بلوچستان مردم شماری کے نتائج اور وسائل کی تقسیم

حکومتیں اور پالیسی ساز اب اپنی پرانی غلطیوں و کوتاہیوں کا ازالہ کریں۔


ببرک کارمل جمالی September 16, 2017
حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ فرض بنتا ہے کہ بلوچستان کی مردم شماری کے نتائج کی روشنی میں پالیسیاں ترتیب دینے میں مدد کریں۔ فوٹو: فائ؛

NEW YORK: بلوچستان رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جو 347190 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے جبکہ یہ پاکستان کے کُل رقبے کا 43.65 فیصد بنتا ہے۔ یہ صوبہ محلِ وقوع کے لحاظ سے بھی پاکستان کا اہم ترین صوبہ شمار کیا جاتا ہے لیکن آبادی کے حساب سے یہ سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ پورے پاکستان کی طرح بلوچستان میں بھی مردم شماری کے بعد جو اعداد و شمار سامنے آئے، ان پر راقم کا تجزیہ پیش ہے۔

پاکستانی آئین کے مطابق ہر دس سال بعد پورے ملک میں مردم شماری کروانا لازمی ہے مگر پاکستان میں مردم شماری بہ مشکل 20 برس بعد ہی ممکن ہوپاتی ہے۔ 2017ء میں بھی مردم شماری سپریم کورٹ کے حکم پر 19 برس بعد ممکن ہوسکی ہے۔ اِس چھٹی مردم شماری کی کامیابی پر حکمران طبقہ خوش ہے مگر اپوزیشن نے اِس مردم شماری کے اعداد و شمار کو مسترد کردیا ہے اور انہیں اس پر تحفظات ہیں۔ 2017ء کی مردم شماری میں تین لاکھ سرکاری ملازمین اور دو لاکھ فوجی جوانوں نے حصہ لیا۔

ملک کی چھٹی مردم شماری کے نتائج سامنے بھی آچکے ہیں، جن کے مطابق بلوچستان کی کُل آبادی 1 کروڑ 23 لاکھ ہے۔ ادارہِ شماریات نے 2017ء کی مردم شماری کے ضلع وار نتائج بھی جاری کردیئے ہیں۔ اِس مردم شماری کے ہم سب پر کیا اثرات ہوں گے؟ نہ ہم جانتے ہیں نہ حکمران طبقہ۔ کیا ہم سب اِس آبادی کے تناسب سے آنے والے وقتوں میں ترقی کریں گے یا نہیں؟ یہ وقت ہم سب کو بتائے گا۔



صوبہ بلوچستان میں 1998ء سے 2017ء تک آبادی میں سالانہ اضافے کی شرح 3.37 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔ 1998ء میں صوبے کی مجموعی آبادی 65 لاکھ 65 ہزار 885 تھی جب کہ رواں سال 15 مارچ سے 25 مئی تک ہونے والی ملک کی چھٹی مردم شماری کے نتائج کے مطابق بلوچستان کی کل آبادی ایک کروڑ 23 لاکھ 44 ہزار 408 نفوس پر مشتمل ہے جس میں مردوں کی تعداد 64لاکھ 83 ہزار 653 جبکہ خواتین کی تعداد 58 لاکھ 60 ہزار 646 ہے۔ پورے صوبہ بلوچستان میں کچے پکے مکانات کی تعداد 17 لاکھ 75 ہزار 937 ہے اور دیہی علاقوں میں 13لاکھ 1 ہزار 212 مکانات موجود ہیں۔ شہری علاقوں میں 4 لاکھ 74 ہزار 725 مکانات موجود ہیں۔ پورے ملک میں پکے مکانات کی یہ سب سے کم شرح ہے۔ مقامِ حیرت تو یہ ہے کہ پورے ملک کو گیس سپلائی کرنے والا صوبہ کچے مکانات سے بھرا پڑا ہے۔

1956ء کے آئین کے تحت صوبہ بلوچستان کو مغربی پاکستان کے ایک یونٹ میں ضم کردیا گیا۔ جب 1970ء میں عام انتخابات ہوئے تو اُن میں پہلی بار اسے ایک الگ صوبے کی حیثیت حاصل ہوئی تھی۔ اگر ماضی کا جائزہ لیا جائے تو بلوچستان سے دو معروف اشخاص وزیراعظم پاکستان منتخب ہوئے ہیں۔ مشرف دور میں الحاج میر ظفر اللہ خان جمالی اور پچھلی نگران حکومت میں حاجی میر ہزار خان کھوسہ جو کہ سابق جسٹس و گورنر ضلع جعفرآباد بھی رہ چکے ہیں۔ تاہم اِن لوگوں نے بھی بلوچستان کی ترقی کیلئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔



بلوچستان زمانہ قدیم سے قدرتی وسائل و ذخائر سے مالامال خطہ ہے جہاں تیل، گیس، سونا، تانبہ، ریکوڈک، اور دو اہم بندرگاہیں موجود ہیں۔ لیکن یہ وسائل بھی بلوچستان میں کوئی خاص تبدیلی نہیں لاسکے۔ بلوچستان میں موجودہ صوبائی حکومت بھی اقتدار میں ہونے کے باوجود بےاختیار نظر آتی ہے کیونکہ ایک سال گزرنے کے باوجود بھی وفاق میں پانچ سے آٹھ ہزار اسامیوں کا کوٹہ خالی پڑا ہے جو باعثِ عبرت ہے۔

پورے ملک میں مردم شماری سے پہلے بھی وسائل کی تقسیم متنازعہ رہی ہے۔ چھوٹے صوبوں اور خطّوں کا یہی مطالبہ رہا ہے کہ انہیں وسائل میں جائز حصہ دیا جائے۔ اب جبکہ مردم شماری کے نتائج سامنے آچکے ہیں جس کے بعد ہمیں اِس بات کا علم ہوا کہ اتنے برسوں بعد آبادی دوگنی ہوچکی ہے۔ اب حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ فرض بنتا ہے کہ بلوچستان کی مردم شماری کے نتائج کی روشنی میں نئی پالیسیاں ترتیب دینے میں مدد کرے اور علاقائی وسائل کی منصفانہ تقسیم بھی کی جائے۔

اب وقت آگیا ہے کہ حکومتیں اور پالیسی ساز اپنی پرانی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ کرتے ہوئے نئے عزم کے ساتھ بلوچستان کو ترقی یافتہ صوبہ بنانے میں اہم کردار ادا کریں۔ بلوچستان کو آبادی کے حساب سے ریلیف دیا جائے کیونکہ عوام کو اِس بلوچستان کے ورثاء کی تلاش 70 سال سے ہے جو بلوچستان کے مسائل پر نظر ثانی کرتے ہوئے تمام مسائل کو فوری طور پر حل کریں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں