ناامید کیوں

آپ کی منکوحہ نے ایک بار اپنی قائدانہ صلاحیت کا اظہار کیا تو آپ اس کے بھی خلاف ہوگئے۔


نجمہ عالم September 08, 2017
[email protected]

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے موجودہ حکومتی دورانیے کے چوتھے سال میں اپنی ناکامیوں، ان کی وجوہات پر جو روشنی اپنے انٹرویو میں (جو انھوں نے بی بی سی کو دیا ہے) ڈالی ہے ان کو اگرچہ ''دیر آید درست آید'' بھی کہا جاسکتا ہے۔واضح رہے اس انٹرویو کو عمران خان نے ایک چینل پر توڑمروڑ کر نشر کرنے پر سخت اعتراض کیا ہے ، تاہم زندگی بطور خاص قومی زندگی میں کچھ شعبے ایسے ہوتے ہیں جہاں بروقت فیصلے اور وہ بھی مکمل صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے مثبت انداز فکر سے بے حد اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔

انھی شعبوں میں سیاست بھی ہے۔ جس طرح ایک سرجن کو فوراً فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ اس سرجری کی نوعیت کیا ہے اورکیا کرنا مفید ثابت ہوگا، اسی طرح سیاست میں بھی بروقت درست فیصلہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ جذباتی اور منفی فیصلے سیاستداں اپنے دائرہ فکر (ذاتی مفاد) کے مطابق کر تو جاتے ہیں مگر ان کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے اور ملکی سیاست پٹری سے اترجاتی ہے تو پھر ایک طویل عرصہ اس کو واپس پٹری پر لانے میں لگ جاتا ہے، مگر اس دوران جو نقصان ہوچکا ہوتا ہے، اس کا ازالہ ملکی تاریخ میں کبھی بھی ممکن نہیں ہوتا ۔

خان صاحب! آج آپ اعتراف کر رہے ہیں کہ ہم سیاست میں ناتجربہ کار تھے بلکہ ہمارے تمام کارکنان بھی صورتحال کو سمجھنے سے قاصر تھے اور اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں کہ اچھا ہوا انھیں 2013 میں مرکز میں حکومت بنانے میں کامیابی نہ ہوئی ورنہ جو حال کے پی کے کا ہوا وہی وفاق (یعنی اپنے ملک کا) ہوتا۔ اس اعتراف کے بعد کیا قوم موصوف سے یہ پوچھنے کا حق نہیں رکھتی کہ اسی کرسی اقتدار کے لیے جتنے بے چین و بے قرار تھے آخر اس کی آپ نے کیا تیاری کی تھی؟ کس لیے آپ قبل از انتخابات خود کو ملک کا وزیر اعظم سمجھنے لگے تھے۔

کس وجہ سے آپ نے مسلسل دھاندلی کا شور مچایا۔ ثبوت پیش کرنے کے بلند و بانگ دعوے کیے اور وقت پر کسی بھی موقعے پر (تفصیل میں جائے بغیر) کوئی قابل ذکر یا قابل قبول ثبوت پیش نہ کرسکے۔ انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرتے ہوئے ہر وقت ریلیاں، دھمکیاں اور دھرنوں میں مصروف رہے جب کہ کھلے دل سے نتائج تسلیم کرکے ان طویل دھرنوں کے ذریعے ملکی معیشت اور عوامی زندگی کو جن مسائل میں آپ نے مبتلا کیا کہ بجائے عوامی خدمت، اپنے اختیار میں جو صوبہ تھا اس کو مثالی بناکر پوری قوم کا دل جیت لیتے تو کم ازکم اگلے انتخابات میں تو آپ کی کارکردگی کا گراف اتنا بلند ہوچکا ہوتا کہ صد فی صد نہ سہی 98 فیصد ووٹوں کی اکثریت سے آپ پوری شان کے ساتھ قائد ایوان یعنی وزیر اعظم بنتے۔ مگر آپ کی منفی سیاست اور اپنے علاوہ تمام لیڈروں کی ٹانگیں کھینچنے اور پگڑیاں اچھالنے سے آپ کے نیک خیالات و جذبات جو ملک اور قوم کے لیے (بقول آپ کے) تھے ان پر بھی پانی پھر گیا، گرد پڑ گئی۔ ملک کی سب سے فعال قوت یعنی نوجوان بڑے جذباتی انداز میں آپ کے ساتھ تھے مگر آپ باصلاحیت افراد سے دور رہتے تھے بلکہ خوفزدہ بھی تھے۔

آپ کی منکوحہ نے ایک بار اپنی قائدانہ صلاحیت کا اظہار کیا تو آپ اس کے بھی خلاف ہوگئے۔ اپنے نادان دوستوں کے کہنے پر (مبینہ طور پر) اس سے بھی علیحدگی اختیار کرلی۔ بہرحال یہ آپ کا ذاتی معاملہ تھا مگر اس سے آپ کی فطرت ضرور کھل کر سامنے آگئی اور پارٹی کے باصلاحیت نوجوان آپ کو چھوڑ کر جانے پر مجبور ہوگئے۔ آج آپ کے ووٹرز سوچنے پر مجبور ہیں (جو ماضی قریب کے دو حکمرانوں کے جذبہ حب الوطنی کے ڈسے ہوئے ہیں) کہ کیا اب پھر وہ کوئی غلط فیصلہ کرکے خود اور ملک کو کسی نئی مشکل میں مبتلا تو نہیں کرنے جا رہے؟

خان صاحب! آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ آپ کا سیاسی رویہ ابتدا سے ہی منفی رہا ہے آپ ہر کسی سے بلاوجہ پنگے لینے کے عادی ہیں۔ مثلاً کراچی میں ایم کیو ایم سے آپ نے ضمنی انتخاب میں جو رویہ اختیار کیا کہ ہم تو فلاں جگہ ہی اپنا انتخابی دفتر کھولیں گے، تو ایم کیو ایم کے ذمے داران ہار پھول اور آپ کی بیگم کے لیے تحائف لے کر استقبال کو کھڑے رہے اور آپ گاڑی سے اترے بنا واپس روانہ ہوگئے۔ اہلکاروں نے کھل کر آپ کا ساتھ دیا مگر آپ وہ نشست ہار گئے۔ کراچی میں قدم رکھتے ہوئے ڈرتے ہیں اور کراچی میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے خواہش مند بھی ہیں۔ کراچی والوں کی خدمت کیجیے، ان کے مسائل حل کرائیں، ان کے دل جیت لیجیے اور ووٹ حاصل کیجیے کون روکتا ہے آپ کو؟

خان صاحب! ایک آخری سوال اور۔ جس ایوان کا قائد بننے کے خواب آپ سوتے جاگتے دیکھتے رہتے ہیں (اور ماشا اللہ اب بھی پرامید ہیں کہ جو تجربہ آپ کو کے پی کے میں حکومت کرکے حاصل ہوا ہے وہ آیندہ مرکز میں کام آئے گا)اس کی آپ اور آپ کے ساتھیوں نے کس قدر عزت افزائی فرمائی۔ سچ بتائیں ان چار برسوں میں آپ نے کتنی بار ایوان میں قدم رنجہ فرمایا۔ جو آپ کے ایوان میں آنے اور کچھ دیر قیام فرما کر واپس چلے جانے کا متکبرانہ انداز تھا ایوان میں موجود ہر پارٹی کے ارکان اس سے اچھی طرح واقف ہیں(اس سلسلے میں کئی واقعات میرے ذاتی علم میں ہیں مگر اس کالم کے بجائے اگر کبھی آپ کی شخصیت پر کچھ لکھنے کا موقعہ ملا تو تب وہ سب لکھے جائیں گے) خان صاحب! آپ میں انتظامی اور فیصلہ سازی کی صلاحیت کا فقدان ہے شاید اللہ تعالیٰ کی مصلحت یہی تھی کہ ملک کی باگ ڈور آپ کے ہاتھ نہ آئے کیونکہ بے شک ہم بحیثیت قوم بے حد گناہ گار، غیر ذمے دار اور دوسروں پر انحصار کرنے والے ہیں۔ مگر اللہ رب العزت کو اس ملک کو شاید نہیں بلکہ یقینا تا ابد قائم رکھنا ہے تب ہی تو اب تک آپ کو کرسی اقتدار سے محروم رکھا ہوا ہے۔ مگر ناامیدی کفر ہے اپنا سیاسی رویہ اور انداز فکر تبدیل کر لیجیے تو یقین جانیے کہ تمام آزمائے ہوئے تو عوام مسترد کرچکے ہیں۔ حالات کا رخ آپ اب بھی اپنی سمت موڑ سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں