مختلف جماعتوں کے راہ نماؤں نے شہر کے پھیرے لگانا شروع کردیے

تمام ہی سیاسی جماعتیں حیدرآباد میں اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔


Junaid Khanzada February 19, 2013
پیپلز پارٹی کے کئی اہم رہنما حیدرآباد میں سرگرم عمل ہوگئے ہیں۔ فوٹو: فائل

چار سال 11 ماہ، یعنی 59 ماہ بعد بالٓاخر، ایم کیو ایم حکومت سے الگ ہوگئی ہے۔اس عمل کو حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ قوم پرستوں نے بھی سیاسی کھیل کا اہم موڑ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایم کیو ایم کی حکومت سے علحیدگی، دراصل پیپلز پارٹی کے بگ گیم کا حصہ ہے۔

اب ایم کیو ایم اپوزیشن کی بڑی جماعت ہو گی۔ اس لیے اپوزیشن لیڈر بھی ایم کیو ایم سے ہو گا۔ یوں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم مل کر سندھ میں نگراں وزیراعلیٰ کا فیصلہ کریں گی۔ جس کے بل بوتے پر آئندہ عام انتخابات میں سندھ کارڈ استعمال کیے بغیر، مخالفین کو سندھ سے فارغ کر دیا جائے گا اور پیپلز پارٹی کے قائدین کی تمام تر توجہ، پنجاب کی بساط پر رہے گی، جہاں پہلے ہی بلاول ہاؤس بنایا جاچکا ہے۔

قوم پرست اور اپوزیشن کی جماعتیں اپنی بات میں وزن ڈالنے کے لیے یہ مثال دے رہی ہیں کہ ایم کیو ایم کی علحیدگی کے باوجود اب تک دونوں جانب سے جس شائستگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے وہ معنی خیز ہے۔ سال گذشتہ کی 14 دسمبر کو حیدرآباد میں تاریخی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے پیر صاحب پگارہ سید صبغت اﷲ شاہ راشدی اس بات کا انکشاف کر چکے تھے کہ جیسے ہی الیکشن قریب آئیں گے متحدہ، حکومت سے الگ ہو جائے گی، اور ایسا ہی ہوا۔

اس دوران تقریباً تمام ہی سیاسی جماعتیں حیدرآباد میں اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، جن کے مرکزی و صوبائی راہ نما مسلسل حیدرآباد کے چکر کاٹتے رہے۔ میاں محمد نواز شریف بھی حیدرآباد کے پڑوسی ضلع مٹیاری تک آئے اور واپس لوٹ گئے، لیکن اس دوران ایم کیو ایم کے توجہ محض ، الیکشن کی تیاریوں پر رہی۔ امکان ہے کہ جیسے ہی الیکشن کا اعلان ہو گا متحدہ دھماکا دار انٹری کے ساتھ الیکشن کی سرگرمیاں شروع کر دے گی۔ شنید ہے کہ متحدہ کی جانب سے تو اپنے تمام پولنگ ایجنٹس تک طے کر لیے گئے ہیں کہ کون کس پولنگ اسٹیشن میں بطور پولنگ ایجنٹ کی ڈیوٹی دے گا، جب کہ اس بار یہاں سے ایم کیو ایم کے امیدوار کون کون ہوں گے؟ یہ بات شاید ابھی متوقع امیدواروں کو بھی نہیں معلوم کہ کس کس کو پارٹی ٹکٹ مل سکتا ہے۔

بہرحال پارٹی نے چھے ماہ پہلے ہی کارکنان کی سطح تک اس سلسلے میں مشورہ کر لیا ہے کہ وہ اب اپنے علاقوں سے کس کو رکن صوبائی و رکن قومی اسمبلی دیکھنا چاہتے ہیں اور ہر کارکن نے اس سلسلے میں کھل کر اپنے یونٹس اور یونٹس نے سیکڑز اور سیکٹرز نے زونل کمیٹی کے اپنے خیالات سے آگاہ کر دیا ہے، جس کے متعلق رپورٹ سندھ تنظیمی کمیٹی کے توسط سے رابطہ کمیٹی کو بھی بھیجی جا چکی ہے۔ اس لیے جب تمام سیاسی جماعتیں الیکشن مہم کا آغاز ہوتے ہی سرگرمیاں اور تیاریاں شروع کریں گی، تو اس وقت ایم کیو ایم تیاریوں مکمل کرکے سرگرمیاں شروع کرچکی ہوگی۔ اگر سال 2002 کے عام الیکشن میں حیدرآباد سٹی سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی ایک ایک نشست پر شکست کے استثنیٰ کے ساتھ، 1998 سے ہونے والے عام انتخابات میں ایم کیو ایم حیدرآباد سے قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات بہ آسانی جیتی آئی ہے۔

1993 میں جب ایم کیو ایم نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تو شہر کے قومی اسمبلی کے دونوں حلقوں سے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے امیدوار جیتے تھے، لیکن ایم کیو ایم نے صوبائی اسمبلی کے الیکشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لیا تو شہر سے صوبائی اسمبلی کے حلقوں کی چاروں نشستیں ایم کیو ایم نے اس طرح جیتیں کہ ایک ایک صوبائی ممبر نے قومی اسمبلی کے دونوں امیدواروں کے مجموعی ووٹوں سے بھی زیادہ ووٹ لیے تھے۔

2001 میں حیدرآباد شہر سے قومی اسمبلی کی نشست پر سابق میئر آفتاب شیخ کو جے یو پی کے اُس وقت کے سینئر نائب صدر اور موجودہ مرکزی صدر صاحبزادہ ابوالخیرمحمد زبیر اور حق پرست امیدوار فاروق قریشی کو جے یو پی کے اُس وقت کے راہ نما عبدالرحمان راجپوت نے کانٹے کے مقابلے کے بعد شکست دے کر سب کو حیرت زدہ کر دیا تھا۔ یہ دونوں جیتنے والے امیدوار متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے تھے، جے یوپی جس کا حصہ تھی۔

اس وقت بھی جے یو پی کے مرکزی صدر صاحبزادہ ابولخیر محمد زبیر نے شہر میں متحدہ کے امیدواروں کے ون ٹو ون مقابلے کے لیے نہایت خاموش سرگرمیاں شروع کر رکھی ہیں، جس کے لیے انھوں نے دس جماعتوں کے غیراعلانیہ طور پر تشکیل دیے جانے والے انتخابی اتحاد کے سربراہ پیر صاحب پگارہ سے کراچی جا کر ملاقات کی اور حیدرآباد کی صورت حال سے انہیں آگاہ کیا، جب کہ ایم ایم اے کی بحالی کے لیے بھی وہ کافی سرگرم رہے ہیں۔ ان کی جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے بھی بات ہوئی ہے اور جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن بھی ان سے رابطے میں ہیں۔ اس لیے سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ صاحبزادہ زبیر، ایک بار پھر حیدرآباد شہر میں متحدہ کے امیدوار کے سامنے مضبوط امیدوار ہو سکتے ہیں، جنہیں پی پی پی کے علاوہ دیگر جماعتوں کی حمایت بھی حاصل ہو سکتی ہے۔ مسلم لیگ نون کے صاحبزادہ شبیر انصاری بھی اس سلسلے میں سرگرم ہیں۔

جس روز ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنونینر نے حکومت سے علحیدگی کا اعلان کیا۔ اس کے اگلے روز ہی حیدرآباد میں ایم کیو ایم نے تنظیم نو کے نام پر نئی صف بندی کرلی ہے۔ یعنی حیدرآباد زون کے تحت 12سیکٹرز اور 108یونٹس میں نئے عہدے دار منتخب کر لیے گیے ہیں اور حیدرآباد زون میں شامل مٹیاری ضلع کے مٹیاری و ہالا سیکٹرز کو الگ کر کے مٹیاری زون تشکیل دینے کا اعلان بھی جلد متوقع ہے۔

دوسری جانب پیپلز پارٹی کے مرکزی راہ نما وفاقی وزیرِقانون برائے سیاسی امور سینٹیر مولا بخش چانڈیو ایک بار پھر پورے ہفتے حیدرآباد میں سرگرم رہے۔ وہ پیپلز پارٹی کی عوامی رابطہ مہم کے سلسلے میں سحرش نگر میں منعقدہ استقبالیہ تقریب میں شرکت کے لیے پہنچے تو ان کے استقبال کے لیے موجود جیالوں کی خوشی دیدنی تھی۔ جیالوں نے سینیٹر مولا بخش چانڈیو کو اپنے درمیان دیکھ کر خوشی میں جدید اسلحہ سے ہوائی فائرنگ ان کا استقبال کیا، جس کے نتیجے میں پورا علاقہ فائرنگ سے گونج اٹھا۔ اس موقع پر پولیس افسران و اہل کاروں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی، لیکن انھوں نے جیالوں کو روکنے سے گریز کیا اور وفاقی وزیر کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ ہوائی فائرنگ کا سلسلہ جب حد سے گزر گیا تو وفاقی وزیر سینیٹر مولا بخش چانڈیو اور دیگر پارٹی راہ نماؤں نے کارکنوں پر ناراضی کا اظہار کیا اور انہیں ہوائی فائرنگ کرنے سے منع کیا، لیکن جیالے باز نہیں آئے اور ان کی جانب سے روکے جانے کے باوجود جیالے کافی دیر تک ہوائی فائرنگ کرکے طاقت کا مظاہرہ کرتے رہے۔ تقریب سے خطاب اور صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ حکومت اور اہم ملکی اداروں کی یقین دہانی کے بعد کسی کو بھی عام انتخابات کے وقت پر انعقاد پر شک نہیں کرنا چاہیے۔

نگراں وزیراعظم کے نام کے لیے مشاورت ہوگئی ہے۔ پارٹی کے ضلعی جنرل سیکریٹری سید فیاض علی شاہ، نائب صدور عبدالجبار خان، جام خان شورو اور سیکریٹری اطلاعات آفتاب احمد خانزادہ بھی اس موقع پر موجود تھے۔ مولا بخش چانڈیو کا کہنا تھا کہ عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے غیریقینی کی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن حکومت، اس کے اتحادیوں اور اہم ملکی اداروں کی جانب سے وقت پر عام انتخابات ہونے کی یقین دہانی کے بعد کسی کو عام انتخابات کے وقت پر انعقاد پر شک نہیں ہونا چاہیے۔ عام انتخابات نہ صرف وقت پر بلکہ صاف وشفاف بھی ہوں گے اور جس طرح چیف الیکشن کمشنر کا تقرر اتفاق رائے سے کیا، اسی طرح نگراں وزیراعظم بھی وہ آئے گا جس پر تمام سیاسی جماعتیں متفق ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ موجودہ جمہوری حکومت کے پانچ سال پورے کرنا صدر آصف علی زرداری کے تدبر کا نتیجہ ہے، جوکہ کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ ہم پر صرف یہ الزام نہیں لگتا کہ طاہرالقادری کے پیچھے پیپلزپارٹی ہے بلکہ ہمارے مخالفین تو اپنی تمام بدنصیبیوں کا ذمہ دار پیپلزپارٹی ہی کو سمجھتے ہیں۔ ہم نے طاہرالقادری سے اس لیے مذاکرات کیے تھے کہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ اسلام آباد میں لال مسجد جیسا ایک اور واقعہ ہو، بچوں اور خواتین سمیت لوگ ان کے ساتھ تھے اور یہ حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے لوگوں کی حفاظت کرے۔ انھوں نے کہا کہ کراچی میں امن وامان کے مسئلے کو ایک بحران بنا دیا گیا ہے۔ کراچی کے مسئلے کا حل کوئی آپریش نہیں، اگر آپریشن مسئلے کا حل ہوتا تو پھر نواز شریف دو مرتبہ کراچی کو فوج کے حوالے کر کے دیکھ چکے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر کراچی کے مسئلے کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ ایم کیو ایم کی ناراضی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان کوئی کشیدگی نہیں اور نہ ہی ایسی کوئی صورت حال بنتی دکھائی دے رہی ہے، حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے کو ہیں اور اگر کوئی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوئی بھی ہیں تو انہیں حل کرلیا جائے گا۔

یہ ہفتہ حیدرآباد کے لیے اس لحاظ سے بھی اہم رہا کہ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے وزیردفاع سید نوید قمر، جو حیدرآباد آتے ہیں تو صرف اپنے حلقہ ٹنڈو محمد ضلع ہی تک اپنی سرگرمیاں محدود رکھتے ہیں اور گذشتہ پانچ سال کے دوران انھوں نے حیدرآباد میں کوئی سرگرمی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے، انھوں نے حیدرآباد شہر سے متصل ٹنڈو حیدر کا دورہ کیا۔ سید نوید قمر نے وہاں قائم ہونے والے نئے پریس کلب کا افتتاح کیا اور خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مخالفین بلاجواز پروپیگنڈا کر رہے ہیں، الیکشن اپنے مقررہ وقت پر ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی پی پی ایک عوامی پارٹی ہے، جو ہمیشہ عوام کی بھلائی کے لیے سرگرم رہی ہے۔ پی پی کے حکومت نے ہمیشہ پاکستان کی خوش حالی کے لیے کام کیا ہے اور صدر آصف علی زرداری کی قیادت میں ایک جمہوری حکومت پہلی بار پانچ سال مکمل کر رہی ہے اور اس حکومت نے ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں دہشت گردی ایک بڑا چیلینج ہے، مگر ہماری حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوشاں ہے۔ اس موقع پر پی پی تعلقہ دیہی کے صدر میر شیر محمد تالپور، حاجی غلام نبی ڈاہری، عبدالشکور کیریو، حاجی عرس کوری، محسن تالپور، غلام نبی ڈاہری و دیگر بھی موجود تھے۔

ادھر مسلم لیگ ن کے صوبائی جنرل سیکریٹری سلیم ضیاء نے بھی حیدرآباد کا دورہ کیا اور یہاں حیدرآباد پریس کلب میں خالد عزیز آرائیں، حنیف صدیقی، پریل بگھیو و دیگر راہ نماؤں کے ساتھ نیوز کانفرنس کی ان کا کہنا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ اگر حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنا چاہتی ہے تو پھر گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد بھی اپنا استعفیٰ پیش کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم چار سال سے زاید عرصہ اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد اپوزیشن میں جاکر ڈراما رچارہی ہے۔ اگر ایم کیو ایم واقعی اپوزیشن کا کردار ادا کرنا چاہتی ہے تو گورنر سندھ اپنا استعفیٰ پیش کریں اور صوبائی و قومی اسمبلی میں حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ لائے، ہم ان کا ساتھ دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم اور پاکستان پیپلز پارٹی گٹھ جوڑ سے نگراں سیٹ اپ کے لیے کھیل کھیل رہی ہیں، تاکہ مرضی کا نگراں سیٹ اپ لا کر اپنے مفادات حاصل کیے جا سکیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایم کیو ایم سے مذاکرات کے دروازے بند نہیں ہوئے ہیں، اگر وہ سانحۂ بارہ مئی، دو قومی نظریے اور بلدیاتی نظام کے حوالے سے وضاحت پیش کریں، تو ان سے بات چیت ہوسکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ بہاولپور صوبہ بننے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں، لیکن لسانی بنیاد پر صوبوں کی تشکیل پر اعتراض ہے۔

انھوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف اور فنکشنل لیگ کے سربراہ پیر پگارا کے مابین ہونے والی ملاقات موسمی خرابی کے باعث ملتوی ہوئی ہے، جو آئندہ چند روز میں متوقع ہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ صوبائی و قومی اسمبلی کے کئی اراکین سے رابطے کیے جارہے اور وہ بہت جلد مناسب وقت پر مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کریں گے۔ انھوں نے سانحۂ کوئٹہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ زخمیوں کو علاج معالجے کی بہتر سے بہتر سہولیات فراہم کی جائیں۔

اگلے ہی دن مسلم لیگ نون سندھ کے ترجمان اسماعیل راہو بھی حیدرآباد آئے اور پریس کلب ہی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے پانچ سال پورے کرنے میں حکومت کا کوئی کارنامہ نہیں، بلکہ یہ نواز شریف کی کام یابی ہے کہ انھوں نے مثبت جمہوری اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کیا۔ اسماعیل راہو نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دورِحکومت میں پورا ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے اور امن وامان کی صورت حال انتہائی خراب ہے۔ کراچی اور کوئٹہ میں معصوم بے گناہ افراد کو ٹارگیٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور پورے ملک میں کہیں پر بھی حکومت کی رٹ نہیں ہے، حکومت کی ترجیحات میں عوام، امن وامان یا عوام کی فلاح و بہبود نہیں بلکہ اس کی ترجیح صرف کرپشن ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں