سال بعد کا عہد ہے۔ قرہ العین حیدر کا لازوال کردار 'گوتم نیملمبر' اپنے آشرم سے نکلتا ہے اور دوست کملیشور کے نگارخانے پر پہنچتا ہے۔ گوتم نیلمبر اب صرف بدھ راہب ہی نہیں ، ناگرک یعنی مصور بھی بن چکا ہے۔ قرۃ العین حیدر نے ساٹھ سال پہلے جب ''آگ کا دریا'' کا ناول لکھا تھا اور اس میں مہاتمابدھ کی امن و شانتی کے نظریات کو سمویا تھا، تو اس وقت ان کو کیا معلوم تھا کہ یہ اب نظری بحثیں ہیں اورحقیقتاً ریاست اب کسی بھی نظریۂ زندگی کے مقابلہ میں زیادہ طاقتور ہے۔
صدیوں پہلے ایودھیا کا بدھ طالب علم گوتم نیلمبر بھلے قتل وغارت سے متنفر ہو، مگر آج برما کی بدھ وزیراعظم آنگ سان سوچی Aung San Suu Kyi کو قتل وغارت سے کوئی مسئلہ نہیں۔ برما میں روہنگیا مسلمانوں کی اموات کے بارے میں بلامبالغہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ آج سے کچھ سال پیشتر جب برما میں روہنگیا مسلمانوں پر بدھ حکومت کے مظالم کی یہ کہانیاں اور ان کی انبار درانبار نعشوں کی تصویریں منظر عام پر آئیں تو ان کو محض سوشل میڈیا ایکٹوٹی سمجھا گیااور کوئی اہمیت نہیں دی گئی، مگر آج ان مظالم کی صدائے بازگشت پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔
روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں اب تک جو مصدقہ معلومات سامنے آئی ہیں، ان کے مطابق برما میں ان کی تعداد گیارہ لاکھ ہے، جو برما کی کل آبادی کا4.3 فی صد ہیں۔یاد رہے کہ برما کی مجموعی آبادی کا غالب حصہ یعنی 87.4 فی صد حصہ بدہسٹوں پر مشتمل ہے اور ان کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کا بیشتر حصہ برطانوی سامراج میں مشرقی اور مغربی بنگال سے نقل مکانی کرکے آنے والوں کا ہے۔ وہ برماکے مکمل شہری تسلیم نہیں۔ چنانچہ 1948ء میں آزادی ملتے ہی برماحکومت نے union of citizenship actکے تحت روہنگیا مسلمانوں کو برما کا شہری تسلیم کرنے سے انکار کر دیا؛ تاہم ان پر بہت زیادہ پابندیاں عائد نہ کی گئیں۔ آزادی کے بعد اس ابتدائی دور میں اراکان ریاست کے روہنگیا مسلمانوںپر سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند نہیں تھے، بلکہ روہنگیا تشخص کے حامل بعض مسلمان نمایندے پارلیمنٹ میں بھی پہنچے۔
برما میں روہنگیا مسلمانوں کی مشکلات میں حقیقی اضافہ 1962ء میں فوجی حکومت قائم ہونے کے بعد ہوا، جب برما کے تمام شہریوں کے لیے نیشنل رجسٹریشن کارڈ لازمی قراردے دیا گیا۔ اس قانون کے تحت روہنگیامسلمانوں کو فارن آئی ڈی کارڈ جاری کرکے ان پر تعلیم اور ملازمتوں میں مواقع محدود کردیے گئے۔ 1978ء میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف دوسرا فوجی آپریشن ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ اس دوران دو لاکھ سے زائد روہنگیامسلمان نقل مکانی کرکے بنگلہ دیش میں پناہ گزیں ہو گئے۔ ہزاروں روہنگیا مسلمان پاکستان، ملائشیااور بعض دیگر مسلمان ملکوں میں منتقل ہو گئے۔
1982ء میں روہنگیامسلمانوں کو ایک اور بڑا جھٹکا لگا، جب برماحکومت نے ملکی شہریت کا نیا قانون متعارف کرایا اور برما کی 135 قومیتوں کو آئینی اور قانونی طور پر تسلیم کر لیا، مگر روہنگیا مسلمانوں کو ان میں شامل نہیں کیا۔ برما کی اراکان ریاست میں مسلمان صدیوں سے آباد ہیں۔ خلیفہ ہارن الرشید کے عہد میں مسلمان تجارت کی غرض سے برما کی ساحلی ریاست اراکان میں آئے اور رفتہ رفتہ اس طرح گھل مل گئے کہ چودھویں صدی عیسوی میں ملک سلمان کی امارات میں یہاں مسلمان حکومت بھی قائم ہو گئی، جو تقریباً تین صدیوں تک قائم رہی اوراس کے سکہ پر کلمہ طیبہ کندہ تھا۔ یہ مسلمان حکومت توامتداد زمانہ کا شکار ہو ختم ہو گئی مگر یہاں مسلمانوںکی قابل لحاظ تعداد ہمیشہ رہی ہے۔
لہٰذا برما حکومت کا یہ موقف سیاسی اور تاریخی طور پر انتہائی کمزور ہے کہ روہنگیا مسلمان سب کے سب برطانوی دور میں بنگال سے منتقل ہو کر اراکان ریاست میںآئے ہیں۔ یہ بات بھی تاریخی طور پر ثابت ہو چکی ہے کہ برصغیر پر برطانوی عہد میں جہاں ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت ہندووں کو ہر شعبہ زندگی میں مسلمانوں پر ترجیح دی گئی، وہاں برما کی اراکان ریاست میں بھی بدہسٹوں کو اس طرح ہر شعبہ زندگی میں آگے رکھا گیا کہ جب برما کو آزادی ملی تو اراکان کے مسلمان سیاسی، سماجی اور معاشی اعتبار سے اتنے کمزور ہو چکے تھے کہ ان میں اپنی حکومت سے اپنے بنیادی سیاسی حقوق حاصل کرنے کی سکت بھی نہیں تھی اورآج بھی ان کی یہ حالت ہے کہ کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے۔ وہ جیتے جی مرچکے ہیں، بلکہ بے کسی کے اس درجہ میں ہیں کہ کوئی ان کے لیے کچھ کرنے کو تیارنہیں۔بہادرشاہ ظفر کو انگریزوں نے گرفتار کرکے تادم موت رنگون (برما) میں ہی رکھا تھا اور یہیں ان کا مزار بھی ہے۔ بہادرشاہ ظفر کی مشہور غزل آج روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر بھی صادق آتی ہے، کہتے ہیں،
نہ تو میں کسی کا حبیب ہوں، نہ تو میں کسی کا رقیب ہوں
جو بگڑ گیا وہ نصیب ہوں، جو اجڑ گیا وہ دیار ہوں
پے فاتحہ کوئی آئے کیوں، کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی آکے شمع جلائے کیوں، میں وہ بے کسی کا مزار ہوں