افغان طالبان سے مذاکرات کی ضرورت
اب وقت آ گیا ہے کہ امن قائم کرنے کے لیے اس بے مقصد جنگ کو بند کیا جائے
صدر ٹرمپ نے افغانستان میں امریکی مشکلات کا زیادہ تر الزام بڑی آسانی سے پاکستان پر عائد کر دیا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کسی حد تک صحیح کہہ رہے ہوںمگر امریکا کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ جب80ء کی دہائی میں اس کا مفاد تھا تو اس نے دہشتگرد تنظیموں کو کھلی چھٹی دی اور انھیں افغانستان میں جہاد کی ذمے داری سونپی۔
چنانچہ اگر آج پاکستان اور افغانستان میں بہت سے دہشتگرد گروپ ہیں تو اس کا ذمے دار بھی امریکا ہے۔صرف یہی نہیں، بلکہ امریکا اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے اُن نام نہاد مجاہدین کے گرد تقدس کا ہالہ بنایا جو80ء کی دہائی میں افغانستان میں لڑ رہے تھے۔پاکستان اور امریکا، دونوں نے انھیں مسلح کیا، سرمایہ فراہم کیا اور تربیت دی۔ افغان طالبان کی موجودہ شورش،اُسی جہاد کا تسلسل ہے جس کا راستہ انھیں اِن دونوں ملکوں، امریکا اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے دکھایا تھا۔
افغانستان کے بارے میں امریکی پالیسی،جس کا چند روز قبل صدر ٹرمپ نے اعلان کیا،پاکستان کے حوالے سے بہت سخت ہے۔اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ امریکا افغانستان کی موجودہ حکومت کی مدد سے وہاں کامیابی حاصل کرنے اور امن بحال کرنے کے قابل نہیں ہو سکا، غیر متوقع نہیں تھا ۔گزشتہ16 سال کے دوران امریکا نے طالبان کی شورش کو کچلنے کے لیے ہر حربہ آزمایا اور لگ بھگ800 بلین ڈالر خرچ کیے۔
افغانستان میں 2,50,000 نفری پر مشتمل ایک مضبوط فوج کی تشکیل اور اس کے لیے سرمایہ دینے کے باوجود، شورش کو کچلنے میں ناکامی پر صرف پاکستان کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ البتہ صدر ٹرمپ کی یہ بات صحیح ہے کہ امریکی فوج کے انخلا کی تاریخ کا اعلان کرنا نقصان دہ ہو گا۔اس سے طالبان کو یہ امید پیدا ہو گی کہ افغانستان سے امریکا کو تو مار بھگایا جائے گا جبکہ انھیں وہیں رہنا ہے۔یہ بات قابل فہم ہے کہ دونوں فریق یعنی امریکا اور طالبان، ڈیورنڈ لائن کی اس طرف اپنے حامیوں کے ساتھ ،ایک مضبوط پوزیشن میں مذاکرات کی میز پر آنا چاہیں گے۔ چنانچہ، افغانستان میں قیام امن کے لیے ان اہم مذاکرات سے قبل کسی بھی کمزوری کا اظہار، پینٹاگون کے حکمت عملی کے ماہرین کی غلطی ہو گی۔
پاکستان کو ٹرمپ کی پالیسی کے دو پہلووں پر سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا۔اول: ان کا یہ کہنا کہ'' ہم دہشتگردوں اور جرائم کے نیٹ ورکس کو جو پورے افغانستان میں تشدد اور خلفشار پھیلاتے ہیں، نشانہ بنانے کے لیے امریکی مسلح افواج کے اختیار کو بھی وسیع کریں گے----- انھیں جان لینا چاہیے کہ انھیں کہیں چھپنے کو جگہ نہیں ملے گی ؛ اور یہ کہ کوئی بھی گوشہ امریکی طاقت اور امریکی ہتھیاروں کی دسترس سے باہر نہیں ہے۔بدلہ تیز رفتار اور طاقتور ہوگا'' ۔اور دوم: '' میں نے پہلے ہی وہ پابندیاں اٹھا لی ہیں جو پچھلی انتظامیہ نے ہمارے فوجیوں پر لگا ئی تھیں اور جو وزیر دفاع اور فیلڈ میں ہمارے کمانڈروں کو دشمن کے خلاف پورے طور پر اور صحیح طریقے سے جنگ لڑنے سے روکتی تھیں---- واشنگٹن ڈی سی سے مائیکرو مینجمنٹ کے ذریعے جنگ نہیں جیتی جا سکتی'' ۔
پالیسی کے یہ پہلو خطر ناک ہیں کیونکہ اس طرح فیلڈ میں امریکا کے طاقتور کمانڈروں کو یہ اجازت مل سکتی ہے کہ وہ پاکستان میں افغان طالبان کے ٹھکانوں پر حملہ کریں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کی مسلح افواج ،ان دہشتگردوں کے خلاف دلیرانہ جنگ لڑ رہی ہیں جو حکومت کی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں۔اس نے دہشتگردوں سے بہت سے نو گو ایریا خالی کرا لیے ہیں اور تحریک طالبان پاکستان کی زیادہ تر قیادت اور دوسرے گروپ افغانستان بھاگ گئے ہیں۔افغان حکومت اور RAW پاکستان پر حملہ کرنے میں ان گروپوں کی مدد کرتی ہے۔یہ افغانستان، بھارت اور پاکستان کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کی قیادت میں مسلح گروپوں کی طرف سے لڑی جانے والی ایک ایسی بے سمت جنگ ہے جس میں پاکستان اور افغانستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے غیر ریاستی اداکاروںکو استعمال کیا جا رہا ہے۔
بھارتی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ پاکستان میں مختلف دہشتگرد گروپوں اور آزادی کے لیے لڑنے والوں کی مدد کر کے اب پاکستان کو اسی کی زبان میں جواب دے رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنی پالیسی تقریر میں بھارت کو اہمیت دیتے ہوئے پاکستان کے ان خدشات کو نظر انداز کر دیا کہ بھارت، افغانستان میں قدم جما کر پاکستان کو گھیرنے کی کوشش کر رہا ہے۔پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اسی خوف کی وجہ سے اُن افغان طالبان کی مدد جاری رکھے ہوئے ہے جنھیں وہ ڈیورنڈ لائن کے پار اپنا اتحادی سمجھتی ہے۔ افغان طالبان کی حمایت کا مقصد،افغان حکومت پر بھارت کے اثرو رسوخ کا جواب دینا بھی ہے۔
مایوسی کا شکار پاکستانی سوال کر رہے ہیں کہ جب پاکستان دہشتگردی کے خلاف لڑائی میں سب سے آگے ہے تو امریکا اس کے ساتھ کیوں غلط رویہ اختیار کرتا ہے۔پاکستان دہشت گردی کے حملوں میں اپنے 7,000 فوجی جوان اور 60,000 عام شہری کھو چکا ہے۔ صدر ٹرمپ کی نئی پالیسیوں پر سب سے زیادہ رد عمل پر جوش قوم پرست سیاست دانوں اور میڈیا کے پنڈتوں کی طرف سے سامنے آیا ہے۔حکومت کا خیال ہے کہ و ہ چین کی مدد سے امریکی دباؤ کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جائے گی۔
چینی انتظامیہ کی طرف سے پاکستان کی حمایت میں فوری جواب واضح طور پر اشارہ کرتا ہے کہ پاکستان نے اپنے جیو اسٹریٹجک مفادات جین کو آؤٹ سورس کر دیے ہیں۔بھارت کے تصوراتی خطرے کے خلاف پاکستان کی سلامتی کے ضامن کی حیثیت سے آج پاکستان کے لیے چین کی وہی اہمیت ہے جو ماضی میں امریکا کی تھی۔
تاریخی سیاق و سباق اور اس فکری غیر جانبداری کے بغیر کہ پاکستانی عوام کے مفاد میں کیا ہے،موجودہ پاک امریکا تعلقات پر بحث بیکار ثابت ہو گی۔موجودہ جذباتی بیانیہ اس بنیادی litmus ٹیسٹ پر پورا نہیں اترتا،جس پر ہر پالیسی کو پرکھا جاناچاہیے۔ٹیسٹ یہ ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے داخلی یا خارجہ پالیسی کے جو بھی فیصلے کیے جاتے ہیں انھیں پاکستان کے عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنانے میں کردار ادا کرنا چاہیے۔
صدر ٹرمپ صاف گو انسان ہیں، اس لیے انھوں نے پاکستان کو یاد دلایا کہ امریکا اسے اربوں ڈالر دے چکا ہے۔حقائق یہ ہیں کہ امریکا نے مالی اور فوجی امداد کے دروازے کھولے اور 2002ء سے2012ء تک پاکستان کو 23.6 بلین ڈالر دیے۔اس میں 15.82 بلین ڈالر کی فوجی امداد اور 7.77 بلین ڈالر کی اقتصادی امداد شامل تھی۔پاکستانی وزارت اقتصادیات کے ذرایع کہتے ہیں کہ 8.8 بلین ڈالر کی رقم امداد نہیں تھی، کیونکہ یہ کولیشن سپورٹ فنڈ(CFS) کی مد میں آئی تھی لہٰذا اس رقم کو 23.6 بلین ڈالر کی کُل گرانٹ سے منہا کرنا چاہیے۔اس طرح اصل امداد 14.8 بلین ڈالر رہ جاتی ہے۔ اور یو ایس کانگریس رپورٹ کے مطابق یہ ساری کی ساری رقم نہیں دی گئی تھی۔
اب اگر یو ایس کانگریس کے اعداد و شمار کو مان بھی لیا جائے تو1948ء سے اب تک امریکا سے پاکستان کو 43 بلین ڈالر سے زیادہ ملے، جن میں سے 23 بلین ڈالر پچھلے10 سال کے دوران مختص کیے گئے جب امریکا نے افغانستان میں جنگ شروع کی۔
پاکستان کے ملٹری چیف نے واضح کر دیا ہے کہ امریکا اور افغانستان کو پاکستان پر بھروسہ کرنا چاہیے کہ وہ افغان طالبان کی مالی اور اسٹریٹجک مدد نہیں کر رہا۔اگر ملک کے اندر پیدا ہونے والے جہادی گروپوں سے لڑائی کو سامنے رکھا جائے تو یہ محض الفاظ نہیں ہیں بلکہ پاکستانی فوج کے عمل سے عیاںہے۔
مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگرچہ مقامی جہادیوں کے خلاف جو اس ملک کے لیے خطرہ ہیں، ہماری دہشتگردی مخالف جنگ کی دنیا تعریف کرتی ہے ،مگر امریکی اس کی بات نہیں کرتے۔صدر ٹرمپ اور متعدد دیگر ممالک اس بات پر یقین نہیں کرتے کہ پاکستان شمال مشرق میں افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم نہیں کر رہا۔اور یہ کہ وہ اب بھی ایسے جہادیوں کو پناہ دیے ہوئے ہے جن کی کارروائیوں کا ہدف بھارت ہے، اس لیے جب ہم دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کا ذکر کرتے ہیں تو عالمی لیڈر اور امریکا دہشتگردوں کے مختلف گروپوں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
پاکستان کو آگے بڑھ کر افغانستان کے بارے میں چار ملکی مذاکرات کو پھر سے شروع کرنا چاہیے،جن میں چین اور امریکا بھی شامل ہیں۔یہ مذاکرات اس وقت تعطل کا شکار ہو گئے تھے جب افغان ذرایع کی جانب سے پاکستان کے ایک اسپتال میں ملا عمر کے انتقال کی خبر لیک ہوئی تھی۔اب وقت آ گیا ہے کہ امن قائم کرنے کے لیے اس بے مقصد جنگ کو بند کیا جائے ہم نہیں چاہتے کہ امریکی انتظامیہ افغان طالبان کی مدد بند کرنے کے لیے ہمیں دھمکیاں دے،یہ بات پاکستانی عوام کے مفاد میں ہے کہ پالیسی میں دوغلے پن کو ختم کیا جائے۔