ایک سے بڑھ کر ایک دلیل
روزانہ صبح سے شام تک ہمارا کتنا قرآن شریف اور دیگر بہتر قسم کی کتابوں کے مطالعے میں وقت صرف ہوتا ہے؟
ISLAMABAD/KARACHI:
ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کا شمار ان علمائے دین میں کیا جاسکتا ہے جن کا مشاہدہ کمال عروج پر تھا۔ 1977 میں دینی و سیکولر جماعتوں کے اتحاد (پاکستان قومی اتحاد) کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف تحریک جب نظام مصطفیٰ تحریک میں تبدیل ہوئی تو لاہور میں مسجد خضریٰ کی انتظامیہ نے (جہاں ڈاکٹر اسرار احمد جمعے کا خطبہ دیتے تھے) چاہا کہ ڈاکٹر صاحب جمعہ کے خطاب میں اس تحریک کی حمایت کریں۔ ڈاکٹر صاحب کا موقف قدرے مختلف تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ یہ تحریک درحقیقت بھٹو حکومت گرانے کی تحریک ہے اور عوام کو سڑکوں پر لانے کے لیے یہ نعرہ دیا گیا ہے۔ چنانچہ مسجد خضریٰ کی انتظامیہ نے ڈاکٹر صاحب کو خطاب جمعہ کی ذمے داری سے ہٹا دیا۔ تاریخ نے ثابت کر دیا کہ ڈاکٹر صاحب کا مشاہدہ اور موقف کس قدر درست تھا۔
اسی طرح جب 1981 میں جنرل ضیاء الحق نے ڈاکٹر صاحب کو شوریٰ میں شمولیت کی دعوت دی تو انھوں نے انکار کر دیا، مگر ضیاء الحق کی اس دلیل پر کہ جناب آپ مسجد کے منبر پر بیٹھ کر تو بڑے مشورے دیتے ہیں اب عملاً اس کے لیے فورم بنایا جا رہا ہے تو آپ ساتھ نہیں دے رہے، چنانچہ ڈاکٹر اسرار احمد نے حامی تو بھر لی، مگر تقریباً ڈھائی ماہ بعد ہی شوریٰ سے استعفیٰ دے دیا کیونکہ انھیں اندازہ ہو گیا تھا کہ ضیاء الحق شوریٰ کا ادارہ صرف خانہ پُری یا اپنی حکومت کی ساکھ بنانے کے لیے چلا رہے ہیں۔
قوم کی حالت کے بارے میں بھی ان کا مشاہدہ حقیقت سے قطعی قریب تھا وہ اقبال کا یہ شعر:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر
تم کی جگہ ہم لگا کر اکثر اس طرح پڑھا کرتے تھے:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر
اور ''ہم'' خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر
ڈاکٹر اسرار احمد قرآن سے دوری کے بارے میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
''صورت حال یہ ہے کہ وہ امت جسے قرآن کو اقوام و امم عالم تک پہنچانے کا ذمے دار بنایا گیا تھا آج اس کی محتاج ہے کہ خود اسے قرآن ''پہنچایا'' جائے۔ لہٰذا اس وقت اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ خود امت مسلمہ میں تعلیم القرآن کی ایک رو چل نکلے اور مسلمان درجہ بدرجہ قرآن سیکھنے اور سکھانے میں لگ جائے''۔
ڈاکٹر اسرار احمد کا یہ پیغام سو فیصد درست اور ہماری آج کی ضرورت ہے۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ آج ہمارے درمیان فرقہ واریت کا عفریت، دہشت گردی کی وبا اور پستی و مادہ پرستی کی اصل وجہ ہی یہی ہے کہ ہم نے قرآن سے رشتہ توڑ لیا، پیغام اور تعلیمات کو ایک طرف رکھ کر محض مخصوص ایام منانے یا اپنے مسلک پر دلائل دینے کو ہی اسلام سمجھ لیا ہے۔ اس دور کے سبب ہم تعلیمات سے بھی دور ہو گئے، چنانچہ پھر کردار سے بھی گئے اور یوں جب کردار بھی گیا تو زندگی کے تمام شعبوں میں پستی کا شکار بھی ہو گئے۔
1980 کی دہائی میں گورنمنٹ اسکولوں میں دینی رجحان کے حامل جماعت اسلامی کے کالجز کے طلبا، اسکولوں کے طلبا کو ہاف ٹائم میں صرف5 منٹ کا درس دینے آتے تھے، جس میں وہ کردار سازی کے حوالے سے قرآن کی آیات مع ترجمہ اور مختصر درس دیتے تھے۔ اس درس میں کسی قسم کی فرقہ واریت کا عنصر شامل نہیں تھا، البتہ یہ سیکنڈری اسکول کے طلبا میں بلند کردار بنانے میں اہم کردار ادا کر رہا تھا۔
اب ایک طویل عرصے سے اسکول کی سطح پر اس قسم کا عمل راقم کے مشاہدے میں نہیں آ رہا، لائبریریاں علاقوں میں ناپید ہیں اور کھیل کے میدان دیگر سرگرمیوں کی نذر ہو جاتے ہیں، البتہ ہر گلی کے نکڑ پر ڈبو، فٹ بال اور دیگر گیم کے علاوہ ''شیشہ'' پینے کے مواقع بہت ہیں جس کے باعث سگریٹ نوشی کی عادت عام ہوتی جا رہی ہے۔
ظاہر ہے کہ جب اس طرح سے نئی نسل مقصد اور اپنے دینی پیغام سے ہی دور ہو جائے تو اس کا اثر کردار پر منفی ہی پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم اپنے معاشرے میں جس شعبے پر بھی نظر ڈالیں، وہاں کام کرنے والے با کردار نظر نہیں آتے۔ کہیں رشوت کا بلند بازار گرم ہے، ہمیں انٹرسٹ کے نام پر لوٹا جا رہا ہے، اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ پولیس کا کردار صحیح نہیں ہے، انتظامیہ صحیح نہیں ہے، حکومت اپنا کردار ادا نہیں کر رہی ہے، یہ تاثر اپنی جگہ درست ہے لیکن یہ اور بھی تو درست ہے کہ انسان کی اگر اصلاح ہو جائے تو پھر بدی کی طرف جانے کے راستے محدود ہو جاتے ہیں اور باکردار انسان جہاں بھی جائے، جس شعبے میں بھی کام کرے کم از کم اس پر کوئی نگراں مقرر کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں ہوتی کہ وہ خدا کی واحد ذات کو اپنا نگراں سمجھتا ہے اور ایسے لوگ جو کردار سے عاری ہوں ان کے سر پر ایک ایک پولیس والا بھی بٹھا دیا جائے تب بھی وہ قانون شکنی کے کوئی نہ کوئی راستے نکال لیں گے۔ آج ہمارے معاشرے کا المیہ یہی ہے کہ ایک سبزی فروش سے لے کر ریاست کے چلانے والے اعلیٰ سرکاری عہدیداروں تک سب ہی اپنے عمل سے اس معاشرے کو تباہ کر رہے ہیں اور اپنے عمل کو درست ثابت کرنے کے لیے ان کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک دلیل ہے حالانکہ اپنے عمل کو درست ثابت کرنے کے لیے کردار ہی کافی ہوتا ہے دلیل نہیں۔
آج اپنے اردگرد غور کریں اور دیکھیں کہ روزانہ صبح سے شام تک ہمارا کتنا قرآن شریف اور دیگر بہتر قسم کی کتابوں کے مطالعے میں وقت صرف ہوتا ہے؟ اور کتنا وقت ٹی وی چینلز پر، انٹرنیٹ اور سیاسی گفتگو و بحث وغیرہ کے پروگراموں کے دیکھنے میں صرف ہوتا ہے؟ کتنا وقت گلی و ہوٹلوں اور ڈبو و کیرم بورڈ وغیرہ پر دوستوں کے ساتھ فضول یا بے معنی گفتگو میں خرچ ہوتا ہے؟ خاص کر نئی نسل کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ ہمارے روزمرہ کے معمولات ہماری کردار سازی نہیں کر رہے بلکہ ہمیں اس سراب کی طرف لے جا رہے ہیں، چنانچہ صبح و شام مادہ پرستی میں وہ کام کر رہے ہیں جس سے معاشرہ دو چار ہے۔ اب دودھ اور گوشت ہی کیا دوائوں میں بھی مضر صحت ملاوٹ سے اس حد تک آگے بڑھ گئے ہیں کہ انسانوں کی ہلاکتیں بھی ہمارا ضمیر نہیں جھنجھوڑتیں اور ایک معمولی موبائل چھیننے کی کوشش میں کسی کی جان لینا بھی ہمارے ضمیر پر بوجھ نہیں بنتا، کیونکہ ہم کردار کی اس سطح سے بھی نیچے آ رہے ہیں کہ جہاں شر و خیر کی تمیز ہی نہیں رہتی۔بحیثیت مسلم اور مسلم معاشرے کے خیر و شر میں تمیز کرنے کے لیے قرآن سب سے بہتر تحفہ ہے جو انسان کے کردار کو اس قدر شفاف اور بہتر بنا دیتا ہے کہ معاشرہ بھی مثالی نمونہ بن جاتا ہے اور آخرت بھی سنور جاتی ہے۔ قرآن کو ترجمے یا سمجھنے کے ساتھ پڑھنے کا بھی ایک اہم مسئلہ بنا دیا گیا ہے حالانکہ یہ تحفہ ہمیں بھیجا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کو سمجھیں، اس کو سمجھ کر اس کا مطالعہ کر کے ان نام نہاد تماشا گروں سے بھی نجات مل سکتی ہے جو اپنی شعبدہ بازی کے ذریعے وقفے وقفے سے میلہ سجاتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر اسرار احمد کا یہ کہنا بالکل بجا تھا اور ہے کہ:
اور ''ہم'' خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر