تعلیم یافتہ مجرم
غلامی اور غلامی کا احساس یہاں تک پنپ جاتا ہے کہ ایک تعلیم یافتہ شہری بھی مجرم بن جاتا ہے۔
PESHAWAR:
جو حکومتیں انصاف وعدل و قانون پر توجہ نہیں دیتیں، وہاں پورا معاشرہ دبنا شروع ہوجاتا ہے، احساس کمتری، مایوسی بڑھنے لگتی ہے اور کبھی کبھی منفی سوچیں اتنی تیزی سے پھیلتی ہیں کہ معاشرے کی جڑیں ہلا کر رکھ دیتی ہیں۔گھر سے لے کر اداروں تک، سب لسٹ میں آجاتے ہیں، طاقتور، کمزور کو دبانے لگتا ہے، غلام بنانے لگتا ہے۔ اپنی جاگیر سمجھ کر اس کو بنجر بنانے پر تل جاتا ہے۔ غلامی اور غلامی کا احساس یہاں تک پنپ جاتا ہے کہ ایک تعلیم یافتہ شہری بھی مجرم بن جاتا ہے۔
یہی سب کچھ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔نوے کی دہائی کے بعد سے پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی شہر کراچی نے کیسے کیسے دکھ جھیلے ہیں یہ یہاں کے رہنے والے ہی بتا سکتے ہیں، سر شام سے ایک خوف ہو جاتا تھا، راتوں کو گھروں سے نکلنا مشکل تھا، گولیوں کا استعمال بہت آزادانہ ہوتا تھا کہ نہ مرنے والے کو پتا اور نہ مارنے والے کو۔ گویا کہ مرنے مارنے کے موسم ہی بن گئے تھے۔گوکہ کراچی کے رہنے والے سب سے زیادہ تعلیم یافتہ لوگ ہیں، کلچر کو سمجھتے ہیں، روایتوں کو سمجھتے ہیں، اس کے باوجود اس شہر نے بہت مرتبہ بہت ساری لاشیں ایک ساتھ اٹھائی ہیں، نہ جانے کتنے کتنے گھروں میں ماتم ہوا، نجانے کتنے کتنے گھروں کے چراغ بجھ گئے، کتنی ماؤں نے حسرتوں کے ساتھ اپنے جوان بچوں کو دفنایا، کبھی گھر کا سربراہ گیا، کبھی گھر والے، گویا ایک درندوں سے بھرا جنگل بن گیا کہ یہ خون پینے والے نہ جانے کتنوں کو زندہ نگل گئے۔
پاکستان کیونکہ ہمیشہ سے ہمارے دشمنوں کو کھٹکتا رہا ہے، اس لیے پاکستان کے بننے کے بعد سے ہی سازشوں کا باب بھی ایسا کھلا ہے کہ آج ہماری عوام اور افواج ان سازشوں کا مقابلہ کر رہی ہیں، کبھی میڈیا کے ذریعے سے دہشت گردی پھیلائی گئی، کبھی فنڈنگ کے ذریعے سے جیسے جیسے نئی ایجادات آتی گئی گویا وہ ذریعہ بن گئی۔
بدقسمتی سے ہم نے کبھی تعلیم کو اپنی ٹاپ لسٹ میں نہیں رکھا ہمارے اپنے لوگوں نے بھی اپنے ہی لوگوں کو غلام بنانا چاہا، اب جس قوم کے پاس تعلیم ہی نہ ہو بھلا وہ کیسے نئی نئی ایجادات اور طریقوں کو سمجھیں، ہر سیاسی آدمی اپنی منطق دماغوں میں ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے، جن کو یہ منطق سمجھ آتی ہے وہ بے چارے ان کے پیچھے چل پڑتے ہیں اور وہ ببانگ دہل اپنی آواز کو قوم کی آواز سے تشبیہہ دیتا ہے۔ 2017 تک تعلیم کا بجٹ نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ علم حاصل کرنے والے کروڑوں ہیں۔
جتنا جبر ہوگا یا جتنی منفی پابندیاں ہوں گی، جتنا ظلم ہوگا، اتنے ہی منفی خیالات، منفی سوچیں پیدا ہوں گی، ہمارے تمام تجربہ کار سیاستدان، تجارت کرنے والے، بڑے بڑے کاروبار کرنے والے، بڑے وکیل، بڑے ڈاکٹرز سب کے سب سرکاری اسکولوں سے تعلیم یافتہ ہیں انھیں نہ کوئی شرم اور نہ کوئی حقیقت بیان کرنے پر ناراضگی، وجہ یہ ہے کہ سرکاری اسکولوں کا معیار بہترین ہوتا ہے استاد بے انتہا قابل تھے، وہ طالب علم کو تعلیم دینا اور اس کی صحیح سمت میں تربیت کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ کیسے کیسے لاجواب کردار، مضبوط لوگ انھی سرکاری اسکولوں سے نکلیں، ادب ہو یا وکالت یا کوئی اور پیشہ خوب خوب نام کمائے مگر آج کل اسکولز اے ٹی ایم مشین بن گئے ہیں، علم اور طالب علم استاد نہ جانے کہاں گم ہوگئے ہیں۔ O Level میں بچے پڑھیں یا A Level کریں یا IBA یا گریجویٹ ہوں اگر ان کو آگے جا کر قتل و غارت گری کرنی ہے۔
اپنے ذہین دماغوں کو منفی ہاتھوں میں دینا ہے، تو کیا یہ لمحہ فکریہ والدین کے لیے الارمنگ نہیں؟ کیا لاکھوں روپے اپنی ضرورتوں سے بچا کر اپنے آپ کو مفلس بنا کر اگر انگلش اسکولوں اور کالجز اور مہنگی ترین یونیورسٹیز سے تعلیم دلوانے کے بعد ہمارے بچے، ہمارے دشمنوں کے ہاتھوں کی تلوار بن جائیں تو پھر والدین کہاں جائیں، کہاں جاکر دہائی دیں، کس کس کو روئیں، کیا معاشرے کی تباہ کاری کے لیے بنائے گئے اصول وہ اصول نہیں جس میں حقوق غصب کیے جا رہے ہیں جس میں غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔
معاشرے میں ایسے پریشر پیدا کردیے گئے کہ والدین ایسی بے ہنگم دوڑ میں لگ گئے ہیں کہ نہ آج ان کا اور نہ آنے والا کل ۔ گھر سے لے کر اداروں تک تربیت کا رحجان ختم ہوگیا، وقت کی قلت ہوگئی، اعلیٰ طریقہ زندگی خواہش بن گئی، ضروریات زندگی اعلیٰ ترین ہونے لگی، مائیں آپ سے بھی زیادہ مصروف ہوگئیں، فیشن انڈسٹری پروان چڑھ گئی، کل کی ماں آج کی ماڈرن ممی بن گئی، باپ ابو سے ڈیڈی ہوگیا اور جوان اولاد نشے کے چکروں میں پھنس گئی، رہزنی کھیل تماشا ہوگئی گولی مارنا بہادری بن گئی، اسکرین سے اتر کر ڈرامے اور فلمیں گھروں میں آگئے، ہر گھر کا خانہ خراب ہونے لگا مگر ہم نے سیکھا کچھ نہیں، ہم نے سمجھا کچھ نہیں۔ اب کوئی بھی پیچھے مڑ کر دیکھنا نہیں چاہتا، ایک دوسرے کو مورد الزام قرار دینے والے گویا Hide Seek کھیل کے عادی ہونے لگے۔
جامعات اور کالجز میں جب تک یونین منتخب ہوتی رہیں طالب علم کو ایک پلیٹ فارم ملتا رہا، اختلافات اپنی جگہ ہوتے ہیں کبھی کبھی بات مار پیٹ تک بھی پہنچ جاتی ہے مگر مباحثے ہوتے، ہفتہ طلبا منایا جاتا، مکالمہ بیت بازی، مشاعرے، ڈرامے، اسپورٹس اور کردار سازی تک ہوتی۔
تعلیم کچھ لوگوں تک محدود نہ ہو بلکہ بچہ بچہ علم سے سرفراز ہو، پرائمری تک تعلیم کا معیار سرکاری اسکولوں میں بھی اعلیٰ ترین ہو۔ اساتذہ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار ہو، بہترین تنخواہوں میں رکھے گئے اساتذہ پر پوری طرح نظر رکھنے والا ادارہ بھی بہترین ہو۔ ہمیں ہر حال میں اپنے اس معاشرے کو درندوں سے بچانا ہوگا، کہاں کہاں پر خلا ہو رہا ہے، کہاں پر غلطیاں ہو رہی ہیں، انھیں ہنگامی بنیادوں پر سنوارنا ہوگا۔
نوجوانوں میں ان کے معیار کے مطابق، زمانے کو دیکھتے ہوئے ایسے رحجانات پروان چڑھانے ہوں گے جو مثبت ہوں، اور دیرپا، ہماری حکومت اور ہر آنے والی حکومتوں کی پہلی ضرورت تعلیم و تربیت ہو، والدین کو بھی جھوٹی زندگیوں سے نجات کے ذریعے بتائے جائیں، محبت اور قربت، خلوص، سچائی، ذہانت یہ ہم فلموں اور ڈراموں سے نہیں سیکھ سکتے وہ غیر ملکی پڑھا لکھا نوجوان تو ایک اثاثہ ہے، والدین کے لیے معاشرے کے لیے، مگر جب ان جوانوں کو تعلیم و تربیت دینے والے ہی خانہ خراب ہوجائیں، اور دماغوں سے کھیلنے لگیں تو کیا کیجیے۔
نہایت سنجیدگی سے طویل المعیاد ایسی اصلاحات رائج کی جائیں کہ تعلیمی ادارے صرف درس گاہیں ہی بنی رہیں، والدین اپنی جمع پونجی لگا کر اپنے پڑھے لکھے دہشت گرد بیٹے کی لاش کے ساتھ اگر جیلوں کے پیچھے بڑھاپے گزاریں گے تو ہم کس کس کو روئیں گے۔
نوٹ: میرے ایک گزشتہ کالم کی چند سطروں میں بوہری برادری کے محترم نمایندوں نے دلآزاری کے پہلو کی نشاندہی ہے ، مجھے اس نادانستہ غلطی پر افسوس ہے، آیندہ اس بات کا خیال رکھوں گی۔